جنرل راحیل کو حکومت نے این او سی نہیں دیا سیکریٹری دفاع
جی ایچ کیوکی منظوری کے بعدمعاملہ وزارت دفاع بھجواگیا،وزیردفاع نے اجازت دی
سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی بیرون ملک ملازمت کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں فل بینچ نے ججز اور سرکاری ملازمین کی دہری شہریت کیس کی سماعت کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو وفاقی حکومت نے این او سی جاری نہیں کیا جبکہ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رٹائرڈ شجاع پاشا کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بیرون ملک ملازمت نہیں کر رہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری افسرکی بیرون ملک ملازمت کیلیے این او سی لینا ضروری ہے اور سروس رولزکے مطابق یہ این او سی وفاقی کابینہ دیتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا این او سی وفاقی حکومت جاری کرتی ہے لیکن اس کیلیے وفاقی کابینہ سے منظوری لینا ضروری ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف کے معاملے پر وفاقی کابینہ سے اجازت نہیں لی گئی جبکہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں وفاقی کابینہ سے اجازت لینا ضروری ہے۔ سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیر الحسن نے بتایا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی اتحادی فوج کے سربراہ کے طور پر تقرری پر جنرل ہیڈکوارٹرز نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
انہوں نے کہا جی ایچ کیوکی طرف سے منظوری کے بعد معاملہ وزارت دفاع کو بھجوا دیا گیا تھا۔ سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا راحیل شریف کے معاملے پر وفاقی حکومت سے این او سی نہیں لیا گیا تھا بلکہ انہیں اجازت وزیر دفاع نے دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے، وفاقی حکومت کا اختیارکابینہ کے زیر اختیار ہوتا ہے، معاملہ عجلت کا ہے۔فاضل عدالت نے متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ وہ جنرل (ر) راحیل شریف کی تقرری کے معاملے کو منظور یا مسترد کرنے کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں۔
سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ احمد شجاع پاشا نے جواب دیا ہے کہ وہ کوئی نوکری نہیںکر رہے جبکہ دہری شہریت کے معاملے پر افواج میں سب سے بیان حلفی لیا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ این او سی کے معاملے پر مزید جواب کیلئے وقت درکار ہے،عدالت نے سماعت موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں فل بینچ نے ججز اور سرکاری ملازمین کی دہری شہریت کیس کی سماعت کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو وفاقی حکومت نے این او سی جاری نہیں کیا جبکہ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رٹائرڈ شجاع پاشا کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بیرون ملک ملازمت نہیں کر رہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری افسرکی بیرون ملک ملازمت کیلیے این او سی لینا ضروری ہے اور سروس رولزکے مطابق یہ این او سی وفاقی کابینہ دیتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا این او سی وفاقی حکومت جاری کرتی ہے لیکن اس کیلیے وفاقی کابینہ سے منظوری لینا ضروری ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف کے معاملے پر وفاقی کابینہ سے اجازت نہیں لی گئی جبکہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں وفاقی کابینہ سے اجازت لینا ضروری ہے۔ سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیر الحسن نے بتایا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی اتحادی فوج کے سربراہ کے طور پر تقرری پر جنرل ہیڈکوارٹرز نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
انہوں نے کہا جی ایچ کیوکی طرف سے منظوری کے بعد معاملہ وزارت دفاع کو بھجوا دیا گیا تھا۔ سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا راحیل شریف کے معاملے پر وفاقی حکومت سے این او سی نہیں لیا گیا تھا بلکہ انہیں اجازت وزیر دفاع نے دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے، وفاقی حکومت کا اختیارکابینہ کے زیر اختیار ہوتا ہے، معاملہ عجلت کا ہے۔فاضل عدالت نے متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ وہ جنرل (ر) راحیل شریف کی تقرری کے معاملے کو منظور یا مسترد کرنے کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں۔
سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ احمد شجاع پاشا نے جواب دیا ہے کہ وہ کوئی نوکری نہیںکر رہے جبکہ دہری شہریت کے معاملے پر افواج میں سب سے بیان حلفی لیا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ این او سی کے معاملے پر مزید جواب کیلئے وقت درکار ہے،عدالت نے سماعت موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔