کانٹوں کی سیج
لیجیے شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) کی قسمت نے ایک مرتبہ پھر یاوری کی اور اقتدار کی علامت ہما ایک بار پھر ان...
لیجیے شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) کی قسمت نے ایک مرتبہ پھر یاوری کی اور اقتدار کی علامت ہما ایک بار پھر ان کے سر پر آکر بیٹھ گیا۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوگیا۔ پاکستانی عوام کے اکثریتی فیصلے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف اب وزیراعظم کی حیثیت سے ایک مرتبہ پھر وطن عزیز کی قیادت کریں گے۔
الیکشن 2013 کے ابتدائی نتائج سامنے آتے ہی لاہور میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے میاں صاحب نے واشگاف الفاظ میں یہ بھی کہا کہ قوم کے ساتھ کیے ہوئے اپنے تمام وعدے پورے کروں گا، انھوں نے کہا ان کا ایجنڈا قوم کی حالت کو تبدیل کرنے کا ہے۔ انھوں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں محاذ آرائی اور تصادم سے گریز کرنے اور اپنے تمام سیاسی حریفوں کو ملک وقوم کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنے ساتھ شریک کرنے کا مثبت اور حوصلہ افزا عندیہ بھی دیا۔ پاکستان کو اس وقت جن سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی اور قومی مفادات کو ہر قیمت پر فوقیت اور ترجیح دی جائے۔ پاکستان کے عوام بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اختلافات کو بھلا کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں میاں نواز شریف کی دعوت کو قبول کریں گی۔
عقلمندی کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرے۔ میاں صاحب نے من و عن ایسا ہی کیا ہے اور 2013 کے عام انتخابات میں گویا وہ ایک نیا جنم لے کر ابھرے ہیں۔ اس کے علاوہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی پسپائی اور رسوائی بھی ان کے لیے ایک نشان عبرت ہے، جس کا تیر نشانے سے چوک گیا۔ چنانچہ میاں صاحب کا نیا سیاسی سفر ان کے لیے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ہے، مگر یہ بات باعث مسرت واطمینان ہے کہ انھوں نے اس سفر کا آغاز بڑے اچھے طریقے سے کیا ہے جس کا سب سے پہلا ثبوت انتخابی مہم میں ان کی وہ تقریریں ہیں جن میں انھوں نے شرافت و شائستگی کا دامن کبھی بھول کر بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پھر جب ان کے مدمقابل عمران خان گر کر زخمی ہوگئے تو انھوں نے اپنے انتخابی جلسے میں نہ صرف ان کی صحت یابی کے لیے اجتماعی دعا کا اہتمام کیا بلکہ اگلے روز کے لیے اپنی انتخابی مہم بھی منسوخ کردی۔
اس سے بڑھ کر یہ وہ بذات خود عمران خان کی عیادت کے لیے شوکت خانم اسپتال جاپہنچے۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں یہ انتہائی مثبت اور خوشگوار پیش رفت ہے جوکہ ہمارے دیگر سیاست دانوں کے لیے بھی ایک قابل تقلید مثال ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے یہ کہہ کر کہ اکثریتی جماعت کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کا حق دیا جانا چاہیے، اپنی جمہوریت نوازی کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ میاں صاحب اور ان کی جماعت کا یہ طرز عمل ایک مثبت انداز فکر کا آئینہ دار ہے جسے پاکستان کی مستقبل کی سیاست کے لیے اگر ایک نیک شگون کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔اپنی اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد نے پاکستان تحریک انصاف کے اپنے حریف کو ایک دوستانہ میچ کھیلنے کی دعوت بھی دی ہے مگر اس کے معنی ہرگز نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف مستقبل میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کا وہ کردار ادا کرے گی جس کے طعنے مسلم لیگ (ن) کو دیے جایا کرتے تھے۔
بے شک عزت اور ذلت دینے والی ذات صرف اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ چنانچہ اس حقیقت کو کھلے دل سے برسرعام تسلیم کرتے ہوئے میاں صاحب نے اﷲ کے ایک عاجز بندے کی حیثیت سے اپنی کامیابی کو ربّ کریم کا فضل و کرم قرار دیا ہے۔ ویسے بھی تکبر اﷲ تعالیٰ کے سوائے کسی اور کو زیب نہیں دیتا۔ بندے کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ مالک حقیقی کی برتری اور حاکمیت کو صدق دل سے تسلیم کرے۔ میاں صاحب نے بڑا اچھا کیا کہ اپنے کارکنوں سے اپنی کامیابی پر خطاب کے دوران ایک متکبر فاتح کا انداز اختیار کرنے سے قطعی اجتناب کیا ورنہ تو ایسے موقع پر اکثر لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں جوکہ ایک عمومی فطری عمل ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس موقع پر ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف بھی جو عموماً جذباتی انداز میں بات کرتے ہیں بہت کمپوزڈ اور سنبھلے ہوئے نظر آئے۔میاں محمد نواز شریف کی پچھلی حکومت کے بعد سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اس لیے انھیں اندرون ملک اور بیرون ملک معروضی حالات کا نہایت سنجیدگی اور گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا اور پھر اس کے بعد آیندہ کے لیے اپنی ایک کارگر حکمت عملی وضع کرنی ہوگی اور مستقبل کا ایک کامیاب اور موثر روڈ میپ تیار کرنا ہوگا۔ گزشتہ پیر لاہور میں غیرملکی میڈیا سے باتوں کے دوران انھوں نے اپنی حکومت کی چیدہ چیدہ ترجیحات کا واضح اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح معیشت ہے۔ بلاشبہ معیشت ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے۔
معیشت کا پہیہ جب تک رواں نہیں ہوگا اس وقت تک ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ مگر اس کے لیے میاں صاحب کو سب سے پہلے توانائی کے بحران کا جلدازجلد اور دیرپا حل تلاش کرنا ہوگا کیونکہ معیشت کا پہیہ صرف اسی صورت میں رواں دواں ہوگا۔ اس کے لیے میاں صاحب کو فوری اور طویل المیعاد حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس الہ دین کا چراغ تو نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ سنگین مسئلہ انتہائی سریع اور موثر کارروائی کا متقاضی ہے اور میاں صاحب کے لیے سب سے بڑی اور کڑی آزمائش ہے۔
معیشت کے پہیے کو رواں رکھنے کے حوالے سے کراچی شہر میں امن و امان کے قیام کا مسئلہ میاں صاحب کی حکومت کے لیے سخت ترین امتحان کا درجہ رکھتا ہے جس کے لیے انھیں انتہائی ضبط و تحمل، غیر جانب داری، فہم و تدبر اور فراخدلی کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوگا اور کراچی والوں کو مخلصانہ اور برادرانہ انداز میں اپنے اعتماد میں لینا ہوگا کیونکہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں یہ سب حساس اور کلیدی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ تاہم یہ امر نہایت حوصلہ افزا ہے کہ کراچی کی تاجر برادری نے میاں صاحب کی کامیابی کو ملکی ترقی اور معیشت کے لیے مجموعی طور پر خوش آیند قرار دیا ہے جوکہ ایک اچھا شگون اور قابل تعریف Good Will Gesture کہلائے گا۔
حقیقی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک اور خصوصاً کراچی میں امن وامان کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں اور اسی باعث انھوں نے اپنا ہاتھ روک رکھا ہے، جوں ہی ملک بھر میں اور خاص طور پر اقتصادی دارالخلافہ کراچی میں امن وامان کی فضا قائم ہوگی، بیرونی سرمایہ کاری کے بہاؤ میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔حکومت سازی کے فوراً بعد میاں نواز شریف اور ان کے اکنامک منیجرز کے سر پر سب سے بڑا اور کڑا امتحان قومی بجٹ 2013-2014 کی صورت میں موجود ہوگا جسے پیش کرنے میں ملک غیر ضروری تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
مہنگائی کے ستائے ہوئے غریب عوام خصوصاً محدود آمدنی والے طبقات بشمول سرکاری ملازمین اور مظلوم پنشنرز کی رحم طلب نگاہیں اب نئی حکومت کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ امید ہے کہ میاں صاحب کی نئی حکومت ان کے زخموں پر مرہم رکھے گی اور ان کے مصائب کا ازالہ کرے گی اور ایسے اقدامات کرے گی جن سے افراط زر میں بے تحاشا اضافے کی روک تھام ہوگی اور پاکستان کے مصیبت زدہ عوام کو وہ ریلیف ملے گا جس کی توقع انھیں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر پورے پانچ سال تک لوٹ مار کرنے والی نام نہاد عوامی حکومت سے تھی۔ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر مسند اقتدار میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے لیے پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج نظر آرہی ہے۔
الیکشن 2013 کے ابتدائی نتائج سامنے آتے ہی لاہور میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے میاں صاحب نے واشگاف الفاظ میں یہ بھی کہا کہ قوم کے ساتھ کیے ہوئے اپنے تمام وعدے پورے کروں گا، انھوں نے کہا ان کا ایجنڈا قوم کی حالت کو تبدیل کرنے کا ہے۔ انھوں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں محاذ آرائی اور تصادم سے گریز کرنے اور اپنے تمام سیاسی حریفوں کو ملک وقوم کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنے ساتھ شریک کرنے کا مثبت اور حوصلہ افزا عندیہ بھی دیا۔ پاکستان کو اس وقت جن سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی اور قومی مفادات کو ہر قیمت پر فوقیت اور ترجیح دی جائے۔ پاکستان کے عوام بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اختلافات کو بھلا کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں میاں نواز شریف کی دعوت کو قبول کریں گی۔
عقلمندی کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرے۔ میاں صاحب نے من و عن ایسا ہی کیا ہے اور 2013 کے عام انتخابات میں گویا وہ ایک نیا جنم لے کر ابھرے ہیں۔ اس کے علاوہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی پسپائی اور رسوائی بھی ان کے لیے ایک نشان عبرت ہے، جس کا تیر نشانے سے چوک گیا۔ چنانچہ میاں صاحب کا نیا سیاسی سفر ان کے لیے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ہے، مگر یہ بات باعث مسرت واطمینان ہے کہ انھوں نے اس سفر کا آغاز بڑے اچھے طریقے سے کیا ہے جس کا سب سے پہلا ثبوت انتخابی مہم میں ان کی وہ تقریریں ہیں جن میں انھوں نے شرافت و شائستگی کا دامن کبھی بھول کر بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پھر جب ان کے مدمقابل عمران خان گر کر زخمی ہوگئے تو انھوں نے اپنے انتخابی جلسے میں نہ صرف ان کی صحت یابی کے لیے اجتماعی دعا کا اہتمام کیا بلکہ اگلے روز کے لیے اپنی انتخابی مہم بھی منسوخ کردی۔
اس سے بڑھ کر یہ وہ بذات خود عمران خان کی عیادت کے لیے شوکت خانم اسپتال جاپہنچے۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں یہ انتہائی مثبت اور خوشگوار پیش رفت ہے جوکہ ہمارے دیگر سیاست دانوں کے لیے بھی ایک قابل تقلید مثال ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے یہ کہہ کر کہ اکثریتی جماعت کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کا حق دیا جانا چاہیے، اپنی جمہوریت نوازی کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ میاں صاحب اور ان کی جماعت کا یہ طرز عمل ایک مثبت انداز فکر کا آئینہ دار ہے جسے پاکستان کی مستقبل کی سیاست کے لیے اگر ایک نیک شگون کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔اپنی اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد نے پاکستان تحریک انصاف کے اپنے حریف کو ایک دوستانہ میچ کھیلنے کی دعوت بھی دی ہے مگر اس کے معنی ہرگز نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف مستقبل میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کا وہ کردار ادا کرے گی جس کے طعنے مسلم لیگ (ن) کو دیے جایا کرتے تھے۔
بے شک عزت اور ذلت دینے والی ذات صرف اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ چنانچہ اس حقیقت کو کھلے دل سے برسرعام تسلیم کرتے ہوئے میاں صاحب نے اﷲ کے ایک عاجز بندے کی حیثیت سے اپنی کامیابی کو ربّ کریم کا فضل و کرم قرار دیا ہے۔ ویسے بھی تکبر اﷲ تعالیٰ کے سوائے کسی اور کو زیب نہیں دیتا۔ بندے کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ مالک حقیقی کی برتری اور حاکمیت کو صدق دل سے تسلیم کرے۔ میاں صاحب نے بڑا اچھا کیا کہ اپنے کارکنوں سے اپنی کامیابی پر خطاب کے دوران ایک متکبر فاتح کا انداز اختیار کرنے سے قطعی اجتناب کیا ورنہ تو ایسے موقع پر اکثر لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں جوکہ ایک عمومی فطری عمل ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس موقع پر ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف بھی جو عموماً جذباتی انداز میں بات کرتے ہیں بہت کمپوزڈ اور سنبھلے ہوئے نظر آئے۔میاں محمد نواز شریف کی پچھلی حکومت کے بعد سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اس لیے انھیں اندرون ملک اور بیرون ملک معروضی حالات کا نہایت سنجیدگی اور گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا اور پھر اس کے بعد آیندہ کے لیے اپنی ایک کارگر حکمت عملی وضع کرنی ہوگی اور مستقبل کا ایک کامیاب اور موثر روڈ میپ تیار کرنا ہوگا۔ گزشتہ پیر لاہور میں غیرملکی میڈیا سے باتوں کے دوران انھوں نے اپنی حکومت کی چیدہ چیدہ ترجیحات کا واضح اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح معیشت ہے۔ بلاشبہ معیشت ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے۔
معیشت کا پہیہ جب تک رواں نہیں ہوگا اس وقت تک ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ مگر اس کے لیے میاں صاحب کو سب سے پہلے توانائی کے بحران کا جلدازجلد اور دیرپا حل تلاش کرنا ہوگا کیونکہ معیشت کا پہیہ صرف اسی صورت میں رواں دواں ہوگا۔ اس کے لیے میاں صاحب کو فوری اور طویل المیعاد حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس الہ دین کا چراغ تو نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ سنگین مسئلہ انتہائی سریع اور موثر کارروائی کا متقاضی ہے اور میاں صاحب کے لیے سب سے بڑی اور کڑی آزمائش ہے۔
معیشت کے پہیے کو رواں رکھنے کے حوالے سے کراچی شہر میں امن و امان کے قیام کا مسئلہ میاں صاحب کی حکومت کے لیے سخت ترین امتحان کا درجہ رکھتا ہے جس کے لیے انھیں انتہائی ضبط و تحمل، غیر جانب داری، فہم و تدبر اور فراخدلی کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوگا اور کراچی والوں کو مخلصانہ اور برادرانہ انداز میں اپنے اعتماد میں لینا ہوگا کیونکہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں یہ سب حساس اور کلیدی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ تاہم یہ امر نہایت حوصلہ افزا ہے کہ کراچی کی تاجر برادری نے میاں صاحب کی کامیابی کو ملکی ترقی اور معیشت کے لیے مجموعی طور پر خوش آیند قرار دیا ہے جوکہ ایک اچھا شگون اور قابل تعریف Good Will Gesture کہلائے گا۔
حقیقی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک اور خصوصاً کراچی میں امن وامان کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں اور اسی باعث انھوں نے اپنا ہاتھ روک رکھا ہے، جوں ہی ملک بھر میں اور خاص طور پر اقتصادی دارالخلافہ کراچی میں امن وامان کی فضا قائم ہوگی، بیرونی سرمایہ کاری کے بہاؤ میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔حکومت سازی کے فوراً بعد میاں نواز شریف اور ان کے اکنامک منیجرز کے سر پر سب سے بڑا اور کڑا امتحان قومی بجٹ 2013-2014 کی صورت میں موجود ہوگا جسے پیش کرنے میں ملک غیر ضروری تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
مہنگائی کے ستائے ہوئے غریب عوام خصوصاً محدود آمدنی والے طبقات بشمول سرکاری ملازمین اور مظلوم پنشنرز کی رحم طلب نگاہیں اب نئی حکومت کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ امید ہے کہ میاں صاحب کی نئی حکومت ان کے زخموں پر مرہم رکھے گی اور ان کے مصائب کا ازالہ کرے گی اور ایسے اقدامات کرے گی جن سے افراط زر میں بے تحاشا اضافے کی روک تھام ہوگی اور پاکستان کے مصیبت زدہ عوام کو وہ ریلیف ملے گا جس کی توقع انھیں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر پورے پانچ سال تک لوٹ مار کرنے والی نام نہاد عوامی حکومت سے تھی۔ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر مسند اقتدار میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے لیے پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج نظر آرہی ہے۔