الیکشن تو ہو ہی گیا
پاکستان میں الیکشن بخیر و خوبی ہو گئے، تھوڑی بہت گڑبڑ تو بڑے بڑے پاک صاف ملکوں میں بھی ہو جاتی ہے اور...
پاکستان میں الیکشن بخیر و خوبی ہو گئے، تھوڑی بہت گڑبڑ تو بڑے بڑے پاک صاف ملکوں میں بھی ہو جاتی ہے اور پاکستان میں تو حالات اس قدر خراب بلکہ ابتر تھے کہ یہاں بیرونی دانشوروں کے علاوہ خود پاکستانی بھی الیکشن کے انعقاد کے بارے میں شکوک کے شکار تھے لیکن قدرت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس ملک کو اس کی بقا کا اور اس قوم کو اس کی زندگی کا ایک اور موقع دینا ہے چنانچہ یہ موقع مل گیا اور دنیا حیرت زدہ ہو گئی کہ پاکستان جیسے دھماکوں والے ملک میں الیکشن کیسے ہو گئے لیکن ہو گئے اور دنیا نے دیکھ بھی لیا۔
جو پاکستانی اربوں روپے لے کر پاکستان آئے تھے اور اس غیر ملکی تخریبی امداد کو جلسوں جلوسوں میں پانی کی طرح بہا رہے تھے، اب اپنے کنٹینروں میں بیرونی امداد دینے والوں کے لیے حساب تیار کر رہے ہیں کیونکہ جس کام کے لیے کسی جبہ و دستار کو نوٹوں سے بھر دیا تھا، وہ نہیں ہو سکا اور الیکشن ہو گیا، اس مسلسل اعلان کے باوجود کہ الیکشن اگر ہو گیا تو ملک کی خیر نہیں۔ ایسے نیم پاکستانی دانشوروں کو ان کے برے حال پر چھوڑتے ہوئے میں اپنے ہموطنوں کے ہمراہ اب دنیا کی سب سے بلند بن جانے والی چوٹی کے ٹو پر کھڑے ہو کر نعرہ لگاتا ہوں کہ آئو دیکھو میرا وطن دنیا کے نقشے پر محکم و ثابت نقش ہو چکا ہے یہاں الیکشن ہو گئے ہیں اور ہم پاکستانی لڈیاں ڈال رہے ہیں، دھمالیں ڈال رہے ہیں، ان میں جہاں ہمیں اپنے ملک کی سلامتی کی خوشی کا اظہار ہے وہیں ہمیں ایک جیالی متوالی اور زندگی سے بھرپور قوم کا عالمی اعلان بھی ہے کہ ہم اپنی آزادی کے حقدار بھی ہیں اور ایٹم بم کی ملکیت کے اہل بھی۔
اگر کوئی کم بخت پاکستان کی سلامتی سے گھبرا کر اس کی آزادی اور سلامتی کے خلاف بات کرتا ہے تو وہ ذہنی معذور ہے اس کی خواہشوں کے محل اس کی آنکھوں کے سامنے زمیں بوس ہو گئے ہیں اور وہ اپنے حواس گنوا بیٹھا ہے۔ یہ درست کہ ہمارے ہاں بعض میر جعفر و صادق ایسے نکلے کہ ان کی غداری سے بھارت نے ہمارا ملک توڑ دیا اور اس کی ہزاروں برس کی ایک امید بر آئی لیکن موجودہ الیکشن ان قومی غلطیوں پر اظہار پشیمانی ہیں۔ اس وقت بھی الیکشن ہوا تھا لیکن کسی نے اس پر عمل سے روک دیا، ایک ہی ملک کا کوئی صدر اور کوئی وزیر اعظم بن گیا لیکن آج ہماری فوج اعلان کر رہی ہے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہے الیکشن کی محافظ ہے اور جمہوری حکومت کو دل و جان سے قبول کرتی ہے۔ میں یہ ابتدائی چند سطریں ان لوگوں کے لیے لکھ رہا ہوں جو کسی غیر ملک کے اشارے پر الیکشن کے خلاف مہم چلا رہے تھے، ایک پرانی مثل ہے کہ عدو شرّے بر انگیزد کہ خیر ما در آں باشد کہ دشمن تو برائی کرتا ہے لیکن اس میں سے میرے لیے خیر کا ایک پہلو نکل آتا ہے۔
بہر کیف اللہ تعالیٰ کے کرم سے پاکستان میں الیکشن ہو گئے بعض دانشوروں کے لیے جو نا ممکن تھا وہ ممکن ہو گیا اور اب وہ دلچسپ مرحلہ ہمارے سامنے ہے جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پانے والی ہیں اور ان کے لیے روایتی انداز کا جوڑ توڑ ہو رہا ہے۔ آزاد ارکان کی ایک بڑی تعداد ہے جو اپنی پسند کی یعنی اپنے فائدے کی جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں، ان سب کو کچھ نہ کچھ مل جائے گا، حکمرانوں کے پاس دینے دلانے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑا ہی بدنصیب ہو گا جو خالی ہاتھ لوٹ آئے گا۔ آپ کوئی سا اخبار کھول لیں، اس کا ہر صفحہ جمہوری تماشے کا ایک باب کھول دیتا ہے۔ لیڈر گلے مل رہے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ یہ مخالف رہے ہیں مگر ان کے چہروں پر ایسی بڑی بڑی مسکراہٹیں ہیں کہ ان سے ان کی باچھیں پھٹ سکتی ہیں۔
حکومت میں حصہ داری کے اعلان ہو رہے ہیں اور پوری کی پوری جماعتیں ادھر سے ادھر ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور ایک یہی ہماری بدقسمتی بھی ہے کہ ہم نے نظریاتی ملک ہونے کے باوجود نظریاتی جماعتیں نہیں بنائیں یا بہت کم اکا دکا دکھائی دیتی ہیں۔ نظریہ پاکستان والی مسلم لیگ تو نہ جانے کتنے حصوں میں بٹ چکی ہے۔ اگر ملک میں کوئی نظریاتی عدالت ہو تو ان گوناگوں مسلم لیگوں کو سزا ملنی چاہیے۔ اس نظریاتی ملک میں چند مذہبی یعنی دیو بندی اور بریلوی ٹائپ کی جماعتیں بھی ہیں۔ اب ایک نئی جماعت سامنے آئی ہے، یہ ہے تو سیکولرزم کی دعوے دار جماعت۔ یہ جماعت ابھی تک اپنے نظریے کے بارے میں واضح نہیں ہے لیکن پھر بھی موجود ہے اور غیر مذہبی کہلاتی ہے۔
ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ اسے کس فرقے میں رکھا جائے یا اس کا کوئی نیا فرقہ بنا دیا جائے کیونکہ کسی بھی موجود فرقے والے ا سے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں بلکہ پاکستانی قوم بھی پوچھ رہی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں کیوں آئے ہیں۔ الیکشن اصل میں کوئی فرقہ وارانہ نہیں ایک خالصتاً سیاسی مسئلہ ہے، اس لیے لوگ کسی نئے فرقے کو قبول نہیں کر رہے۔ اس وقت سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں بلکہ متوقع اقتدار کے لیے پاگل ہوئی جا رہی ہیں۔ سب سے بڑا گھرانہ مسلم لیگ ن کا ہے اور وزیراعظم بھی اسی جماعت کا سربراہ ہو گا یعنی میاں نواز شریف۔ میاں صاحب بطور وزیر اعظم اس قوم کے خوب دیکھے بھالے ہیں۔
ایک شریف قدرے معصوم انسان انتقام کی سیاست سے بہت دور اور مل جل کر رہنے کا عادی، اس لیے اندازہ ہے کہ ان کی وجہ سے ملک میں جو انتشار ہے وہ بھی نہیں رہے گا اور سیاسی لوگ سیاست ملک کے مفاد کے لیے کریں گے اگر اب بھی سیاسی نخرے روا رکھے گئے اور سنجیدگی سے قومی امور کو نہ چلایا گیا تو پھر نہ جانے کیا ہو گا۔ ملک مسائل کی وجہ سے بہت ہی بڑی مشکلات کا مرکز بنا ہوا ہے، مسائل اتنے زیادہ اور اس قدر خطرناک ہیں کہ پاکستانیوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سا مسئلہ سب سے بڑا ہے لیکن کہیں امید کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے اور وہ ملک کے منتخب نمایندوں کے متوقع کردار سے پھوٹتی ہے۔ جن لوگوں کو حکمرانی کے لیے چنا گیا ہے، ان کو ملک اور قوم کی خدمت کا کچھ احساس بھی کرنا چاہیے اور امید ہے ایسا ہو گا بھی۔ میرے خیال میں فوری مسئلہ جہاں ایندھن کا ہے تا کہ صنعت رواں ہو سکے وہاں ایک مسئلہ احتساب بھی ہے اور اس پر کل پرسوں بات ہوگی کیونکہ یہ کیسے ممکن کہ اربوں کھا جانے والے بچ جائیں اور ملک تباہ ہو جائے۔