ایتھوپیا اور اریٹیریا امن کی طرف
اریٹیریا کے تین کمانڈوز بھی جیل میں تھے کیونکہ انھوں نے ایتھوپیا کے ہوائی جہاز پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
افریقا کے ملکوں ایتھوپیا اور اریٹیریا سے عشروں بعد ایک بڑی خوش خبری ملی ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہوں نے عشروں پر پھیلی ہوئی کشیدگی کو ترک کرکے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایتھوپیا عیسائی اکثریت رکھنے والا ملک ہے اور اریٹیریا مسلم اکثریت کا حامل ملک ہے۔
اخباری خبروں''کے مطابق ان دونوں ملکوں میں 18 سال سے جنگ جاری تھی، اس معاہدے سے دونوں ملکوں کے عوام خوش ہیں، خاص طور پر کاروباری حلقوں میں یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ دونوں ملکوں میں تجارت پھر سے شروع ہوجائے گی اور سرحدی شہر جلد دوبارہ ترقی کی طرف پیش قدمی کرنے لگیں گے، اس علاقے میں دونوں ملکوں کو ملانے والی شاہ راہ عشروں سے بند ہے، اب دونوں ملکوں کی دانش مندی سے امن کی امیدیں روشن ہوگئی ہیں ، دونوں ملکوں کو ملانے والی شاہ راہ کھل جاتی ہے تو ترقی کے مواقع پیدا ہوںگے اور عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی۔
ہماری یادوں میں 1969 کے واقعات کلبلارہے ہیں۔ 1969 میں ہم ٹریڈ یونین کے معروف رہنمائوں میں شامل تھے۔ 1969 میں ہمیں اور ہمارے بہت سارے ساتھیوں کو جن میں مزدور اور مزدور رہنما سب شامل تھے جرم بے گناہی میں لمبی لمبی سزائیں دی گئیں، اس اتفاق کو کیا کہیں کہ اسی دور میں طلبا تنظیم این ایس ایف کے دونوں گروپوں رشید حسنی خان اور کاظمی گروپ کے بہت سارے طلبا اور لیڈران کو بھی یحییٰ حکومت کی جانب سے کورٹوں کی لمبی لمبی سزائیں سنائی گئیں۔ این ایس ایف والوں نے ایک وارڈ پر قبضہ کرلیا تھا جہاں وہ آرام سے رہ رہے تھے۔
ہمارا وقت بھی ان دوستوں سے گپ شپ میں گزرتا تھا۔ اسی دور میں اریٹیریا کے تین کمانڈوز بھی جیل میں تھے کیونکہ انھوں نے ایتھوپیا کے ہوائی جہاز پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1969 میں ایریٹیریا کے کمانڈوز ایتھوپیا کے خلاف برسر پیکار تھے۔ اریٹیریا کے کراچی جیل میں قید تین کمانڈوز میں ایک کا نام علی تھا۔ علی ان کمانڈوز کا لیڈر تھا۔ ان کی تین رکنی کمانڈو ٹیم میں علی کے علاوہ محمد تھا اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والا فعالی تھا۔ہماری اریٹیریاکے کمانڈوز سے دوستی ہوگئی تھی۔ ہمارا بھی تین افراد عثمان بلوچ، شاہ رضا خان اور ہم پر مشتمل دوستوں کا گروہ تھا جو عموماً ساتھ رہتا تھا۔
یہ کوئی 52 سال پہلے کی بات ہے، ان دنوں اریٹیریاکے کمانڈوز ایتھوپیا کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ اخبار میں لکھا ہے کہ 18 سال سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جاری تھی، یہ بات ہماری سمجھ میں اس لیے نہیں آرہی ہے کہ اریٹیریاکے کمانڈوز کو ایتھوپیا کے ہوائی جہاز پر حملے کی کوشش کرتے ہوئے 52 سال ہورہے ہیں۔
بہر حال بات چل رہی تھی اریٹیریا کے علی محمد اور فعالی کی یہ تینوں دوست نوجوان تھے، ان میں سے محمد نامی کمانڈو بہت خوش مزاج تھا ہم جیسے ہی ان کے وارڈ میں پہنچتے، محمد چائے لے کر آجاتا تھا، ان تینوں کو اردو نہیں آتی تھی لیکن ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کرلیتے تھے، ان کے نوجوان لیڈر علی کو انگلش آتی تھی۔ یوں ہم سب کا گزارا ہوجاتا تھا۔ ہمارا تقریباً آدھے سے زیادہ دن علی محمد اور فعالی کے ساتھ گزرتا، تینوں کمانڈوز خوش مزاج تھے، کبھی کبھی ان کا رہنما جس کا نام غالباً عثمان تھا ،کراچی اپنے کمانڈوز سے ملنے اور غالباً انھیں ان کے خرچ وغیرہ دینے کے لیے آتا تھا، وہ بھی بہت زندہ دل آدمی تھا۔ 1969 میں یہ لڑائی کئی سال سے لڑی جارہی تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لڑائی کتنی طویل تھی یعنی 50-60 سال پرانی تھی، آج میں یہ دیکھ کر حیران ہورہاہوں کہ اخبار میں لکھا ہے کہ 18 سال کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں ایتھوپیا اور اریٹیریاکے درمیان بہتر تعلقات اور جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے۔
جنگ کا عرصہ کتنا دراز ہے، اس سے قطع نظر خوشی کی بات یہ ہے کہ طویل عرصے تک متحارب ملکوں کے درمیان نہ صرف جنگ بندی ہوگئی ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی شروع ہونے جارہی ہے جس کا فائدہ دونوں ملکوں کے عوام کو ہوگا۔ ہماری علی محمد اور فعالی سے ملاقات کو اب 52 سال ہورہے ہیں لیکن یہ کل بات یقینی ہے تینوں کمانڈوز کے مسکراتے چہرے اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کے دلفریب مناظر آج بھی ہماری آنکھوں کے آگے پھررہے ہیں۔ 1969 میں یہ تینوں کمانڈوز نوجوان تھے اب یقیناً بوڑھے ہوگئے ہوںگے۔
دونوں ملکوں کے درمیان نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط اس جنگ میں کتنا جانی اور کتنا مالی نقصان ہوا اس کا تو ہمیں اندازہ نہیں لیکن اس کا اندازہ بہر حال لگایا جاسکتا ہے کہ نصف صدی کی اس جنگ میں کتنا جانی کتنا مالی نقصان ہوا ہوگا۔آج افریقا بھی دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، ہر روز دھماکوں، خودکش حملوں کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ دہشت گردی کے اس آسیب میں جان سے جانے والے معصوم اور بے گناہ لوگوں کا جرم کیا ہے، اس کا جواب متعلقہ فریقوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کو بھی دینا چاہیے کہ اس نے ایتھوپیا اور اریٹیریا کی نصف صدی پر پھیلی اس جنگ کو روکنے کی کیا کوششیں کیں اور اسے جنگ روکنے میں کامیابی کیوں حاصل نہیں ہوئی۔دنیا کے جو ملک جنگی صورتحال سے دو چار ہیں، ان میں ایران سر فہرست ہے۔
امریکا کے حکمرانوں کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اتنی سخت پابندیوں کے باوجود ایران کس طرح پھل پھول رہا ہے۔ امریکی تاریخ کے سب سے بڑے جنگ باز صدر ٹرمپ کے تازہ بیان کے مطابق اگر ایران نے دوبارہ دھمکی دی تو اسے ایسا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا جو تاریخ میں کبھی کسی نے نہ اٹھایا ہوگا۔ اسرائیل کی اندھی حمایت میں ٹرمپ اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ جنگ کیا ہوتی ہے، اس کے نقصانات کیا ہوتے ہیں، اس کا مشاہدہ میدان جنگ ہی میں ہوسکتا ہے۔ بیان بازی سے اس نقصان کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔
اخباری خبروں''کے مطابق ان دونوں ملکوں میں 18 سال سے جنگ جاری تھی، اس معاہدے سے دونوں ملکوں کے عوام خوش ہیں، خاص طور پر کاروباری حلقوں میں یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ دونوں ملکوں میں تجارت پھر سے شروع ہوجائے گی اور سرحدی شہر جلد دوبارہ ترقی کی طرف پیش قدمی کرنے لگیں گے، اس علاقے میں دونوں ملکوں کو ملانے والی شاہ راہ عشروں سے بند ہے، اب دونوں ملکوں کی دانش مندی سے امن کی امیدیں روشن ہوگئی ہیں ، دونوں ملکوں کو ملانے والی شاہ راہ کھل جاتی ہے تو ترقی کے مواقع پیدا ہوںگے اور عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی۔
ہماری یادوں میں 1969 کے واقعات کلبلارہے ہیں۔ 1969 میں ہم ٹریڈ یونین کے معروف رہنمائوں میں شامل تھے۔ 1969 میں ہمیں اور ہمارے بہت سارے ساتھیوں کو جن میں مزدور اور مزدور رہنما سب شامل تھے جرم بے گناہی میں لمبی لمبی سزائیں دی گئیں، اس اتفاق کو کیا کہیں کہ اسی دور میں طلبا تنظیم این ایس ایف کے دونوں گروپوں رشید حسنی خان اور کاظمی گروپ کے بہت سارے طلبا اور لیڈران کو بھی یحییٰ حکومت کی جانب سے کورٹوں کی لمبی لمبی سزائیں سنائی گئیں۔ این ایس ایف والوں نے ایک وارڈ پر قبضہ کرلیا تھا جہاں وہ آرام سے رہ رہے تھے۔
ہمارا وقت بھی ان دوستوں سے گپ شپ میں گزرتا تھا۔ اسی دور میں اریٹیریا کے تین کمانڈوز بھی جیل میں تھے کیونکہ انھوں نے ایتھوپیا کے ہوائی جہاز پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1969 میں ایریٹیریا کے کمانڈوز ایتھوپیا کے خلاف برسر پیکار تھے۔ اریٹیریا کے کراچی جیل میں قید تین کمانڈوز میں ایک کا نام علی تھا۔ علی ان کمانڈوز کا لیڈر تھا۔ ان کی تین رکنی کمانڈو ٹیم میں علی کے علاوہ محمد تھا اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والا فعالی تھا۔ہماری اریٹیریاکے کمانڈوز سے دوستی ہوگئی تھی۔ ہمارا بھی تین افراد عثمان بلوچ، شاہ رضا خان اور ہم پر مشتمل دوستوں کا گروہ تھا جو عموماً ساتھ رہتا تھا۔
یہ کوئی 52 سال پہلے کی بات ہے، ان دنوں اریٹیریاکے کمانڈوز ایتھوپیا کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ اخبار میں لکھا ہے کہ 18 سال سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جاری تھی، یہ بات ہماری سمجھ میں اس لیے نہیں آرہی ہے کہ اریٹیریاکے کمانڈوز کو ایتھوپیا کے ہوائی جہاز پر حملے کی کوشش کرتے ہوئے 52 سال ہورہے ہیں۔
بہر حال بات چل رہی تھی اریٹیریا کے علی محمد اور فعالی کی یہ تینوں دوست نوجوان تھے، ان میں سے محمد نامی کمانڈو بہت خوش مزاج تھا ہم جیسے ہی ان کے وارڈ میں پہنچتے، محمد چائے لے کر آجاتا تھا، ان تینوں کو اردو نہیں آتی تھی لیکن ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کرلیتے تھے، ان کے نوجوان لیڈر علی کو انگلش آتی تھی۔ یوں ہم سب کا گزارا ہوجاتا تھا۔ ہمارا تقریباً آدھے سے زیادہ دن علی محمد اور فعالی کے ساتھ گزرتا، تینوں کمانڈوز خوش مزاج تھے، کبھی کبھی ان کا رہنما جس کا نام غالباً عثمان تھا ،کراچی اپنے کمانڈوز سے ملنے اور غالباً انھیں ان کے خرچ وغیرہ دینے کے لیے آتا تھا، وہ بھی بہت زندہ دل آدمی تھا۔ 1969 میں یہ لڑائی کئی سال سے لڑی جارہی تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لڑائی کتنی طویل تھی یعنی 50-60 سال پرانی تھی، آج میں یہ دیکھ کر حیران ہورہاہوں کہ اخبار میں لکھا ہے کہ 18 سال کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں ایتھوپیا اور اریٹیریاکے درمیان بہتر تعلقات اور جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے۔
جنگ کا عرصہ کتنا دراز ہے، اس سے قطع نظر خوشی کی بات یہ ہے کہ طویل عرصے تک متحارب ملکوں کے درمیان نہ صرف جنگ بندی ہوگئی ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی شروع ہونے جارہی ہے جس کا فائدہ دونوں ملکوں کے عوام کو ہوگا۔ ہماری علی محمد اور فعالی سے ملاقات کو اب 52 سال ہورہے ہیں لیکن یہ کل بات یقینی ہے تینوں کمانڈوز کے مسکراتے چہرے اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کے دلفریب مناظر آج بھی ہماری آنکھوں کے آگے پھررہے ہیں۔ 1969 میں یہ تینوں کمانڈوز نوجوان تھے اب یقیناً بوڑھے ہوگئے ہوںگے۔
دونوں ملکوں کے درمیان نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط اس جنگ میں کتنا جانی اور کتنا مالی نقصان ہوا اس کا تو ہمیں اندازہ نہیں لیکن اس کا اندازہ بہر حال لگایا جاسکتا ہے کہ نصف صدی کی اس جنگ میں کتنا جانی کتنا مالی نقصان ہوا ہوگا۔آج افریقا بھی دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، ہر روز دھماکوں، خودکش حملوں کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ دہشت گردی کے اس آسیب میں جان سے جانے والے معصوم اور بے گناہ لوگوں کا جرم کیا ہے، اس کا جواب متعلقہ فریقوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کو بھی دینا چاہیے کہ اس نے ایتھوپیا اور اریٹیریا کی نصف صدی پر پھیلی اس جنگ کو روکنے کی کیا کوششیں کیں اور اسے جنگ روکنے میں کامیابی کیوں حاصل نہیں ہوئی۔دنیا کے جو ملک جنگی صورتحال سے دو چار ہیں، ان میں ایران سر فہرست ہے۔
امریکا کے حکمرانوں کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اتنی سخت پابندیوں کے باوجود ایران کس طرح پھل پھول رہا ہے۔ امریکی تاریخ کے سب سے بڑے جنگ باز صدر ٹرمپ کے تازہ بیان کے مطابق اگر ایران نے دوبارہ دھمکی دی تو اسے ایسا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا جو تاریخ میں کبھی کسی نے نہ اٹھایا ہوگا۔ اسرائیل کی اندھی حمایت میں ٹرمپ اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ جنگ کیا ہوتی ہے، اس کے نقصانات کیا ہوتے ہیں، اس کا مشاہدہ میدان جنگ ہی میں ہوسکتا ہے۔ بیان بازی سے اس نقصان کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔