سب جمہوریت کی سربلندی کے لیے کام کریں

اپوزیشن کا کام حکومت کی رہنمائی کرنا ہوتا اور اسے غلط کام سے ٹوکنا ہوتا ہے


Editorial August 08, 2018

تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے گزشتہ روز عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر دیا ہے' ادھر مسلم لیگ ن کی مجلس عاملہ نے میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔

اب قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعظم کا انتخاب ہو گا' تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے' اس لیے عمران خان کے وزیراعظم بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ بہرحال جمہوری تقاضوں کے مطابق وزیراعظم کا انتخاب ضروری ہے ۔

یوں پاکستان میں جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کا کٹھن مرحلہ خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ حالیہ الیکشن کے انعقاد سے پہلے ملک میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہا ہے' کبھی کہا گیا کہ سینیٹ کے الیکشن سے پہلے ہی جمہوریت کا بوریا بستر گول ہو جائے گا لیکن پھر سب نے دیکھا کہ سینیٹ کے الیکشن بھی ہوئے اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔سینیٹ کے الیکشن کے بعد بھی افواہوں کا سلسلہ جاری رہا اور یہ کہا جاتا رہا کہ قومی حکومت بن جائے گی لیکن بلاآخر قوم نے 25جولائی کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال بھی کر لیا اور اب نتائج بھی قوم کے سامنے آ چکے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں جمہوری نظام کو پنپنے کے لیے مسلسل الیکشن ضروری ہوتے ہیں۔

نئی حکومت کو بھی جمہوری روایات اور اقدار کی سربلندی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ملکی معیشت کی بہتری ہے 'اس مقصد کے لیے اسے سادہ طرز حکمرانی کی داغ بیل ڈالنی ہو گی ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو بھی قوم کے سامنے سادگی کا نمونہ بن کر ایک ہونا پڑے گا۔

پاکستان کو مستحکم جمہوری اور سیاسی نظام کی اشد ضرورت ہے۔ تحریک انصاف نے بطور اپوزیشن جس قسم کا کردار ادا کیا ' اب اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے 'تحریک انصاف کے لوگوں کو اپنے اس کردار کا بخوبی علم ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی موجودہ اپوزیشن ماضی کو دہرانے سے احتراز کرے ۔

بے بنیاد الزامات اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست سے اپنے مدمقابل کو زچ تو کیا جا سکتا ہے لیکن ملک کا نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی بدحالی کی بنیادی وجہ ملک کی سیاسی جماعتوں کی کوتابینی اور گروہی مفادات کی سیاست ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے سیاسی جماعتوں کے قائدین غیرجمہوری قوتوں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جب وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ ویسا سلوک نہ ہو جیسا انھوں نے دوسروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔زندہ قومیں ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کے لیے اپنا راہ عمل تیار کرتی ہیں۔ سیاسی مفادات کو بہترین سیاسی حکمت عملی کے ذریعے ہی حاصل کیا جانا چاہیے۔

جن ترقی یافتہ جمہوریتوں کی مثال ہمارے سیاسی لیڈر عوام کو دیتے ہیں 'ان کی ترقی کی وجہ یہی ہے کہ وہاں کی سیاسی قیادت سیاست کو سیاست سمجھ کر اپنا کام کرتی ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت بالغ نظری اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتی تو پاکستان میں کبھی مارشل لاء کا نفاذ نہ ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ پر الزام تراشی بہت آسان کام ہے 'سیاستدان اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیتے ہیں 'زیادہ بہتر یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے گریبان میں جھانکے۔ خود احتسابی کے عمل سے گزرے۔ جب وہ اس عمل سے گزرے گی تو اسے پتہ چلے گا کہ اس نے اپنے سیاسی حریف کے خلاف کیسا طرز عمل رکھا ہے ۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں ۔

اپوزیشن عوام کی فلاح کے لیے کام کرتی ہیں جب کہ حکومت بھی عوام کی فلاح کے لیے ہی کام کرتی ہے۔ دونوں میں فرق صرف ترجیحات اور طریقہ کار کا ہوتا ہے۔اپوزیشن کا کام حکومت کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے 'اسے اس کے غلط کام سے ٹوکنا ہوتا ہے جب کہ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی باتوں کو سنجیدگی سے لے اور کوشش کرے کہ اپوزیشن کے اعتراضات کو دور کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں