رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی زبوں حالی
رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے چکر میں اس کے استحصال کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے
برادرم احسن ملک سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ وہ رئیل اسٹیٹ کا کام کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کی سیاست پر کم اور رئیل اسٹیٹ کی صورتحال پر زیادہ گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہے۔ میرا ان سے بہت اختلاف رہتا ہے۔
لیکن احسن ملک کا خیال ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو سابق حکومت کی پالیسی نے خاصا متاثر کیا ہے۔ حوصلہ شکن پالیسی کے باعث اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے راستہ بند کیے جا رہے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے صرف رئیل اسٹیٹ ہی واحد شعبہ ہے۔ آپ بتائیں بیرون ملک مقیم پاکستانی وہاں بیٹھ کر پاکستان میں کہاں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ کیا کوئی کاروبار ہے۔ جہاں وہ اپنا سرمایہ محفوظ سمجھیں۔ نہیں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کے سوا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں بیرونی سرمایہ کاری آسکے۔ اس لیے اس کو بند کرنے سے پاکستان کا نقصان ہوگا۔ملک صاحب کے مطابق پاکستان کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ کاروبار بند ہو چکا ہے۔ اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کو گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ نئی اصلاحا ت کے نام پر جو کیا گیا ہے اس سے خوف پیدا ہو گیا ہے۔ پراپرٹی خریدنا جرم بن گیا ہے۔بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے۔
لیکن یہ سب اپنی جگہ اس کے ساتھ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بہت فراڈ بھی ہوئے ہیں۔ بعض نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کے نام پر لوگوں کو جس طرح لوٹا گیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بہت سی نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں میں کسی نہ کسی قسم کا فراڈ موجود ہے۔ لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ پیسے لے کر پلاٹ نہیں دیے جا رہے۔ ترقیاتی کام وقت پر مکمل نہیں کیے جا رہے۔ بار بار قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ زمین کم ہے پلاٹ زیادہ بیچ دیے جاتے ہیں۔ نیب اور دیگر ادارے بر وقت کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن ان تمام تر خامیوں کے باوجود رئیل اسٹیٹ سیکٹر معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ رئیل اسٹیٹ میں اتنا پیسہ آگیا ہے کہ باقی کاروبار کرنے والے لوگوں نے بھی اپنے باقی کاروبار بند کر کے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ہی شروع کر دیا۔ اتنا منافع کسی اور کاروبار میں تھا ہی نہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے لوگ پاکستان کے سب سے بااثر لوگ سمجھے جاتے ہیں۔
رئیل اسٹیٹ میں ڈی سی ریٹس کا بہت شور ہے۔ پہلے تو کئی سال سے ڈی سی ریٹس اور ایف بی آر کی قیمتوں میں اضافہ ہی نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اگر ایک پلاٹ کی اصل قیمت ایک کر وڑ تھی تو اس کی ڈی سی ویلیو دس لاکھ بھی نہیں تھی۔ اس سے سرکار کو کم ٹیکس ملتا تھا۔ لوگ مہنگے پلاٹ سستے رجسٹر کرواتے تھے۔ کالا دھن بھی سفید ہوجاتا تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں لوگ اپنی پراپر ٹیز کم قیمت پر رجسٹر کرواتے تھے۔ کوئی بھی اصل قیمت پر رجسٹر کروانا نہیں چاہتا تھا ۔ پنجاب اور اسلام آباد میں تو پھر صورتحال بہتر تھی لیکن سندھ میں تو نظام ابتر تھا۔ وہاں تو کئی کئی سال سے پلاٹوں کی سرکاری قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیاتھا۔ کراچی میں تو انتہا ہو گئی ہوئی تھی۔ پلاٹ کی سرکاری قیمت چند لاکھ اور مارکیٹ قیمت کئی کروڑ ہو چکی تھی۔
لیکن احسن ملک صاحب کے مطابق افسر شاہی کو ڈی سی ریٹس کو ٹھیک کرنے کا کیا لائسنس ملا ہے کہ انھوں نے سارا نظام ہی الٹ دیا ہے۔ ان کے مطابق مثال کے طور پر سب کو علم ہے جب سے اسحاق ڈار نے اصلاحات کے نام پر کلہاڑا چلایا تھا۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں تقریبا منجمند ہو گئی ہیں۔کاروبار مندی کا شکار ہے۔ مال بک ہی نہیں رہا۔ مارکیٹ میں خریدار ہی نہیں ہے۔ ایسے میں پلاٹوں کی سرکاری قیمتوں میں پھر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پہلے صورتحال یہ تھی کہ ایک پلاٹ کی مارکیٹ میں قیمت زیادہ تھی جب کہ سرکاری قیمت کم تھی۔ لیکن اب صورتحال الٹ ہو ئی ہے ۔ اب مارکیٹ قیمت کم ہو گئی ہے۔ جب کہ سرکاری قیمت زیادہ ہوگئی ہے۔ میں نے احسن ملک کو مشورہ دیا کہ وہ متعلقہ فورم پر آواز اٹھائیں۔ وہ ٹھیک کردیں گے۔ انھوں نے مجھے متعلقہ حکام کو دی گئی درخواستیں دکھائیں اور کہنے لگے کوئی سننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اب باتیں کیا کریں۔ ہم کاروباری لوگ ہیں دفاتر کہ کتنے چکر لگا سکتے ہیں۔
اسی طرح اب قانون بنا دیا گیا ہے کہ نان فائلر پچاس لاکھ سے زیادہ قیمت کی پراپرٹی نہیں خرید سکتا۔ میں نے احسن ملک سے کہا یہ تو بہت اچھا قانون ہے۔ بھائی جس نے پچاس لاکھ کی ایک روپے کی پراپرٹی خریدنی ہے اسے فائلر ہونا چاہیے۔ لیکن احسن ملک کا موقف ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں پر اس قانون کا اطلاق ظلم ہے۔ وہ باہر کام کرتے ہیں۔ باہر پیسے کماتے ہیں۔ باہر ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ وہ پاکستان میں کیسے فائلر بن سکتے ہیں۔آپ کیا چاہتے ہیں کہ وہ پہلے پاکستان آکر ٹیکس ریٹرن فائل کریں پھر کوئی پلاٹ خریدیں۔ بات تو جائز ہے۔ میں نے کہا سرکار سے کہیں وہ اس کا حل نکالیں گے۔
ملک صاحب کہنے لگے حل نکل آیا تھا لیکن کوئی اس حل پر عمل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ہم سرکار کے دروازے کھٹکھٹا کر تھک گئے ہیں۔ یہ طے ہوگیا تھا کہ ایف بی آر اپنی ویب سائٹ پر ایک پورٹل بنائے گا جہاں بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی تفصیلات دیکر فائلر کا سٹیٹس حاصل کر لیں گے۔ اس طرح وہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ میں نے پوچھا پھر کیا ہوا۔ وہ کہنے لگے حل تو نکل آیا ہے لیکن ایک سال ہو گیا ہے کوئی عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ٹال مٹول آج کرتے ہیں کل کرتے ہیں۔ ایک سال نکل گیا ہے۔ اور ابھی کوئی امید نہیں ہے۔
میرے خیال میں نئی حکومت کو فوری طور پرا ن مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانا ایک بات ہے لیکن اس چکر میں اس کے استحصال کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔