ماموں غلام رسول
انھوں نے بینچوں کو ٹھوکر ماری اور ڈانٹ کر بولے اٹھو جاکر وضو کرو اور نماز کے لیے مسجد پہنچو
وہ ہماری تائی امی، چھوٹی امی اور خالہ امی کے اکلوتے بھائی تھے۔ آزاد منش آدمی تھے، ساری زندگی اکیلے رہے اور شادی نہیں کی۔ بڑے ابا (تایا) جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے، کراچی میں رہتے تھے، جب کہ ہم لوگ اور خالہ اندرون سندھ بالترتیب ٹنڈو غلام علی اور دادو کے نواحی قصبے مخدوم بلاول کے باسی تھے، جہاں ابا تو میروں کی ملازمت میں تھے جب کہ خالو درگاہ کے سجادہ نشین تھے اور پیرزادہ کہلاتے تھے۔ ماموں غلام رسول تائی امی کے ساتھ رہتے تھے، جو ان کی بڑی بہن تھیں۔
بچپن میں ابا کے ساتھ کراچی آنا ہوتا تو وہ مجھے بڑے ابا کے گھر چھوڑ جاتے، جب تک اپنے کام کے سلسلے میں رکتے میں وہیں رہتا اور کزنز کے ساتھ چھٹیاں انجوائے کرتا۔ یہ لوگ جوبلی سینما کے قریب پرانے طرز کی حاجی بلڈنگ کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ کزنز اسکول گئے ہوئے ہوتے اور بڑے ابا مجھے اکیلا بالکنی میں کھڑا ان کی راہ تکتا دیکھتے تو ماموں کو بلا کر کہتے اسے جا کر گھما لاؤ، اداس ہوگیا ہے۔ تب کراچی میں سواری کے لیے سائیکل رکشہ، گھوڑا گاڑیاں اور بار برداری کے لیے گدھا اور اونٹ گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ ٹاور، نمائش یا صدر تک جانے کے رکشہ والا چار آٹھ آنے سے زیادہ کرایہ نہیں مانگتا تھا، ٹریفک برائے نام ہوتا تھا اور روڈ نہایت کشادہ اور صاف ستھرے محسوس ہوتے تھے۔ بولٹن مارکیٹ کے جنکشن سے ٹن ٹن کرتی ٹرامیں ایک طرف کیماڑی اور چاکیواڑہ تو دوسری جانب براستہ بندر روڈ صدر، کینٹ اسٹیشن اور سولجر بازار تک چلا کرتی تھیں۔
مجھے ماموں کے ساتھ بارہا سائیکل رکشہ اور ٹرام کی سواری کرنے، چڑیا گھر (جسے اس زمانے میں گاندھی گارڈن کہتے تھے) کی سیر کرنے، کلفٹن اور منوڑہ سے ساحل سمندر کا نظارہ کرنے کا موقع ملا۔ ٹنڈو غلام علی لوٹتے وقت میرا بیگ نئے کپڑوں، کھلونوں، کاپیوں اور ویو کارڈز سے بھرا ہوتا تھا۔ رات کو سونے کے لیے اپنے اپنے بستروں میں جانے سے پہلے ہم سب کزنز کا ماموں سے گیلری میں (جہاں وہ سویا کرتے تھے) مزے مزے کی کہانیاں سننا بھی مجھے یاد ہے۔ ہم سب بھانجوں بھانجیوں سے ان کی بے تکلفی پر دوستی کا گمان ہوتا تھا، یہ یاد نہیں رہتا تھا کہ ہم بچے اور وہ بزرگ ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارے تعلقات برابری کی بنیاد پر استوار تھے، جو آخر تک قائم رہے۔
مڈل اسکول کے تیسرے درجے (آج کل کی آٹھویں جماعت) میں کیا پہنچے ''اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا'' کے مصداق پڑھائی میں ایسے مصروف ہوئے کہ ابا کے ساتھ کراچی جانا بند ہی ہو گیا۔ ماموں البتہ ایک آدھ بار ہم لوگوں سے ملنے ٹنڈو آئے تھے، بہت موٹے ہوگئے تھے اور توند نکل آئی تھی، کرسی پر بیٹھتے تو پھنس جاتے اور کسی کی مدد کے بغیر اٹھ نہیں پاتے تھے۔ ان کے کوٹ کی جیبیں چاکلیٹ اور ٹافیوں سے بھری رہتی تھیں، جو وہ کراچی سے بطور خاص ہمارے لیے لاتے تھے۔ کچھ دن ہمارے پاس رکتے اور پھر کراچی واپس چلے جاتے۔ پھر پتہ چلا وہ سکھر منتقل ہوگئے ہیں اور وہاں اپنا ہوٹل کھول لیا ہے۔
کئی سال تک ان سے کوئی رابطہ نہ رہا، اس دوران بڑے ابا نے کراچی سے ترک سکونت کرکے ٹنڈو غلام علی آکر بھائی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اور فیملی کے ساتھ وہاں منتقل ہوگئے۔ ہم لوگ تو بہت خوش تھے لیکن تائی امی اور ان کے بچوں کا وہاں کے دیہاتی ماحول میں دل نہ لگا، ان کی منجھلی بیٹی خاتون بھی نمونیا میں مبتلا ہوکر چل بسی اور وہیں مدفون ہے۔ بڑے ابا نے وہاں کلینک بھی کھول لی تھی جو خوب چل پڑی تھی مگر بچوں کی ضد کے آگے انھیں ہتھیار ڈالنے پڑے اور یہ لوگ واپس کراچی لوٹ گئے اور لیاری کے علاقے کھڈہ مارکیٹ میں رہائش اختیار کرلی، جہاں ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا اب تک رہائش پذیر ہیں۔ ماموں کو ان لوگوں کے ٹنڈو منتقل ہونے کا پتہ چلا تو وہ بھی وہیں آگئے اور ان کے ساتھ رہنے لگے تھے، پھر ان ہی کے ہمراہ لوٹ بھی گئے۔ یہاں قیام کے دوران ماموں کے حوالے سے بہت سی باتیں مجھے اب تک یاد ہیں۔
مثلاً رمضان شریف میں وہ ہم بھائیوں اور کزنز کو تراویح پڑھنے کے بہانے شہر کے مشرقی سرے پر نہر کے پل پر لے جاتے اور مکیش کے گانے گا کر سناتے، جونہی نماز ختم ہوتی واپس گھر لے آتے اور ہم سب کی پیشانیاں دیوار سے رگڑ کر گرد آلود کر دیتے تاکہ لگے ہم نماز پڑھ کر آئے ہیں۔ ایک دفعہ جب جمعہ کی اذان ہورہی تھی ماموں بڑے ابا کے کلینک پہنچے، انھیں نماز کے لیے جانے کی تیاری کرتا دیکھ کر مریضوں کے بیٹھنے کی دو بینچیں جوڑ کر لیٹ گئے، گرمیوں کے دن تھے انھوں نے قمیص کا دامن اوپر اٹھا کر پیٹ ننگا کرلیا اور لگے خراٹے مارنے۔ بڑے ابا نے یہ دیکھ کر چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ شرم نہیں آتی، جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھی جاتی۔ وہ ماموں کے ساتھ بے تکلف بھی بہت تھے، موٹی موٹی گالیاں دے کر بولے سالے خدا کو کیا جواب دے گا، جان بوجھ کر جمعہ کی نماز چھوڑنے والا تو دائرہ اسلام ہی سے خارج ہو جاتا ہے۔
انھوں نے بینچوں کو ٹھوکر ماری اور ڈانٹ کر بولے اٹھو جاکر وضو کرو اور نماز کے لیے مسجد پہنچو، وہ غصے سے کانپ رہے تھے لیکن ماموں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ بدستور لیٹے خراٹے لیتے رہے۔ اب بڑے ابا سے رہا نہ گیا انھوں نے وہ گینٹی اٹھائی جس میں زخمی مریضوں کی تازہ ڈریسنگ کرتے وقت پرانی پٹیاں اتار کر پھینکی جاتی تھیں اور ہاتھ دھوئے جاتے تھے اور سوئے ہوئے ماموں پر الٹ دی۔ کپڑے خراب ہوئے سو الگ، گندی پٹیاں اور روئی کے پھاہے ماموں کے چہرے سمیت بدن کے مختلف حصوں پر چپکے ہوئے تھے۔ اٹھ کر بیٹھے اور آرام سے ایک ایک گندی پٹی اتار کر نیچے پھینکتے رہے، پھر بڑے ابا کی طرف دیکھ کر بولے شکر کرو اس وقت تمہارے مریض موجود نہیں ورنہ سمجھتے ڈاکٹر پاگل ہے۔ کچھ اس قسم کے تھے ہمارے ماموں غلام رسول۔ پھر سنا وہ ناراض ہوکر کراچی سے کہیں چلے گئے ہیں، وہ سمجھے ہمارے پاس گئے ہوں گے لیکن وہ نہ جانے کہاں تھے، کئی سال گزر گئے ان کی کوئی خیر خبر نہیں ملی، پھر ایک دن اچانک وہ ہمارے پاس ٹنڈو آنکلے، سخت بیمار تھے اور سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے، بولنے کی کوشش کرتے تو کچھ سمجھ نہ آتا کہ کیا بول رہے ہیں۔
ابا نے ان کا علاج کرانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ان کی حالت دن بدن بگڑتی ہی گئی، ڈاکٹروں کے مشورے سے پہلے انھیں آئیسولیشن میں رکھا گیا، بستر، کپڑے اور تولیہ ہی الگ نہیں کیے گئے، بچوں کے ان سے ملنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ دوا اور پرہیزی کھانا کھلانے کے لیے ابا یا اماں ان کے کمرے میں جایا کرتے تھے، ڈاکٹروں نے کچھ عرصہ انھیں انڈر آبزرویشن رکھا، پھر مایوس ہوکر انھیں سول اسپتال حیدرآباد لے جاکر داخل کرانے کا مشورہ دیا۔ مجھے یاد ہے جب وہ خدا بخش اور رسول بخش نام کے دو بھائیوں کی پرائیویٹ کار میں، جسے وہ ٹیکسی کے طور پر چلاتے تھے، پولیس تھانے کے پاس سے حیدرآباد کے لیے روانہ ہوئے تھے، کیونکہ گلی تنگ ہونے کی وجہ سے گاڑی گھر تک نہیں آ سکتی تھی۔ بھائی جان ان دنوں نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد میں پڑھتے تھے اور سول اسپتال کے قریب ہی واقع مسلم ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ماموں کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ کی ذمے داری بھی انھیں سونپی گئی تھی، وہ روز یا کبھی ہر دوسرے روز اسپتال جاکر ماموں کا پتہ کرتے، ڈاکٹروں سے بھی ان کی حالت کے بارے میں پوچھتے، جو روایتی جواب دیتے کہ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں، شفا اور صحت دینا اﷲ کے ہاتھ میں ہے، دعا کرو، اﷲ بہتر کرے گا۔
پھر ایک دن جب بھائی جان دو دن کے وقفے کے بعد اسپتال پہنچے تو پتہ چلا ماموں نہ صرف وفات پا چکے تھے بلکہ ان کی تجہیز وتکفین بھی عمل میں آ چکی تھی۔ یوں ہم لوگ ان کا آخری دیدار بھی نہ کر سکے اور وہ پھر کبھی واپس نہ آنے کے لیے بہت دور چلے گئے۔