پیپلزپارٹی کی شکست
سندھ پیپلزپارٹی کا مضبوط قلعہ ہے اور ہمیشہ رہے گا، قائم علی شاہ
WASHINGTON:
سندھ کے سابق وزیراعلیٰ اور پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر سید قائم علی شاہ نے سندھی عوام کا بھرپور اعتماد پیپلزپارٹی پر کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ سندھ پیپلزپارٹی کا مضبوط قلعہ ہے اور ہمیشہ رہے گا، انھوں نے سندھ میں پیپلزپارٹی کی شاندار کارکردگی پر کارکنوں کی کارکردگی کو بھی سراہا اور کارکنان کی محنت اور پی پی کے لیے کام کرنے پر بھی ان کا شکریہ ادا کیا ہے، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین کے عہدے سے مستعفی ہوتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی کارکردگی اور حالیہ انتخابی نتائج سے بلاول بھٹو زرداری کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور میری حکومت کی کارکردگی یا انتخابی نتائج سے صدر زرداری کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ ملک کے صدر ہیں، پارٹی چیئرمین نہیں ہیں۔
انھوں نے الیکشن میں ناکامی پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے مزید کہا کہ یقیناً ان کی 4½ سالہ حکومت میں کچھ ایسی غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہونگی جس کی وجہ سے 2013 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اتنی بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس ناکامی کو وہ تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا پارٹی سے کوئی اختلاف نہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق صدر زرداری اور پی پی چیئرمین بلاول زرداری نے پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے پی پی کے صوبائی صدرسے بات کی ہے، کے پی کے کے صدر انور سیف اﷲ اور پنجاب کے صدر منظور وٹو نے استعفیٰ دے دیا ہے اور شاید یہی کچھ جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم شہاب الدین اور بلوچستان کے صادق عمرانی کو بھی کرنا پڑے گا۔
پیپلزپارٹی کی ناکامی پر پنجاب کے گورنر مخدوم احمد محمود بھی مستعفی ہوگئے ہیں، جس کے بعد نئی وفاقی حکومت آنے کے بعد یقینی طورپر باقی گورنروں کو بھی ہٹادیا جائے گا۔پیپلزپارٹی کو سندھ کے علاوہ باقی 3 صوبوں میں جس شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کی پیش گوئی میڈیا، پی پی مخالف سیاسی حلقے پہلے ہی کر رہے تھے مگر صدر زرداری سمیت کوئی بھی پی پی رہنما یہ ماننے کو تیار نہیں تھا اور مسلسل دعوے کیے جارہے تھے کہ پیپلزپارٹی انتخابات میں پہلے سے بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کریگی اور زیادہ نشستیں جیت لے گی۔
حکمران نا جانے کس دنیا میں تھے اور انھیں اپنی حکومت کے 5 سال میں ہونے والی کرپشن، عذاب بنی ہوئی لوڈشیڈنگ، بیڈ گورننس، اقربا پروری، بڑھتی ہوئی بیروزگاری، اندرون سندھ جرائم اور تاوان کے لیے اغوا کی وارداتیں، حد سے تجاوز کرجانے والی مہنگائی، وفاق، سندھ اور بلوچستان میں قومی خزانے پر بوجھ بنی ہوئی وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج، اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے سرکاری اداروں میں ہونے والی لا قانونیت کی نشاندہی اور کیے جانے والے قانونی فیصلے، ہر ادارے میں ہونے والی تباہی، خاص طور پر پاکستان ریلوے اور پی آئی اے کی بربادی و دیگر حالت زار نظر نہیں آرہی تھی،سخت حفاظتی انتظامات میں اپنا زیادہ وقت گزارنے والے، اور عوام تو کیا اپنی پارٹی ہی سے دور ہوجانے والے حکمرانوں کو خوشامدی ٹولہ ہر طرف خوشحالی، سکون، عوام میں بڑھتی ہوئی پی پی کی خود ساختہ مقبولیت کی جھوٹی خبریں سناتا رہا اور حکمرانوں کا کام ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت اور غیر ملکی دوروں تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔
ملک میں جو بھی ضمنی انتخابات ہوئے ان میں سرکاری سرپرستی میں پی پی امیدواروں کی بھاری اکثریت سے کامیابی کو پی پی کی مقبولیت کا بڑھتا ہوا گراف دکھا کر صدر مملکت کو مطمئن کردیا گیا، اپوزیشن چیختی رہی، عوام سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے رہے، ملک میں خودکشی کی صورتحال دن بہ دن تشویشناک ہوتی رہی مگر ان سب کو اپوزیشن کا منفی پروپیگنڈہ قرار دیا جاتا رہا، سندھ اور وفاق میں بعض وزراء اور پارٹی رہنمائوں کو صرف یہ کام سونپا گیا کہ وہ میڈیا پر شریف برادران کو رگیدتے رہے اور اپوزیشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے رہیں مگر عام انتخابات کے نتائج کے بعد ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہے اور ان کی زبانوں پر تالے لگ گئے ہیں اور چند جو اب لب کشائی کرنے لگے ہیں ان کے پاس صرف ایک ہی الزام ہے کہ ن لیگ نے سرکاری سرپرستی میں دھاندلی کرا کر کامیابی حاصل کی ہے۔وفاق اور ہر صوبے میں نگراں حکومتیں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مرضی کی قائم ہوئیں۔
اتحادی حکومتوں کے خاتمے سے قبل ہر ادارے میں اپنی مرضی کے افسران مقرر کرا کر کامیابی کے لیے موثر انتظامات کرلیے گئے تھے، نگراں حکومتوں میں عام سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسران تک کو تبدیل کردیا گیا، مگر مارچ کے شروع میں تعینات کیے گئے اتحادی حکومت کے حامی افسروں کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا گیا جنھوںنے جہاں موقع ملا وفاداری نبھائی۔ ٹھٹھہ ضلع میں پی پی کی ایک اہم سابق وزیر سمیت 3 پی پی امیدوار ہار گئے اور شیرازی گروپ توقع کے برعکس چار نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگیا ۔ سندھ میں حیرت انگیز طور پر پیپلزپارٹی کو غیر متوقع طورپر اتنی بڑی کامیابی کیسے مل گئی، وہ تو آنے والا وقت اور الیکشن ٹریبونل کے فیصلے بتائیںگے مگر سندھ کے انتخابی نتائج نے شہید بھٹو کی پارٹی کی لاج ضرور رکھ لی، جس کا خطرناک اور افسوسناک پہلو یہ ہے چاروں صوبوں میں وفاق کی علامت سمجھی جانے والی پاکستان پیپلزپارٹی ایک صوبائی پارٹی بن کر رہ گئی ہے، جہاں سے اسے قومی اسمبلی اور سندھ سے قابل ذکر کامیابی تو حاصل ہوگئی مگر باقی صوبوں خاص کر پنجاب سے پی پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں سرائیکی صوبے کا نعرہ بھی کام نہیں آیا۔جیالے سکتے کی حالت میں ہیں کہ ان کی وفاقی پارٹی کس طرح ایک صوبائی پارٹی بن کر رہ گئی۔