’’جمہوری اتحاد ‘‘
عوام کی اکثریت اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔ تو یہ شعبدہ باز آج پھر اکٹھے ہو چکے ہیں۔
ڈیم کے لیے اے پی سی نہ کرنے والی جماعتیں ڈیم بنانے والوں کے خلاف اکٹھی ہوگئیں ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ اے پی سی عمران خان کے خلاف نہیں ہے بلکہ ڈیم کے خلاف ہے۔ بہرحال ماضی کی دو حریف جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اکھٹی ہو رہی ہیں،آئیے ان دونوں جماعتوںکے ماضی پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔
1999ء کے مارشل لاء سے پہلے یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں، دونوں ایک دوسرے پر کرپشن کے 232 کیسز درج کراچکی تھیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی میں ہر حد تک جانے کے لیے دونوں جماعتیں ہمہ وقت تیار رہتی تھیں۔ پھر جب مارشل لاء لگا اور اقتدار کی کرسی نیچے سے سرکتی ہوئی دکھائی دی، دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیااور پہلی بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کسی اتحاد میں شامل ہوئے۔ اور اُس اتحاد کا نام ''اے آرڈی'' رکھا گیا۔ اس اتحاد کے ذریعے اقتدار میں آنے کے لیے دونوں جماعتوں نے 2002ء کے الیکشن میں ایڑھی چوٹی کا زور لگایامگر بری طرح شکست سے دوچار ہوگئیں۔
اُس کے بعد یہ اتحاد ریزہ ریزہ ہوگیا۔پھر جب اقتدار کی یاد ستانے لگی تو 2006ء میں دونوں جماعتیں لندن میں اکٹھی ہوئیں اور میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے الیکشن 2008کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد ہمدردی کا ووٹ جب پیپلزپارٹی کو ملا تو اُس کے لیے اقتدار میں آنا آسان ہوگیا۔ جمہوریت کے ان علمبرداروں نے کرپشن میں انتہا کی ۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ اس دور کے آخری مہینوں میں اتوار کو بینک کھلوا کر بھی ٹرانزیکشن کی جاتی رہیں۔ پھر 2013ء میں ن لیگ کی باری آتی ہے تو اس دور کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ اس لیے انھیں چھیڑنے کی ضرورت نہیں، بس اتنا جان لیجیے کہ مسلم لیگ ن کے آخری دور میںکرپشن کے الزامات کی پاکستان کے مختلف اداروں میں شنوائی ہو رہی ہے۔ اب جب کہ الیکشن 2018ء میں تیسری پارٹی تحریک انصاف جیت چکی ہے۔ عوام کی اکثریت اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔ تو یہ شعبدہ باز آج پھر اکٹھے ہو چکے ہیں۔
یہ دوعملی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہونے والے سیاستدان خاص طور پر پیپلز پارٹی (زرداری) نے22جون 2011ء کو کہا تھا کہ ''مولوی نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی سیاست چاہتے ہیں، اسی سوچ نے محترمہ کی جان لی تھی، یہ نواز شریف کبھی نہیں سدھر سکتا۔'' پھر زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ اس مغل بادشاہ کو ہم نہیں چھوڑیں گے۔ ایک اور موقع پر کہا کہ یہ نواز شریف اور اُس کے حواری قومی چور ہیں، یہ عوام کے چور، یہ دھرتی پر بہت ناسور ہو چکا ہے ۔ پھر ذرا شہباز شریف کی 2013کی الیکشن مہم کے حوالے سے بیانات دیکھ لیں۔ ایک موقع پر شہباز شریف یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ''زرداری تمہیں اور تمہارے لٹیرے ساتھیوں کو اسی چوک میںاُلٹا لٹکائیں گے اور تمہاری جیبیں خالی کریں گے۔ '' پھر کہا کہ زر بابا اور چالیس چوروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس ان کے پیٹوں سے نکال کر عوام کے قدموں میں نچھاور کریں گے۔ پھر ایک موقع پر شہباز شریف ہی کہتے نظر آتے ہیں کہ اس زرداری کو لاڑکانہ، لاہور، راولپنڈی اور کراچی کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بھی شہباز شریف نہیں ہے۔
یہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے الیکشن 2018ء کے بعد اقتدار ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر ملک میں پہلی دفعہ 7دن میں تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد بن گیا۔ جس میں تحریک انصاف کے سوا تمام ملکی جماعتیں شامل ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اتحاد میں وہ تمام پارٹیاں اکٹھی ہوگئیں جو گزشتہ 10سال سے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتی نہیں تھکتی تھیں۔ ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگاتی رہیں، ایک دوسرے کو غدار کہتی رہیں، ایک دوسرے کوسیکیورٹی رسک قرار دیتی رہیں، ایک دوسرے کو چور قرار دیتی رہیں، ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں مصروف عمل رہیں۔
ایسے سیاستدانوں کے لیے برا لفظ استعمال کرنے کا دل چاہ رہا ہے جو آج تک اس عوام کے لیے مسائل کو حل کرنے کے لیے آج تک گرینڈ الائنس نہ بنا سکے۔ اس لیے ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ جماعتیں آج تک کسی عوامی مسئلے پر اکٹھے نہیں بیٹھیں، کبھی کالا باغ، بھاشا، دیا مر ڈیم کے لیے اکٹھی نہیں بیٹھیں، کبھی تعلیم، صحت اور صاف پانی فراہم کرنے کے حوالے سے اکٹھی نہیں بیٹھی، کاش یہ کبھی ملک کے 3کروڑ نوجوانوں کے روزگار پر ہی کوئی اے پی سی بلا لیتے،کاش یہ تعلیم عام کرنے اور خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے کوئی گرینڈ الائنس بنا لیتے، کاش یہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کوئی جرگہ منعقد کرا لیتے،کاش یہ محکمہ پولیس میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے چاروں صوبوں کو یکجا کرنے کی بات کرتے،کاش یہ لوگ ملک کی 22کروڑ آبادی کے لیے صاف پانی مہیا کرنے اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی اتحاد قائم کرتے، کاش یہ لوگ امپورٹ ایکسپورٹ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوتے نظر آتے،کاش یہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اور اُن کے سہولت کاروں کو چوراہوں پر لٹکانے کے لیے گول میز کانفرنس کرتے اور تمام جماعتیں حلف اُٹھاتیں کہ وہ ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہیں،کاش یہ لوگ ملک میں کھیلوں کے عدم فروغ کے لیے کچھ اقدامات کرنے پر راضی ہوتے اور بین الصوبائی کھیلوں کی بحالی کے لیے بات کرتے جو سالہا سال سے رکی ہوئی ہیں، کاش یہ پاک فوج کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر دشمن کے خلاف متحد ہونے کے لیے کوئی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کراتے،کاش یہ اُن شہداء کے لیے اکٹھے ہوجاتے جو اس ملک پر ان سیاستدانوں کی غفلت کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہوگئے،کاش یہ اُن شہداء کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اوراُن کے لواحقین کی دلجوئی کے لیے کوئی اہتمام کرتے اور عہد کرتے کہ ہر سال ''سویلین شہداء '' کا دن منا یا جائے گا جن میں ان شہدا کی قربانیوں کا ذکر کیا جائے گا اور دنیا کو معلوم ہوگا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں کتنی قربانیاں دی ہیں۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج اگر یہ اکٹھا ہوئے ہیں تو ایسی جماعت کے خلاف جو پہلی بار اقتدار میں آئی ہے۔ اسے کام نہ کرنے دینے اور احتجاج کرنے کے لیے عہد کیے جارہے ہیں۔ انھیں ناکام بنانے کے لیے اپنے تئیں پروپیگنڈہ کرایا جا رہا ہے کہ اگر یہ لوگ آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے تو یہ گناہ کبیرہ ہوگا، خالی خزانے چھوڑ کرجانے والے یہ سیاستدان کسی طرح سے بھی عمران خان اور اس کی ٹیم کے لیے میدان خالی چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن اُمید واثق ہے کہ عمران خان اور اُن کی ٹیم ان سیاستدانوںکے اوچھے ہتھکنڈوں سے پوری طرح واقف ہے اور وہ کبھی عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔
1999ء کے مارشل لاء سے پہلے یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں، دونوں ایک دوسرے پر کرپشن کے 232 کیسز درج کراچکی تھیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی میں ہر حد تک جانے کے لیے دونوں جماعتیں ہمہ وقت تیار رہتی تھیں۔ پھر جب مارشل لاء لگا اور اقتدار کی کرسی نیچے سے سرکتی ہوئی دکھائی دی، دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیااور پہلی بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کسی اتحاد میں شامل ہوئے۔ اور اُس اتحاد کا نام ''اے آرڈی'' رکھا گیا۔ اس اتحاد کے ذریعے اقتدار میں آنے کے لیے دونوں جماعتوں نے 2002ء کے الیکشن میں ایڑھی چوٹی کا زور لگایامگر بری طرح شکست سے دوچار ہوگئیں۔
اُس کے بعد یہ اتحاد ریزہ ریزہ ہوگیا۔پھر جب اقتدار کی یاد ستانے لگی تو 2006ء میں دونوں جماعتیں لندن میں اکٹھی ہوئیں اور میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے الیکشن 2008کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد ہمدردی کا ووٹ جب پیپلزپارٹی کو ملا تو اُس کے لیے اقتدار میں آنا آسان ہوگیا۔ جمہوریت کے ان علمبرداروں نے کرپشن میں انتہا کی ۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ اس دور کے آخری مہینوں میں اتوار کو بینک کھلوا کر بھی ٹرانزیکشن کی جاتی رہیں۔ پھر 2013ء میں ن لیگ کی باری آتی ہے تو اس دور کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ اس لیے انھیں چھیڑنے کی ضرورت نہیں، بس اتنا جان لیجیے کہ مسلم لیگ ن کے آخری دور میںکرپشن کے الزامات کی پاکستان کے مختلف اداروں میں شنوائی ہو رہی ہے۔ اب جب کہ الیکشن 2018ء میں تیسری پارٹی تحریک انصاف جیت چکی ہے۔ عوام کی اکثریت اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔ تو یہ شعبدہ باز آج پھر اکٹھے ہو چکے ہیں۔
یہ دوعملی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہونے والے سیاستدان خاص طور پر پیپلز پارٹی (زرداری) نے22جون 2011ء کو کہا تھا کہ ''مولوی نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی سیاست چاہتے ہیں، اسی سوچ نے محترمہ کی جان لی تھی، یہ نواز شریف کبھی نہیں سدھر سکتا۔'' پھر زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ اس مغل بادشاہ کو ہم نہیں چھوڑیں گے۔ ایک اور موقع پر کہا کہ یہ نواز شریف اور اُس کے حواری قومی چور ہیں، یہ عوام کے چور، یہ دھرتی پر بہت ناسور ہو چکا ہے ۔ پھر ذرا شہباز شریف کی 2013کی الیکشن مہم کے حوالے سے بیانات دیکھ لیں۔ ایک موقع پر شہباز شریف یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ''زرداری تمہیں اور تمہارے لٹیرے ساتھیوں کو اسی چوک میںاُلٹا لٹکائیں گے اور تمہاری جیبیں خالی کریں گے۔ '' پھر کہا کہ زر بابا اور چالیس چوروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس ان کے پیٹوں سے نکال کر عوام کے قدموں میں نچھاور کریں گے۔ پھر ایک موقع پر شہباز شریف ہی کہتے نظر آتے ہیں کہ اس زرداری کو لاڑکانہ، لاہور، راولپنڈی اور کراچی کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بھی شہباز شریف نہیں ہے۔
یہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے الیکشن 2018ء کے بعد اقتدار ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر ملک میں پہلی دفعہ 7دن میں تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد بن گیا۔ جس میں تحریک انصاف کے سوا تمام ملکی جماعتیں شامل ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اتحاد میں وہ تمام پارٹیاں اکٹھی ہوگئیں جو گزشتہ 10سال سے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتی نہیں تھکتی تھیں۔ ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگاتی رہیں، ایک دوسرے کو غدار کہتی رہیں، ایک دوسرے کوسیکیورٹی رسک قرار دیتی رہیں، ایک دوسرے کو چور قرار دیتی رہیں، ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں مصروف عمل رہیں۔
ایسے سیاستدانوں کے لیے برا لفظ استعمال کرنے کا دل چاہ رہا ہے جو آج تک اس عوام کے لیے مسائل کو حل کرنے کے لیے آج تک گرینڈ الائنس نہ بنا سکے۔ اس لیے ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ جماعتیں آج تک کسی عوامی مسئلے پر اکٹھے نہیں بیٹھیں، کبھی کالا باغ، بھاشا، دیا مر ڈیم کے لیے اکٹھی نہیں بیٹھیں، کبھی تعلیم، صحت اور صاف پانی فراہم کرنے کے حوالے سے اکٹھی نہیں بیٹھی، کاش یہ کبھی ملک کے 3کروڑ نوجوانوں کے روزگار پر ہی کوئی اے پی سی بلا لیتے،کاش یہ تعلیم عام کرنے اور خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے کوئی گرینڈ الائنس بنا لیتے، کاش یہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کوئی جرگہ منعقد کرا لیتے،کاش یہ محکمہ پولیس میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے چاروں صوبوں کو یکجا کرنے کی بات کرتے،کاش یہ لوگ ملک کی 22کروڑ آبادی کے لیے صاف پانی مہیا کرنے اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی اتحاد قائم کرتے، کاش یہ لوگ امپورٹ ایکسپورٹ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوتے نظر آتے،کاش یہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اور اُن کے سہولت کاروں کو چوراہوں پر لٹکانے کے لیے گول میز کانفرنس کرتے اور تمام جماعتیں حلف اُٹھاتیں کہ وہ ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہیں،کاش یہ لوگ ملک میں کھیلوں کے عدم فروغ کے لیے کچھ اقدامات کرنے پر راضی ہوتے اور بین الصوبائی کھیلوں کی بحالی کے لیے بات کرتے جو سالہا سال سے رکی ہوئی ہیں، کاش یہ پاک فوج کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر دشمن کے خلاف متحد ہونے کے لیے کوئی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کراتے،کاش یہ اُن شہداء کے لیے اکٹھے ہوجاتے جو اس ملک پر ان سیاستدانوں کی غفلت کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہوگئے،کاش یہ اُن شہداء کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اوراُن کے لواحقین کی دلجوئی کے لیے کوئی اہتمام کرتے اور عہد کرتے کہ ہر سال ''سویلین شہداء '' کا دن منا یا جائے گا جن میں ان شہدا کی قربانیوں کا ذکر کیا جائے گا اور دنیا کو معلوم ہوگا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں کتنی قربانیاں دی ہیں۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج اگر یہ اکٹھا ہوئے ہیں تو ایسی جماعت کے خلاف جو پہلی بار اقتدار میں آئی ہے۔ اسے کام نہ کرنے دینے اور احتجاج کرنے کے لیے عہد کیے جارہے ہیں۔ انھیں ناکام بنانے کے لیے اپنے تئیں پروپیگنڈہ کرایا جا رہا ہے کہ اگر یہ لوگ آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے تو یہ گناہ کبیرہ ہوگا، خالی خزانے چھوڑ کرجانے والے یہ سیاستدان کسی طرح سے بھی عمران خان اور اس کی ٹیم کے لیے میدان خالی چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن اُمید واثق ہے کہ عمران خان اور اُن کی ٹیم ان سیاستدانوںکے اوچھے ہتھکنڈوں سے پوری طرح واقف ہے اور وہ کبھی عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔