سمجھداری شرط ہے…
جب کوئی چیز اپنی حدود سے تجاوز کرجائے تو مفید کی بجائے غیرمفید بلکہ بلائے جان قرار پاتی ہے...
جب کوئی چیز اپنی حدود سے تجاوز کرجائے تو مفید کی بجائے غیرمفید بلکہ بلائے جان قرار پاتی ہے، چاہے وہ مال ہو، اولاد ہو یا کسی شہر کی بے پناہ بڑھتی ہوئی آبادی۔ کراچی جو آج کلگونا گوں مسائل کی آماجگاہ، بدنظمی اور بدامنی کا شہر مشہور ہوگیا ہے۔ یہ شہر کبھی امن وامان، بے فکری، ادبی وثقافتی سرگرمیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اس شہر عزیز کے کئی القابات تھے مثلاً عروس البلاد'' روشنیوں کا شہر'' جس شہر کی راتیں جاگتی تھیں، دن بھر رونق لگی رہتی تھی، اس زمانے میں ہر گھر میں تین چار گاڑیاں تو کجا کم ازکم گھروں میں ایک گاڑی ہوتی تھی۔
لوگ پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتے تھے، طلبا بھی عام بسوں میں خصوصی رعایتی ٹکٹ پر سفر کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہ کرتے تھے۔ ہر قابل اور نالائق بچہ ٹیوشن سینٹرز کے چکر نہیں لگاتا تھا، اگر کوئی طالب علم واقعی کسی مضمون میں کمزور ہوتا تو اس کے بڑے بہن بھائی نہیں تو کوئی چچا، ماموں ہی اس کی یہ کمی پوری کرادیتے تھے۔ سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طلباء بھی بے حد مہذب، باذوق، رکھ رکھاؤ والے اور اپنے وقت کے بہترین اساتذہ، پروفیسر، ڈاکٹر اور انجینئرز قرار پائے۔ ہمارے ملک کے ممتاز ماہر تعلیم اور شاعر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا بھی سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آج اس مقام پر فائز ہیں کہ ان کی ذات کا ہر حوالہ معتبر اور قابل احترام ہے۔
بات ہورہی تھی شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی۔ ہر مہذب و ترقی یافتہ ملک میں تمام کاروبار زندگی بلکہ کاروبار مملکت کسی اصول اور ضابطے کے تحت چلایا جاتا ہے اور چند (سب نہیں تو) بنیادی ضروریات زندگی حکومت وقت کی ذمے داریوں میں سرفہرست ہوتی ہیں۔ مثلاً بنیادی تعلیم، صحت، روزگار وغیرہ عوام کا کام صرف خود کو اس کا اہل بنانا ہوتا ہے کہ انھیں کوئی ہنر، کوئی فن آتا ہو، روزگار انھیں ان کی اہلیت کے مطابق فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اور یہ بھی کہ روزگار ان کی رہائش گاہ سے قریب ہو، ان کے اپنے شہر یا ریاست میں ہو۔ اس میں حکومت کا صد فی صد نہ سہی 90 فیصد تو فائدہ ہوتا ہی ہے جب کہ شہری کو بھی اتنا ہی فائدہ ملتا ہے۔ مثلاً اس کی آمدورفت کے اخراجات کم ہوتے ہیں، روزگار پر پہنچنے اورگھر واپس آنے میں چار سے چھ گھنٹے نہیں لگتے ان کے علاوہ اور بھی کئی فوائد ہیں۔
حکومت کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ کام کرنے والے کام کے مقام پر بروقت پہنچ کر کام کا آغاز بلا تھکاوٹ کے فریش موڈ میں کرتے ہیں اور وقت مقررہ پر کام کو ہر صورت مکمل کرکے زیادہ سے زیادہ پروڈکٹ تیار کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہر شہر اور ہر ریاست اپنی اپنی کارکردگی کی بناء پر ترقی و خوشحالی کا سفر یا آسانی طے کرتی ہے۔ آبادی گنجائش کے حساب سے ہو تو، صحت، تعلیم، صفائی ہر کام پر پوری توجہ اور مستعدی دکھائی جاتی ہے۔ ہاں اس سب کی پشت پر کام کرنے والوں کی دیانت داری، جذبہ حب الوطنی اور اپنی ذمے داری کا احساس بھی کارفرما ہوتا ہے اور یہ تمام مذکورہ خصوصیات گھر کی تربیت اور اسکول کے طریقہ تعلیم اور نصاب کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اب اگر میں اس صورت حال کا اپنے گھروں کی تربیت اور اسکول کے نظام تعلیم سے موازنہ کرنے لگوں تو بات بڑھ جائے اور پھر دور تلک جائے گی اور بے حد معززین کے چہرے بے نقاب اور نامی گرامی تعلیمی اداروں کے پول کھل جائیں گے۔ لہٰذا اتنا بہت ہے کہ ''عقلمند کو اشارہ کافی ہے۔''
ترقیاتی و تعمیراتی مقاصد کے لییل جو پلاٹ تھے مثلاً پارک، اسپتال، اسکول وغیرہ کے لیے وہ سب لینڈ مافیا کے قبضے کی بدولت کچی آبادیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان جگہوں پر غیرمعیاری کئی کئی منزلہ عمارات تعمیر ہیں اور چھوٹے چھوٹے کمرے کرایے پر دیے گئے ہیں جو محنت کش یہاں روزگار کے لیے آتے ہیں وہ ان ناگفتہ بہ کمروں میں کئی کئی خاندانوں کے ساتھ رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں تیسری منزل پر نیچے سے بالٹیاں بھر کر پانی لاتے ہیں ایک پنکھا اور ایک بلب کی سہولت پر کرائے کے علاوہ پانی اور بجلی کی مد میں مزید پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ عرض یہ کہ مفت میں قبضہ جمائے ہوئے ان پلاٹوں پرکمانے والے خوب کما رہے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ ان بلامنصوبہ بندی بسی ہوئی کچی آبادیوں کے مکینوں کو تمام شہری سہولیات بھی درکار ہیں اب اگر شہر کے ذمے داران پانی، بجلی، گیس اور دیگر سہولیات فراہم کرنے میں ذرا دیر کردیں تو ان بستیوں کے مکین احتجاج اور توڑپھوڑ پر اتر آتے ہیں۔
شہر کراچی ان وجوہات کے باعث بے پناہ مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے نہ اتنے (غیر رجسٹرڈ) افراد کے لیے، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی، گیس کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی ممکن ہے اور نہ شہر کی صورت حال برقرار رکھنا ممکن ہے۔ ٹرانسپورٹ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تو ان ہی افراد میں جنہوں نے کراچی شہر میں آکر محنت مزدوری سے کچھ پس انداز کرکے پیسہ جمع کرلیا یا ان کے سرپرستوں نے طرح طرح کے ذرایع آمدورفت خودبخود ایجاد کرلیے ہیں۔ مثلاً شہر کے بے شمار علاقوں میں چنگ چی اسکوٹر رکشاؤں کی سروس دن بدن بڑھتی جارہی ہے ہم عموماًچلتے چلتے جب ایسے علاقوں سے گزرتے ہیں جہاں ان رکشاؤں کے اڈے جگہ جگہ بنے ہوئے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ اچانک اندرون پنجاب یا سندھ کے کسی قصبے میں پہنچ گئے ہیں جہاں چھن چھن کرتے اور رنگ برنگ پراندھوں اور کپڑوں سے سجائے ہوئے ٹانگوں کی طرز پر ان کو بھی سجایا گیا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اس کلچر کا عکس ہے جہاں جہاں کے لوگ ان علاقوں میں آباد ہیں اس لیے اب کراچی پر کراچی کا گمان ہی نہیں ہوتا۔ بہرحال جب ہر طرح اور ہر علاقے کے لوگ کسی شہر میں موجود ہوں گے تو وہ اپنے لیے زندگی کی سہولیات بھی خود ہی پیدا کرلیں گے یہ تو ایک ثقافتی مسئلہ ہے۔
بات جب ثقافتی سے نکل کر امن وامان کے دائرے میں داخل ہوجائے تو ذرا فکرمندی کے آثار لوگوں کے چہروں پر عیاں ہونے لگتے ہیں۔ یعنی ان محنت کشوں کی آڑ میں جو جرائم پیشہ افراد شہر میں بلاروک ٹوک نہ صرف داخل ہورہے ہیں بلکہ شہر کراچی کے امن و ثقافت کو بری طرح مجروح کر رہے ہیں اصل مسئلہ تو یہ ہے۔ اس تمام صورت حال میں ہر طرح اور ہر سطح پر ناقص منصوبہ بندی کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔ بے شک کراچی ایک صنعتی شہر ہے یہاں محنت کشوں کی بہت ضرورت ہے مگر اس کے لیے کوئی اصول کوئی پیمانہ تو ہونا چاہیے تھا۔ پہلے مقامی لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جانا چاہیے تھا۔ پھر اندرون ملک سے آنے والے محنت کشوں کو روزگار فراہم کیا جاتا اور جتنی ضرورت اور گنجائش ہوتی اتنے افراد کو شہر کے وسائل کو مدنظر لکھتے ہوئے یہاں بسایا جاتا تاکہ انھیں رہائش کے علاوہ تمام ضروریات زندگی بھی باآسانی فراہم کی جاسکتیں۔
ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی پر کسی نے کبھی دھیان دیا ہوتا تو ملک کے چھوٹے شہروں جن کے اردگرد قصبے اور دیہات بڑی تعداد میں موجود ہیں وہاں صنعتیں، کارخانے لگائے جاتے تاکہ انھیں خام مال بھی اپنے علاقوں سے ملتا اور مزدور بھی خام مال کو شہر تک لانے کے اخراجات بھی نہ ہوتے اور لوگ بھی اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کے دکھ جھیلنے کی بجائے اپنے ہی مقام پر باعزت روزگار حاصل کرکے مطمئن زندگی بسر کرتے۔ دوسری جانب بڑے شہروں پر بھی اس قدر بوجھ نہ بڑھتا اور یہ شہر واقعی بڑے اور عالمی معیار کے ہوتے۔ ان کی آمدنی ان ہی کی ترقی پر خرچ ہوتی۔
آج ہر شخص کی زبان پر جاگیردارانہ، وڈیرانہ انداز فکر کی بات ہے، یہ اس بات کی گواہی ہے کہ یہ جاگیردار، وڈیرے اور چوہدری وغیرہ اپنے علاقوں کے عوام کو کسی قسم کی سہولت مہیا کرنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے وہ ان سے جان چھڑا کر کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ یہاں بھی کوئی آسودہ زندگی بسر نہیں کرتے مگر کم ازکم روز روز کے ظلم وستم سے تو کسی حد تک بچ جاتے ہیں۔ہمارے ایوانوں میں ان ہی لاچار اور مجبور عوام کے ووٹوں سے جانے والے اپنے مطلب اور تحفظ کے لیے تو کوئی آئینی بل پاس کرالیتے ہیں مگر کوئی ترمیم یا اصلاح پاکستانی معاشرے سے جاگیردارانہ اور ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے پاس نہیں کرواتے۔کیونکہ ان ایوانوں میں جاتے ہی جاگیردار، وڈیرے یا بڑی بڑی برادریوں والے ہیں وہ بھلا اپنے پیروں پر خود کلہاڑی یوں ماریں گے؟