جمہوریت کا سیکولر چہرہ
تھرپارکر اپنی مذہبی رواداری اور برداشت کے لیے پورے ملک میں سب سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے
KARACHI:
مہیش کمار میلانی قومی اسمبلی کی نشست پر براہِ راست کامیاب ہوگئے۔ پاکستان کی جمہوریت کا سیکولر پہلو روشن ہوگیا۔ پیپلز پارٹی نے تھرپارکر سے مہیش کمار میلانی کو ٹکٹ دیا تھا۔ ان کا مقابلہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کے قریبی عزیز ارباب ذکاء اﷲ سے تھا۔ ذکاء اﷲ جی ڈی اے کے امیدوار تھے۔ ارباب خاندان نے برسوں تھرپارکر پر حکومت کی ہے، مگر ارباب کو پیپلز پارٹی کے ایک ایسے کارکن، جس کا تعلق ہندو برادری سے ہے، سے شکست ہوئی ہے۔
مہیش کمار میلانی کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے جب کہ ارباب ذکا ء اﷲ کا تعلق سندھ کے ایک بڑے جاگیردار خاندان سے ہے۔اس حلقہ میں 60 فیصد ووٹر مسلمان ہیں جب کہ غیر مسلم ووٹروں کی تعداد 40 فیصد ہے۔ ہندو برادری میں بیشتر کا تعلق نچلے طبقے سے ہے، جن میں بھیل اور میگھواڑ برادری کی تعداد زیادہ ہے۔
اس علاقے میں غربت کی جڑیں گہری ہیں۔ آبادی کی اکثریت ہاریوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا مختصر حصہ کاروبار سے منسلک ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی اکثر محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ پیپلز پارٹی نے میرپورخاص کی نشست پر ایک اور ہندو کارکن ہری رام کشور کو ٹکٹ دیا تھا۔ ہری رام کشور کے مقابلے میں ایم کیو ایم نے امیدوار نامزد کیا تھا۔ اس حلقے میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور امیدوار گیان چنداسرانی جامشورو کے علاقے تھانہ بورا خان سے کامیاب ہوئے۔ یہ حلقہ ملک اسد سکندر کے زیرِ اثر ہے مگر یہاں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
1973ء کے آئین میں تمام شہریوں کے یکساں حقوق کی ضمانت دی گئی تھی، یہی وجہ تھی کہ اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا طریقہ کار ختم کردیا گیا تھا مگر جنرل ضیاء الحق نے آئین میں ترمیم کی۔ قرارداد مقاصد میں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کی عبارت ملک کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے شامل کی تھی مگر جنرل ضیاء الحق کے حکم پر قراداد مقاصد میں سے اقلیتوں سے یکساں سلوک کی عبارت کو حذف کر دیا۔
اسی طرح غیر مسلم شہریوں کے براہِ راست انتخاب میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ پیپلزپارٹی اور دیگر لبرل جماعتیں شروع سے ہی یہ مطالبہ کررہی تھیں کہ غیر مسلم شہریوں کے لیے براہِ راست انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ختم کی جائے اور ان شہریوں کی پارلیمنٹ میں موثر نمایندگی کے لیے مخصوص نشستیں بھی رکھی جائیں۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء کے انتخابات کے موقع پر ان شہریوں کے براہِ راست انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ختم کردی تھی مگر مذہبی انتہاپسندی کے طوفان میں سیاسی جماعتوں کے لیے غیر مسلم شہریوں کو براہِ راست انتخابات میں نامزد کرنے کا فیصلہ کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔
اگرچہ 1970ء کے انتخابات میں رانا چندر سنگھ تھرپارکر سے براہِ راست قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، مگر پھر حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایسا ممکن نہ ہوسکا تھا۔ غیر مسلم شہری مخصوص نشستوں پر منتخب ہوتے تھے، یوں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے کی بنا پر وہ ایوان میں اس طرح متحرک نہیں ہوتے تھے جس طرح براہ راست منتخب ہونے والے متحرک ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک امتیازی سلوک سے جمہوری کلچر کے تحت تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کا معاملہ پس پشت چلا جاتا تھا۔
پیپلز پارٹی نے ہمیشہ غیر مسلم شہریوں کو اپنی تنظیم میں اہمیت دی۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے فیصلوں میں پی کے شاہانی اور ہپی مون والا اہم کردار ادا کرتے تھے۔ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو تھرپارکر میں حالات بہت زیادہ خراب تھے۔ خشک سالی کی بنا پر تھرپارکر سے ہجرت کرنے والوں کی شرح زیادہ تھی۔ بارش نہ ہونے اور پانی کے ذخائر خشک ہونے سے زندگی مجموعی طور پر متاثر ہو رہی تھی۔ اس علاقے میں صحت کی سہولتیں میسر نہ ہونے کی بنا پر شرح اموات خطرناک حد تک تھی۔ خاص طور پر زچہ و بچہ و نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات نے پیپلز پارٹی کے ترقی کے دعوؤں پر سیاہ دھبہ ڈالا ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تھرکول کا منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبہ کے تحت چین کی کمپنی منوں ٹن زمین میں دھنسے ہوئے کوئلہ کو نکال کر بجلی پیدا کرنے کے ایک وسیع منصوبے پر کام کررہی ہے۔ اس منصوبے میں تھر کی پسماندہ عورتوں کی شرکت کے راستے تلاش کیے گئے۔
اب میگھواڑ خواتین کو ٹرک اور ٹریکٹر چلانے کی تربیت دی گئی، یوں خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کا عمل شروع ہوا۔ ایجنسی فرانس پریس (AFP) کے نمایندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ میگھواڑ عورتیں جو سخت پردہ کرتی ہیں اور ہر وقت گھونگھٹ نکالے رکھتی ہیں اب ٹرک اور ٹریکٹر چلارہی ہیں۔ حکومت سندھ نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گاؤں گاؤں پانی پہنچانے کی اسکیم شروع کی۔ حکومت نے تھرپارکر میں پانی صاف کرنے کے آر او پلانٹ لگائے۔ ترقی کے ان منصوبوں سے مقامی آبادی میں سماجی و سیاسی حرکت پذیری عمل میں آئی۔ اس کا مظاہرہ 25 جولائی کے انتخابات میں کچھ تھرپارکر کے انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح 73 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جن میں خواتین کا تناسب 72 فیصد کے قریب ہے۔
تھرپارکر اپنی مذہبی رواداری اور برداشت کے لیے پورے ملک میں سب سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ جب چند سال قبل اس علاقے میں بدترین سیلاب آیا تھا تو بہت سے مسلمان خاندانوں نے مندر میں پناہ لی تھی۔ اسی طرح ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں کا احترام کرتے ہیں۔ ہندو محرم میں ڈھول نہیں بجاتے۔ مسلمان بھی ہندوؤں کے تہواروں کا اسی طرح احترام کرتے ہیں۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ خاصا سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
خاص طور پر بالائی سندھ میں صورتحال خاصی خراب ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے مذہب کی جبری تبدیلی روکنے کے لیے ایک جامع قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا تھا مگر پھر مذہبی عناصر کے دباؤ پر یہ مسودہ قانون کی شکل میں نافذ نہ ہو سکا۔ سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں غیر مسلم شہریوں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ایک موثر حکمت عملی اختیار کی ہے، جس کے نتیجے میں سندھ کے پانچ اضلاع سانگھڑ، عمرکوٹ، بدین، میرپورخاص اور تھرپارکر میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی میں غیر مسلم شہریوں نے اہم کردار ادا کیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اقلیتوں کے تحفظ کی جدوجہد میں گزارا۔ ان کے ہمیشہ سے ہندو اور پارسی برادری کے اکابرین سے اچھے تعلقات قائم رہے۔ جناح صاحب نے پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون کا عہدہ ایک ہندو کو تفویض کیا تھا اور وزیر خارجہ احمدی تھے۔ 11 اگست 1948ء کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن اپنی بنیادی تقریر میں نئی ریاست کے خدوخال بیان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نئی ریاست میں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہو گا مگر بعد میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے جناح کے وژن سے انحراف کرتے ہوئے شہریوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق پیدا کی۔
اس طرح آبادی کا ایک حصہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوا اور جمہوری نظام کا ثمر تمام شہریوں کو نہیں مل سکا۔ معروف محقق اسلم خواجہ اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ سندھ شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمست اور لعل شہباز قلندر کی سرزمین ہے۔ ان صوفیوں کے ماننے والوں میں تمام مذاہب کے پیروکار شامل ہیں اور ان صوفیوں کے مزار ہر شخص کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے صوفیوں کی قائم کردہ روایات کو آگے بڑھایا ہے اور اپنے غیر مسلم پرانے کارکنوں کو شہریوں کی نمایندگی کے لیے نامزد کیا ہے۔ سندھ کے شہریوں نے ان اراکین کو منتخب کرکے پیپلز پارٹی کے فیصلے کی توثیق کی، یوں جمہوریت کا سیکولر چہرہ روشن ہوا۔
مہیش کمار میلانی قومی اسمبلی کی نشست پر براہِ راست کامیاب ہوگئے۔ پاکستان کی جمہوریت کا سیکولر پہلو روشن ہوگیا۔ پیپلز پارٹی نے تھرپارکر سے مہیش کمار میلانی کو ٹکٹ دیا تھا۔ ان کا مقابلہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کے قریبی عزیز ارباب ذکاء اﷲ سے تھا۔ ذکاء اﷲ جی ڈی اے کے امیدوار تھے۔ ارباب خاندان نے برسوں تھرپارکر پر حکومت کی ہے، مگر ارباب کو پیپلز پارٹی کے ایک ایسے کارکن، جس کا تعلق ہندو برادری سے ہے، سے شکست ہوئی ہے۔
مہیش کمار میلانی کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے جب کہ ارباب ذکا ء اﷲ کا تعلق سندھ کے ایک بڑے جاگیردار خاندان سے ہے۔اس حلقہ میں 60 فیصد ووٹر مسلمان ہیں جب کہ غیر مسلم ووٹروں کی تعداد 40 فیصد ہے۔ ہندو برادری میں بیشتر کا تعلق نچلے طبقے سے ہے، جن میں بھیل اور میگھواڑ برادری کی تعداد زیادہ ہے۔
اس علاقے میں غربت کی جڑیں گہری ہیں۔ آبادی کی اکثریت ہاریوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا مختصر حصہ کاروبار سے منسلک ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی اکثر محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ پیپلز پارٹی نے میرپورخاص کی نشست پر ایک اور ہندو کارکن ہری رام کشور کو ٹکٹ دیا تھا۔ ہری رام کشور کے مقابلے میں ایم کیو ایم نے امیدوار نامزد کیا تھا۔ اس حلقے میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور امیدوار گیان چنداسرانی جامشورو کے علاقے تھانہ بورا خان سے کامیاب ہوئے۔ یہ حلقہ ملک اسد سکندر کے زیرِ اثر ہے مگر یہاں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
1973ء کے آئین میں تمام شہریوں کے یکساں حقوق کی ضمانت دی گئی تھی، یہی وجہ تھی کہ اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا طریقہ کار ختم کردیا گیا تھا مگر جنرل ضیاء الحق نے آئین میں ترمیم کی۔ قرارداد مقاصد میں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کی عبارت ملک کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے شامل کی تھی مگر جنرل ضیاء الحق کے حکم پر قراداد مقاصد میں سے اقلیتوں سے یکساں سلوک کی عبارت کو حذف کر دیا۔
اسی طرح غیر مسلم شہریوں کے براہِ راست انتخاب میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ پیپلزپارٹی اور دیگر لبرل جماعتیں شروع سے ہی یہ مطالبہ کررہی تھیں کہ غیر مسلم شہریوں کے لیے براہِ راست انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ختم کی جائے اور ان شہریوں کی پارلیمنٹ میں موثر نمایندگی کے لیے مخصوص نشستیں بھی رکھی جائیں۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء کے انتخابات کے موقع پر ان شہریوں کے براہِ راست انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ختم کردی تھی مگر مذہبی انتہاپسندی کے طوفان میں سیاسی جماعتوں کے لیے غیر مسلم شہریوں کو براہِ راست انتخابات میں نامزد کرنے کا فیصلہ کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔
اگرچہ 1970ء کے انتخابات میں رانا چندر سنگھ تھرپارکر سے براہِ راست قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، مگر پھر حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایسا ممکن نہ ہوسکا تھا۔ غیر مسلم شہری مخصوص نشستوں پر منتخب ہوتے تھے، یوں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے کی بنا پر وہ ایوان میں اس طرح متحرک نہیں ہوتے تھے جس طرح براہ راست منتخب ہونے والے متحرک ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک امتیازی سلوک سے جمہوری کلچر کے تحت تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کا معاملہ پس پشت چلا جاتا تھا۔
پیپلز پارٹی نے ہمیشہ غیر مسلم شہریوں کو اپنی تنظیم میں اہمیت دی۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے فیصلوں میں پی کے شاہانی اور ہپی مون والا اہم کردار ادا کرتے تھے۔ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو تھرپارکر میں حالات بہت زیادہ خراب تھے۔ خشک سالی کی بنا پر تھرپارکر سے ہجرت کرنے والوں کی شرح زیادہ تھی۔ بارش نہ ہونے اور پانی کے ذخائر خشک ہونے سے زندگی مجموعی طور پر متاثر ہو رہی تھی۔ اس علاقے میں صحت کی سہولتیں میسر نہ ہونے کی بنا پر شرح اموات خطرناک حد تک تھی۔ خاص طور پر زچہ و بچہ و نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات نے پیپلز پارٹی کے ترقی کے دعوؤں پر سیاہ دھبہ ڈالا ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تھرکول کا منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبہ کے تحت چین کی کمپنی منوں ٹن زمین میں دھنسے ہوئے کوئلہ کو نکال کر بجلی پیدا کرنے کے ایک وسیع منصوبے پر کام کررہی ہے۔ اس منصوبے میں تھر کی پسماندہ عورتوں کی شرکت کے راستے تلاش کیے گئے۔
اب میگھواڑ خواتین کو ٹرک اور ٹریکٹر چلانے کی تربیت دی گئی، یوں خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کا عمل شروع ہوا۔ ایجنسی فرانس پریس (AFP) کے نمایندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ میگھواڑ عورتیں جو سخت پردہ کرتی ہیں اور ہر وقت گھونگھٹ نکالے رکھتی ہیں اب ٹرک اور ٹریکٹر چلارہی ہیں۔ حکومت سندھ نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گاؤں گاؤں پانی پہنچانے کی اسکیم شروع کی۔ حکومت نے تھرپارکر میں پانی صاف کرنے کے آر او پلانٹ لگائے۔ ترقی کے ان منصوبوں سے مقامی آبادی میں سماجی و سیاسی حرکت پذیری عمل میں آئی۔ اس کا مظاہرہ 25 جولائی کے انتخابات میں کچھ تھرپارکر کے انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح 73 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جن میں خواتین کا تناسب 72 فیصد کے قریب ہے۔
تھرپارکر اپنی مذہبی رواداری اور برداشت کے لیے پورے ملک میں سب سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ جب چند سال قبل اس علاقے میں بدترین سیلاب آیا تھا تو بہت سے مسلمان خاندانوں نے مندر میں پناہ لی تھی۔ اسی طرح ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں کا احترام کرتے ہیں۔ ہندو محرم میں ڈھول نہیں بجاتے۔ مسلمان بھی ہندوؤں کے تہواروں کا اسی طرح احترام کرتے ہیں۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ خاصا سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
خاص طور پر بالائی سندھ میں صورتحال خاصی خراب ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے مذہب کی جبری تبدیلی روکنے کے لیے ایک جامع قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا تھا مگر پھر مذہبی عناصر کے دباؤ پر یہ مسودہ قانون کی شکل میں نافذ نہ ہو سکا۔ سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں غیر مسلم شہریوں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ایک موثر حکمت عملی اختیار کی ہے، جس کے نتیجے میں سندھ کے پانچ اضلاع سانگھڑ، عمرکوٹ، بدین، میرپورخاص اور تھرپارکر میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی میں غیر مسلم شہریوں نے اہم کردار ادا کیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اقلیتوں کے تحفظ کی جدوجہد میں گزارا۔ ان کے ہمیشہ سے ہندو اور پارسی برادری کے اکابرین سے اچھے تعلقات قائم رہے۔ جناح صاحب نے پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون کا عہدہ ایک ہندو کو تفویض کیا تھا اور وزیر خارجہ احمدی تھے۔ 11 اگست 1948ء کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن اپنی بنیادی تقریر میں نئی ریاست کے خدوخال بیان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نئی ریاست میں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہو گا مگر بعد میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے جناح کے وژن سے انحراف کرتے ہوئے شہریوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق پیدا کی۔
اس طرح آبادی کا ایک حصہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوا اور جمہوری نظام کا ثمر تمام شہریوں کو نہیں مل سکا۔ معروف محقق اسلم خواجہ اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ سندھ شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمست اور لعل شہباز قلندر کی سرزمین ہے۔ ان صوفیوں کے ماننے والوں میں تمام مذاہب کے پیروکار شامل ہیں اور ان صوفیوں کے مزار ہر شخص کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے صوفیوں کی قائم کردہ روایات کو آگے بڑھایا ہے اور اپنے غیر مسلم پرانے کارکنوں کو شہریوں کی نمایندگی کے لیے نامزد کیا ہے۔ سندھ کے شہریوں نے ان اراکین کو منتخب کرکے پیپلز پارٹی کے فیصلے کی توثیق کی، یوں جمہوریت کا سیکولر چہرہ روشن ہوا۔