آخری موقع
دھاندلیوں کا یہ کلچر نہ ہمارے لیے نیا ہے نہ جمہوری دنیا کے لیے، ابھی ملائیشیا انتخابات کے بعد اس کلچر سے گزر رہا ہے
11 مئی سے پہلے ملک ہنگامہ خیز سیاست اور غیر یقینیت کا شکار تھا،کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون سی پارٹی عام انتخابات میں جیت کر حکومت بنائے گی۔ تجزیہ نگاروں کی اپنی اپنی رائے تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ تحریک انصاف 60,70نشستیں جیت جائے گی۔ کوئی کہتا تھا ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں بھی تاثر تھا کہ وہ جنوبی پنجاب میں اپنی سیٹیں جیت جائے گی لیکن انتخابی نتائج انھیں کچھ اور ہی شکل پیدا کر دی ہے۔ عوام کا جوش جذبہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا ہے اور ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی واضح ہو کر سامنے آ گیا ہے۔
11 مئی کے بعد اس صورت حال میں ایک ٹھہراؤ آگیا ہے، اگرچہ ہماری سیاسی روایات کے مطابق انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کے ساتھ اس ٹھہراؤ میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس قسم کی ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والوں کو یہ اندازہ بہرحال ضرور ہوگا کہ اگر اس ہیجان کو بڑھایا گیا تو غیر سیاسی اداکاروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے اور اگر یہ پیمانہ چھلک گیا تو پھر باریوں کا انتظار کرنے والوں کے سامنے ایک لمبی سیاہ رات ہی آسکتی بلکہ سیاستدان ہوں گے نہ جمہوری نظام باقی بچے گا۔
دھاندلیوں کا یہ کلچر نہ ہمارے لیے نیا ہے نہ جمہوری دنیا کے لیے، ابھی ملائیشیا انتخابات کے بعد اس کلچر سے گزر رہا ہے، وینزویلا میں بھی یہ طوفان اٹھایا گیا تھا جو اب آہستہ آہستہ بیٹھ رہا ہے، اس قسم کے ایک بڑے طوفان سے ہم 1977 میں گزر چکے ہیں اور اس کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔اس کے باوجود ہر الیکشن میں ہارنے والی پارٹیاں دھاندلی کا الزام لگاتی ہیں اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے جو ہار گئے ہیں وہ خوشدلی سے ہار ماننے کے بجائے دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں۔ دھاندلی کا الزام یا الزامات اس لیے مضحکہ خیز ہیں کہ ہم جس نظام میں زندہ ہیں وہ سر سے پیر تک بذات خود دھاندلیوں کی پیداوار اور دھاندلیوں کا مرکب ہے۔
1977 میں پیپلز پارٹی پر دھاندلیوں کا الزام لگانے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے یہ انتخابات جیت چکی ہے، چند سیٹوں پر ہونے والی ممکنہ دھاندلی کو جمہوریت کی توہین اور خلاف ورزی قرار دینے والوں نے جمہوریت کی برتری کے لیے جو طوفان برپا کیا وہ ساری جمہوریت کو ہی لے ڈوبا اور جمہوریت کی برتری کے دعوے دار نئی شیروانیاں پہن کر ضیاء الحق کی فوجی حکومت کا حصہ بن گئے۔ضیاء الحق پاکستان کی سیاست پر 11برس تک چھائے رہے اور خود کو جمہوریت کا علمبردار کہنے والی بعض جماعتیں بھی ان کے ساتھ حکومت میں شریک رہیں۔ اگر وہ اس وقت صبر سے کام لیتیں تو آج پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو چکی ہوتی۔
ہماری سیاست میں عمران خان کی تحریک انصاف ایک نئے اور ہنگامہ خیز عنصر کی حیثیت سے داخل ہوئی اور بڑے بڑے جلسے جلوس کے ساتھ یہ دعوے کرتی رہی کہ ان کا یہ سونامی ساری سیاسی جماعتوں کو بہالے جائے گا اور تحریک انصاف ایک نیا پاکستان بنائے گی، لیکن ہوا یہ کہ یہ سونامی جس کا اصل نشانہ پنجاب تھا، پنجاب کی سرحدوں سے ٹکرا کر پسپا ہوگیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کے کرتا دھرتا اپنے سونامی کی پسپائی کا جائزہ لے کر اپنی خامیاں اور کمزوریاں تلاش کرتے اور آیندہ ان سے بچنے کی کوشش کرتے لیکن دھاندلیوں کے خلاف لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر نکل آئے اور ان کے سایہ عاطفت میں وہ جماعتیں بھی سڑکوں پر نکل آئیں جنھیں 65 سال سے عوام نے سیاسی اقلیت بنائے رکھا ہے اور کوشش کر رہی ہیں کہ دھاندلیوں کے نام پر ایسا ہنگامہ کھڑا کیا جائے کہ نگراں حکومت دوبارہ الیکشن پر مجبور ہوجائے اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ قسمت آزمائی کریں لیکن یہ سب محض اس لیے بے کار ہے کہ جس نظام میں ہم زندہ ہیں اس میں ایماندار صرف وہ ہوتا ہے جسے بے ایمانی کے مواقع حاصل نہیں ہوتے، خواہ وہ مسٹر ہو یا مولانا۔
ہمارا خیال ہے کہ یوم شہداء پر ہماری مسلح افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف نے جمہوریت جزا سزا کے حوالے سے فوجی مداخلت کے جن امکانات اور فلسفوں کا ذکر کیا ہے اس کے مضمرات سے ہمارے جمہوریت پسند سیاستدان اچھی طرح واقف ہوں گے اور اسی حقیقت کی روشنی میں ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ آگے بڑھنے سے پہلے جمہوریت کے علمبردار ایماندار لوگ ''دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ'' کا مطلب سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
اس ملک میں اشرافیائی جمہوریت کے فراڈ کی جگہ حقیقی عوامی جمہوریت کے نفاذ کی کوشش کرنے والوں کے لیے یہ بات البتہ شدید تشویش کا باعث بن رہی ہے کہ ہماری اشرافیائی جمہوریت کے اداکار عوام کو زبان، صوبوں اور لسانیت و قومیت کے حوالوں سے مزید تقسیم در تقسیم کی طرف لے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں بھرپور کامیابی، پیپلزپارٹی کی اندرون سندھ کلین سوئپ اور کراچی اور حیدر آباد میں متحدہ کی کامیابی نے اس تقسیم کو اور گہرا کردیا ہے۔ بلوچستان کے سیاستدانوں کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام کہ وہ انتخابی نتائج کو بدلنا چاہتی ہے۔ متحدہ کے قائد کی یہ دھمکی کہ اسٹیبلشمنٹ آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کرے اور کراچی کے عوام کا مینڈیٹ اگر پسند نہیں تو کراچی کو ملک سے علیحدہ کردے، اپنے اندر ایسے مضمرات رکھتے ہیں کہ اگر ان کا نوٹس لے کر ان پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو اندر ہی اندر پکنے والا یہ لاوا کسی وقت اس شدت سے پھٹے گا کہ 1971 کا دھماکا اس کے سامنے بے حیثیت ہوکر رہ جائے گا، اس تناظر میں نواب شاہ اور جیکب آباد میں ہونے والے پی پی اور متحدہ کے جھگڑوں اور فوج کی طلبی سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
65 سال پر پھیلی ہوئی انارکی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اس ملک کے عوام کو ایک قوم بننے ہی نہیں دیا اور ہمیشہ انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کی۔11 مئی کے الیکشن میں مسلم لیگ نے پنجاب میں برتری حاصل کی چونکہ آبادی کا 63 فیصد حصہ پنجاب میں رہتا ہے لہٰذا سیاست میں وہی برتر ٹھہرتا ہے جو پنجاب میں برتری حاصل کرلے۔ لیکن اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسی قومی قیادت بھٹو کے بعد نہیں ابھر سکی جو چاروں صوبوں کے عوام میں یکساں طور پر مقبول ہو، جسے قومی قیادت کہا جاسکے۔ اس صورت حال نے عملاً چاروں صوبوں کو سیاسی حوالے سے ایک دوسرے سے الگ کرکے رکھ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس سیاست کا فائدہ ہمارے سیاستدانوں کو ہو لیکن اس سیاست کا سب سے بڑا نقصان اس ملک کے ان اٹھارہ کروڑ غریب عوام کو ہوگا جو اپنے مسائل کے حل کے لیے کبھی ایک بہروپیے کی طرف دوڑتے ہیں تو کبھی دوسرے مداری کی طرف بھاگتے نظر آتے ہیں۔ یوں اس کھیل میں ان کی نظر اپنی اجتماعی طاقت کی طرف جاتی ہی نہیں جو اگر متحرک ہو تو ان تمام بہروپیوں اور مداریوں سے نجات حاصل کرکے اپنی طاقت کو اپنی بھلائی اپنے مسائل کے حل کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔
اس انتخاب کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ اپنے آپ کو عوام کی نمایندہ کہنے والی جماعتوں کو یہ احساس ہوا کہ اب محض اپنے آپ کو عوام کی نمایندہ جماعت کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ عوام کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے کے لیے عوام کے مسائل حل کرنا ہوں گے ورنہ اب عوام انھیں مسترد کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ پیپلز پارٹی کو یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ واحد سیاسی جماعت ہے جسے چاروں صوبوں کے عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ دعویٰ اس لیے باطل ثابت ہوا کہ اس نے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے مسائل میں اس قدر اضافہ کردیا کہ عوام چیخ پڑے۔ پختونخوا میں اے این پی نے پختون سیاست کو خوب پروان چڑھایا اور یہ امید کیے بیٹھی رہی کہ پختون عوام اس کی پختون سیاست سے متاثر رہیں گے لیکن چونکہ اس جماعت نے پختونوں کے مسائل حل نہیں کیے اس لیے پختونخوا میں اسے بدترین ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس کی تمام اعلیٰ قیادت کو عوام نے مسترد کردیا ۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی حاصل نہ کرسکی بلکہ اس کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے عوام کے سامنے کوئی ایسی متبادل سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت نہیں تھی جس پر وہ اعتماد کرسکیں،وہ سیاسی جماعتوں سے گھبرائے ہوئے انھیں خدشہ تھا کہ دوبارہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی برسراقتدار آ گئے تو ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا سلوک ہو گا۔ اسی مجبوری نے انھیں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کو آزمانے کی طرف دھکیلا۔ اگر مسلم لیگ (ن) اس غلط فہمی میں مبتلا رہتی ہے کہ وہی ایک واحد جماعت ہے جس پر پنجابی عوام اعتماد کرتے ہیں تو اس کا حشر بھی پی پی اور اے این پی جیسا ہی ہوگا۔
اس لیے اسے کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔بلاشبہ عوام نے ایک بار پھر میاں برادران کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع دیا ہے لیکن اگر وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے اور اپنے مسائل حل کرنے ہی میں لگے رہے تو عوام جلد ہی اس سے مایوس ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ کو یہ دہرا اختیار ملا ہے کہ وہ پنجاب اور مرکز دونوں جگہ کے اقتدار پر براجمان ہے، اس حوالے سے اس پر دہری ذمے داری آگئی ہے کہ وہ پنجاب کے عوام کے ساتھ ملک بھر کے عوام کو ان مسائل سے نجات دلائے جو مہنگائی، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور سب سے بڑے عذاب دہشت گردی کی شکل میں ان پر مسلط ہیں۔ اگر میاں برادران عوام کے یہ مسائل حل کرنے کے بجائے جوڑتوڑ اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں الجھے رہے تو یہ اقتدار ان کا آخری اقتدار ہوگا، پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
11 مئی کے بعد اس صورت حال میں ایک ٹھہراؤ آگیا ہے، اگرچہ ہماری سیاسی روایات کے مطابق انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کے ساتھ اس ٹھہراؤ میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس قسم کی ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والوں کو یہ اندازہ بہرحال ضرور ہوگا کہ اگر اس ہیجان کو بڑھایا گیا تو غیر سیاسی اداکاروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے اور اگر یہ پیمانہ چھلک گیا تو پھر باریوں کا انتظار کرنے والوں کے سامنے ایک لمبی سیاہ رات ہی آسکتی بلکہ سیاستدان ہوں گے نہ جمہوری نظام باقی بچے گا۔
دھاندلیوں کا یہ کلچر نہ ہمارے لیے نیا ہے نہ جمہوری دنیا کے لیے، ابھی ملائیشیا انتخابات کے بعد اس کلچر سے گزر رہا ہے، وینزویلا میں بھی یہ طوفان اٹھایا گیا تھا جو اب آہستہ آہستہ بیٹھ رہا ہے، اس قسم کے ایک بڑے طوفان سے ہم 1977 میں گزر چکے ہیں اور اس کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔اس کے باوجود ہر الیکشن میں ہارنے والی پارٹیاں دھاندلی کا الزام لگاتی ہیں اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے جو ہار گئے ہیں وہ خوشدلی سے ہار ماننے کے بجائے دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں۔ دھاندلی کا الزام یا الزامات اس لیے مضحکہ خیز ہیں کہ ہم جس نظام میں زندہ ہیں وہ سر سے پیر تک بذات خود دھاندلیوں کی پیداوار اور دھاندلیوں کا مرکب ہے۔
1977 میں پیپلز پارٹی پر دھاندلیوں کا الزام لگانے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے یہ انتخابات جیت چکی ہے، چند سیٹوں پر ہونے والی ممکنہ دھاندلی کو جمہوریت کی توہین اور خلاف ورزی قرار دینے والوں نے جمہوریت کی برتری کے لیے جو طوفان برپا کیا وہ ساری جمہوریت کو ہی لے ڈوبا اور جمہوریت کی برتری کے دعوے دار نئی شیروانیاں پہن کر ضیاء الحق کی فوجی حکومت کا حصہ بن گئے۔ضیاء الحق پاکستان کی سیاست پر 11برس تک چھائے رہے اور خود کو جمہوریت کا علمبردار کہنے والی بعض جماعتیں بھی ان کے ساتھ حکومت میں شریک رہیں۔ اگر وہ اس وقت صبر سے کام لیتیں تو آج پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو چکی ہوتی۔
ہماری سیاست میں عمران خان کی تحریک انصاف ایک نئے اور ہنگامہ خیز عنصر کی حیثیت سے داخل ہوئی اور بڑے بڑے جلسے جلوس کے ساتھ یہ دعوے کرتی رہی کہ ان کا یہ سونامی ساری سیاسی جماعتوں کو بہالے جائے گا اور تحریک انصاف ایک نیا پاکستان بنائے گی، لیکن ہوا یہ کہ یہ سونامی جس کا اصل نشانہ پنجاب تھا، پنجاب کی سرحدوں سے ٹکرا کر پسپا ہوگیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کے کرتا دھرتا اپنے سونامی کی پسپائی کا جائزہ لے کر اپنی خامیاں اور کمزوریاں تلاش کرتے اور آیندہ ان سے بچنے کی کوشش کرتے لیکن دھاندلیوں کے خلاف لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر نکل آئے اور ان کے سایہ عاطفت میں وہ جماعتیں بھی سڑکوں پر نکل آئیں جنھیں 65 سال سے عوام نے سیاسی اقلیت بنائے رکھا ہے اور کوشش کر رہی ہیں کہ دھاندلیوں کے نام پر ایسا ہنگامہ کھڑا کیا جائے کہ نگراں حکومت دوبارہ الیکشن پر مجبور ہوجائے اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ قسمت آزمائی کریں لیکن یہ سب محض اس لیے بے کار ہے کہ جس نظام میں ہم زندہ ہیں اس میں ایماندار صرف وہ ہوتا ہے جسے بے ایمانی کے مواقع حاصل نہیں ہوتے، خواہ وہ مسٹر ہو یا مولانا۔
ہمارا خیال ہے کہ یوم شہداء پر ہماری مسلح افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف نے جمہوریت جزا سزا کے حوالے سے فوجی مداخلت کے جن امکانات اور فلسفوں کا ذکر کیا ہے اس کے مضمرات سے ہمارے جمہوریت پسند سیاستدان اچھی طرح واقف ہوں گے اور اسی حقیقت کی روشنی میں ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ آگے بڑھنے سے پہلے جمہوریت کے علمبردار ایماندار لوگ ''دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ'' کا مطلب سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
اس ملک میں اشرافیائی جمہوریت کے فراڈ کی جگہ حقیقی عوامی جمہوریت کے نفاذ کی کوشش کرنے والوں کے لیے یہ بات البتہ شدید تشویش کا باعث بن رہی ہے کہ ہماری اشرافیائی جمہوریت کے اداکار عوام کو زبان، صوبوں اور لسانیت و قومیت کے حوالوں سے مزید تقسیم در تقسیم کی طرف لے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں بھرپور کامیابی، پیپلزپارٹی کی اندرون سندھ کلین سوئپ اور کراچی اور حیدر آباد میں متحدہ کی کامیابی نے اس تقسیم کو اور گہرا کردیا ہے۔ بلوچستان کے سیاستدانوں کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام کہ وہ انتخابی نتائج کو بدلنا چاہتی ہے۔ متحدہ کے قائد کی یہ دھمکی کہ اسٹیبلشمنٹ آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کرے اور کراچی کے عوام کا مینڈیٹ اگر پسند نہیں تو کراچی کو ملک سے علیحدہ کردے، اپنے اندر ایسے مضمرات رکھتے ہیں کہ اگر ان کا نوٹس لے کر ان پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو اندر ہی اندر پکنے والا یہ لاوا کسی وقت اس شدت سے پھٹے گا کہ 1971 کا دھماکا اس کے سامنے بے حیثیت ہوکر رہ جائے گا، اس تناظر میں نواب شاہ اور جیکب آباد میں ہونے والے پی پی اور متحدہ کے جھگڑوں اور فوج کی طلبی سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
65 سال پر پھیلی ہوئی انارکی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اس ملک کے عوام کو ایک قوم بننے ہی نہیں دیا اور ہمیشہ انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کی۔11 مئی کے الیکشن میں مسلم لیگ نے پنجاب میں برتری حاصل کی چونکہ آبادی کا 63 فیصد حصہ پنجاب میں رہتا ہے لہٰذا سیاست میں وہی برتر ٹھہرتا ہے جو پنجاب میں برتری حاصل کرلے۔ لیکن اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسی قومی قیادت بھٹو کے بعد نہیں ابھر سکی جو چاروں صوبوں کے عوام میں یکساں طور پر مقبول ہو، جسے قومی قیادت کہا جاسکے۔ اس صورت حال نے عملاً چاروں صوبوں کو سیاسی حوالے سے ایک دوسرے سے الگ کرکے رکھ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس سیاست کا فائدہ ہمارے سیاستدانوں کو ہو لیکن اس سیاست کا سب سے بڑا نقصان اس ملک کے ان اٹھارہ کروڑ غریب عوام کو ہوگا جو اپنے مسائل کے حل کے لیے کبھی ایک بہروپیے کی طرف دوڑتے ہیں تو کبھی دوسرے مداری کی طرف بھاگتے نظر آتے ہیں۔ یوں اس کھیل میں ان کی نظر اپنی اجتماعی طاقت کی طرف جاتی ہی نہیں جو اگر متحرک ہو تو ان تمام بہروپیوں اور مداریوں سے نجات حاصل کرکے اپنی طاقت کو اپنی بھلائی اپنے مسائل کے حل کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔
اس انتخاب کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ اپنے آپ کو عوام کی نمایندہ کہنے والی جماعتوں کو یہ احساس ہوا کہ اب محض اپنے آپ کو عوام کی نمایندہ جماعت کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ عوام کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے کے لیے عوام کے مسائل حل کرنا ہوں گے ورنہ اب عوام انھیں مسترد کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ پیپلز پارٹی کو یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ واحد سیاسی جماعت ہے جسے چاروں صوبوں کے عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ دعویٰ اس لیے باطل ثابت ہوا کہ اس نے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے مسائل میں اس قدر اضافہ کردیا کہ عوام چیخ پڑے۔ پختونخوا میں اے این پی نے پختون سیاست کو خوب پروان چڑھایا اور یہ امید کیے بیٹھی رہی کہ پختون عوام اس کی پختون سیاست سے متاثر رہیں گے لیکن چونکہ اس جماعت نے پختونوں کے مسائل حل نہیں کیے اس لیے پختونخوا میں اسے بدترین ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس کی تمام اعلیٰ قیادت کو عوام نے مسترد کردیا ۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی حاصل نہ کرسکی بلکہ اس کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے عوام کے سامنے کوئی ایسی متبادل سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت نہیں تھی جس پر وہ اعتماد کرسکیں،وہ سیاسی جماعتوں سے گھبرائے ہوئے انھیں خدشہ تھا کہ دوبارہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی برسراقتدار آ گئے تو ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا سلوک ہو گا۔ اسی مجبوری نے انھیں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کو آزمانے کی طرف دھکیلا۔ اگر مسلم لیگ (ن) اس غلط فہمی میں مبتلا رہتی ہے کہ وہی ایک واحد جماعت ہے جس پر پنجابی عوام اعتماد کرتے ہیں تو اس کا حشر بھی پی پی اور اے این پی جیسا ہی ہوگا۔
اس لیے اسے کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔بلاشبہ عوام نے ایک بار پھر میاں برادران کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع دیا ہے لیکن اگر وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے اور اپنے مسائل حل کرنے ہی میں لگے رہے تو عوام جلد ہی اس سے مایوس ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ کو یہ دہرا اختیار ملا ہے کہ وہ پنجاب اور مرکز دونوں جگہ کے اقتدار پر براجمان ہے، اس حوالے سے اس پر دہری ذمے داری آگئی ہے کہ وہ پنجاب کے عوام کے ساتھ ملک بھر کے عوام کو ان مسائل سے نجات دلائے جو مہنگائی، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور سب سے بڑے عذاب دہشت گردی کی شکل میں ان پر مسلط ہیں۔ اگر میاں برادران عوام کے یہ مسائل حل کرنے کے بجائے جوڑتوڑ اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں الجھے رہے تو یہ اقتدار ان کا آخری اقتدار ہوگا، پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔