پیپلزپارٹی کی شکست

پیپلز پارٹی 1967 میں قائم ہوئی، پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی بنا پر صرف 4 سال بعد...

tauceeph@gmail.com

پیپلز پارٹی 1967 میں قائم ہوئی، پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی بنا پر صرف 4 سال بعد پارٹی اقتدار کی منزل پاگئی، پھر بھٹو کی قربانی نے پی پی کو نئی زندگی دی۔ پی پی پی کے کارکنوں نے محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قیادت میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خاتمے کے لیے تاریخی قربانیاں دیں، بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے دو دفعہ انتخابات میں کامیابیاں حاصل کیں اور بے نظیر بھٹو کو دو دفعہ انتخابات کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا، بے نظیر بھٹو کی شہادت کی بنا پر پیپلزپارٹی نے 2008 میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی مگر 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف اندرون سندھ تک محدود ہوگئی، پیپلزپارٹی کی 11 مئی کے انتخابات میں شکست کی وجوہات دہشت گردی کی جنگ اور پیپلز پارٹی کے سابق شریک چیئر پرسن آصف زرداری کی طرز حکومت سے منسلک ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ کو پاکستان کے عوام کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھتی تھیں، یہی وجہ تھی کہ انتہا پسندوں نے 27 دسمبر 2007 کو انھیں شہید کردیا۔ یہ صرف بھٹو خاندان کے ایک فرد کی شہادت نہیں تھی بلکہ پیپلزپارٹی کے وژن کی بھی شہادت تھی۔ جب زرداری برسراقتدار آئے تو انھوں نے انتہاپسندی کو ملک کے خاتمے کے لیے عالمی اتحاد سے اشتراک کی پالیسی برقرار رکھی، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ انتہاپسندوں کو اپنا موثر ہتھیار سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک منصوبے کے تحت انتہاپسندوں کو سوات پر قبضہ کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے، میڈیا کے ذریعے انتہاپسندوں کی حمایت میں مہم شروع کی گئی، پیپلزپارٹی اس مہم کے اثرات کا اندازہ نہیں کرسکی۔ قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں کے بارے میں غلط حقائق پیش کیے گئے۔ دہشت گردی کی جنگ میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کو سب سے بڑا نقصان ہوا مگر میڈیا کے پروپیگنڈے کی بنا پر عوام میں ان جماعتوں کے لیے ہمدردی پیدا نہیں ہوئی۔

مارچ 2007 میں جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے معزول کیا تھا، اس کے بعد وکلا کی تحریک منظم ہوئی، پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے اس تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، حتیٰ کہ اس تحریک میں پورے ملک میں صرف پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن ہی شہید ہوئے، بے نظیر بھٹو نے جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا مطالبہ کیا اور وکلا کی تحریک نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گہرے اثرات چھوڑے۔ پیپلز پارٹی کی بعض پالیسیوں نے پنجاب میں غلط تاثر پھیلایا۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی کوششوں سے منظم ہونے والی وکلا تحریک کو مسلم لیگ کے حوالے کردیا گیا، میاں صاحب نے ایک جلوس کی آدھے راستے تک قیادت کرکے چیف جسٹس کو بحال کرنے کا سہرا لے لیا، یوں پیپلزپارٹی سے خاص طور پر پنجاب کے عوام سے فاصلے بڑھنے شروع ہوئے۔

عدلیہ سے سوئس حکومت کو لکھے جانے والے خط کے فیصلے پر ایک نیا تضاد کھڑا ہوا، صدر زرداری نے اپنے ایک وزیراعظم کو قربان کرکے اور میڈیا کو اپنے خلاف مہم کا موقع دے کر اس فیصلے پر عمل کیا۔ وزرا کے اسکینڈلز کی بھرمار ہوئی، اسٹیبلشمنٹ نے پیپلزپارٹی کے وزرا کے اسکینڈلز عام کرکے ایک طرف حکومت کو قانونی جنگ میں الجھایا تو دوسری طرف عوام میں پیپلزپارٹی کا امیج کم ہوا۔ زرداری کی حکومت نے Good Governance کو اپنی ترجیحات سے خارج کردیا۔


پیپلزپارٹی کی کامیابی غریبوں کی مرہون منت ہے، پیپلزپارٹی کی حکومت نے مزدور طبقے کو مکمل طور پر نظر اندازکیا، پیپلزپارٹی کے منشور میں قومی اداروں کی نجکاری کو روکنے اور ٹریڈ یونین کو مستحکم کرنے کے نکات شامل تھے، ٹریڈ یونین تحریک ہی مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ملک کی بڑی ٹریڈ یونینوں نے ماضی میں پیپلزپارٹی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے نواز شریف اور جنرل مشرف کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے صنعتی اداروں اور بینکوں سے ٹریڈ یونین کے خاتمے کی حوصلہ افزائی کی۔ پیپلزپارٹی کے اس دور حکومت میں مزدوروں کی 6 کی جدوجہد ناکام ہوئی، اس دور میں مزدور رہنمائوںکو کئی ماہ جیلوں میں مقید ہونا پڑا۔ حکومت نے صنعتی اداروں میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہیں کیا۔

کراچی میں ملک کی صنعتی تاریخ کا بدترین سانحہ ہوا، بلدیہ ٹائون میں قائم علی گارمنٹس میں آتشزدگی میں 250 سے زائد مزدور جل کر ہلاک ہوئے، اس سانحے کی ذمے داری صنعتی قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا تھا۔ زرداری حکومت نے اس سانحے کے ذمے دار علی گارمنٹس کے مالکان کو قتل کے مقدمات سے بری کرکے جنرل ضیاء الحق جیسی حکومت کا کردار ادا کیا۔ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت نے صنعتی تعلقات کے قانون میں مزدور دشمن ترمیم کی، پیپلزپارٹی نے پنجاب حکومت کے اس فیصلے کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی، 18 ویں ترمیم کے بعد مرکز کے علاوہ صوبوں میں صنعتی تعلقات کے کمیشن قائم ہونے تھے، پیپلزپارٹی نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔

اس حکومت نے غریبوں کے لیے صرف بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم شروع کی، یہ ایک موثر اسکیم تھی، پیپلزپارٹی کے لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ 45 لاکھ سے زائد افراد اس اسکیم سے مستفید ہوئے۔ اس اسکیم پر عملدرآمد میں شفافیت نہ ہونے کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کے علاوہ پیپلزپارٹی نے امن کمیٹی کا نیا فیکٹر بھی شامل کردیا، یوں پیپلزپارٹی پر عسکری ونگ کا نیا الزام لگا،کراچی سمیت پورے لیاری کا سماجی شیرازہ بکھر گیا۔پیپلزپارٹی کی حکومت کیونکہ میرٹ پر یقین نہیں رکھتی تھی اس بنا پر پولیس کو متحرک نہیں کیا جاسکا۔ کئی صحافی کہتے ہیں کہ جب اعلیٰ پوسٹیں بھی نیلام ہونے لگیں تو پھر پولیس فورس کیسے متحرک ہوگی؟ کراچی میں بدامنی نے پورے ملک کو متاثر کیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ نہیں دی، بجلی اور گیس کے بحران کے خاتمے کے لیے موثر حکمت عملی نہیں اپنائی گئی، ملک بھر میں توانائی کے بحران نے حکومت کی ساکھ ختم کردی۔

کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سرائیکی صوبہ کا نعرہ غلط وقت پر لگایا گیا، اس نعرے سے سرائیکی وسیب کے عوام متحرک نہیں ہوئے مگر وسطی پنجاب کے عوام ناراض ہوگئے۔ پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کے غیر سنجیدہ رویے نے انتخابی مہم کو نقصان پہنچایا۔ پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رکن کا کہنا ہے کہ آصف زرداری صدر کے بجائے وزیراعظم بنتے تو وہ انتخابی مہم میں پی پی پی کی رہنمائی زیادہ بہتر انداز میں کرتے۔ پیپلزپارٹی کی حیثیت اس کا نظریہ اور کارکن ہیں۔ پیپلزپارٹی وفاق کی علامت ہے، اس کی شکست سے وفاق کو دھچکا لگا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے نظریے سے انحراف کیا، پیپلزپارٹی اگر Governance کی اہمیت کو محسوس کرتی، نچلے اور متوسط طبقے پر توجہ مرکوز رہتی تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔

اگر دنیا کے مختلف جمہوری ممالک کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں ان کی غلطیوں کی بنا پر شکست ہوئی ہے مگر جو سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں کا تدارک کرتی ہیں وہ دوبارہ عوام کی قیادت کا فریضہ انجام دینے لگے ہیں۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی اور بھارت کی انڈین نیشنل کانگریس اس کی واضح مثالیں ہیں، پیپلزپارٹی کو دوبارہ سیاسی جماعت کے طور پر چلایا جائے، زرداری صدر کا عہدہ چھوڑ کر پارٹی کی قیادت سنبھال لیں اور پارٹی اپنی سرگرمیوں کا محور حقیقی طور پرغریب عوام اور نچلے و متوسط طبقے پر مرکوز کرے تو 5 سال بعد پی پی پھر کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔
Load Next Story