عورتوں کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے … پہلا حصہ

کراچی کے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر بیٹھے ہوئے پولیس افسر کا تبصرہ ، گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات سے قبل...

کراچی کے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر بیٹھے ہوئے پولیس افسر کا تبصرہ ، گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات سے قبل میرا شمار بھی پاکستان کے ان شہریوں میں ہوتا تھا جو ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکلتے لیکن اس مرتبہ معاملہ مختلف تھا،شاید نوجوانوں کے جوش وخروش نے ہم جیسے بوڑھوں کو بھی جوش دلادیا تھا یا پھرہماری سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی کہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اگر تبدیلی لانی ہے تو پھر وہ ووٹ کے ذریعے ہی لائی جا سکتی ہے۔اب یہ ساٹھ کی دہائی تو نہیں کہ انقلاب کے ذریعے سسٹم بدلنے کی بات کی جائے۔یہ اور بات کہ ایک چینل کی الیکشن نشریات میں ہم سے بھی زیادہ بوڑھے نظر آنے والے امر جلیل فریاد کر رہے تھے کہ اس الیکشن کا کیافائدہ ہوگا پھر وہی وڈیرے اور سرمایہ داربر سر اقتدارآ جائیں گے گویا ابھی بھی ہماری نسل سسٹم کی تبدیلی کی خواہش سے دستبردار نہیں ہوئی۔امر جلیل نے ایک اور مزے دار بات بھی کی کہ متوسط طبقے کی نمائندگی کے لیے بننے والی جماعت بھی اتنے عرصے سے اقتدار میں رہ کر وڈیروں والا حلیہ اختیار کر چکی ہے۔

ویسے تو ووٹ ڈالنا ہمارا ذاتی فیصلہ تھا لیکن اس مرتبہ میڈیا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھی عوام کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ہمارے اپنے ادارے سمیت بہت سے ادارے انتخابی عمل کا مشاہدہ و نگرانی کررہے تھے۔ہم نے بھی رضاکارانہ طور پر اپنا نام لکھوا دیا تھا اور دیگر رفقائے کار کے ساتھ ہمارا کارڈ بھی بن چکا تھا چنانچہ گیارہ مئی کو گلے میں کارڈ ڈال کے سوا سات بجے سب سے پہلے تو ہم نے اپنے پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا جس کا پتا ہمیں الیکشن کمیشن کو آٹھ تین صفر صفر پر ایس ایم ایس کر کے موصول ہوا تھا۔ساڑھے سات بجے جب ہم گلشن اقبال کے بلاک چار میں واقع فالکن اسکول میں پہنچے جہاں ہمارا ووٹ تھا تو باہر لگے ہوئے سیاسی جماعتوں کے شامیانے خالی پڑے تھے۔

ہم نے اندر موجود عملے سے بات کی۔اس اسکول کے اندر تین پولنگ اسٹیشنز بنے ہوئے تھے۔ بعد میں ہم نے دیکھا، ہر اسکول میں ایسا ہی تھا اور اس وجہ سے ووٹرزکو پریشانی بھی ہوئی کہ انھیں کون سے اسٹیشن میں جانا ہے۔جو ووٹرز باہر سے سیاسی جماعتوں سے نمبر وغیرہ کی پرچی بنوا کے آتے تھے، پولنگ اسٹاف کو ان کا نمبر ڈھونڈھنے میں آسانی رہتی تھی۔مجھے بھی یہی مشورہ دیا گیا میں باہر نکلی تو صرف جماعت اسلامی کے شامیانے میں چند لوگ کالے برقعے پہنے ہوئی خواتین کو پرچیاں دے رہے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے بھی پرچی بنا کے دے سکتے ہیںلیکن انہوں نے جواب دینا تو درکنار دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا، میں دوبارہ اندر چلی گئی ،پولنگ شروع ہونے میں ابھی وقت تھا

مردوں اور عورتوں کی قطاریں لگنا شروع ہو گئیں تھیں، میرا نمبر تیسرا تھا، ساڑھے ا ٓٹھ بجے یعنی آدھے گھنٹہ کی تاخیر سے پولنگ شروع ہوئی، مجھ سے پہلے دو ضعیف خواتین نے اپنا ووٹ ڈالاجب کہ میرے پیچھے نوجوان لڑکیوں کی اکثریت تھی۔دیگر پولنگ اسٹیشنوں میں بھی میرا یہی مشاہدہ رہا کہ ان انتخابات میں نوجوانوں اور بوڑھوںنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد میں اپنے دفتر کی ساتھی لڑکی کے ساتھ وہائٹ ہائوس گرامراسکول پہنچی، وہاں عورتوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ہمارے گلے میں لٹکے ہوئے کارڈ کو دیکھ کر کچھ لڑکیاں ہمارے پاس آ کے شکایت کرنے لگیں، ان کا کہنا تھا کہ انتخابی عملہ بد نظمی کا شکار ہے اور ووٹنگ کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔


ہم نے اندر جا کے عملے سے صورتحال جاننا چاہی ،معلوم ہوا کہ پورا عملہ نہیں پہنچا تھا، انہیں کم از کم دو رضا کار درکار تھیں۔ جب ہم باہر نکلے تو ایک خاتون نے ہمیں آڑے ہاتھوں لیا۔پہلی مرتبہ اتنی تعداد میں عورتیں باہر نکلی ہیں، آپ کارڈ لٹکا کے گھوم رہی ہیں،کچھ کریں ورنہ یہ سب واپس چلی جائیں گی۔ہم پریشان ہو کے پریذائڈنگ افسرکو ڈھونڈنے لگے۔ایک بوکھلائے ہوئے صاحب نظر آئے، معلوم ہوا یہی ہیں۔انہوں نے بھی عملے کی کمی کا عذر پیش کیا، ہم نے رضاکاروں والی تجویز پیش کی تو وہ فورأ راضی ہو گئے۔اتنے میں ان ہی جوشیلی خاتون نے ہمیں آ کے بتایا کہ انہوں نے ایک رضاکار لڑکی ڈھونڈ لی ہے اور اب ایک ہم ڈھونڈیں۔ ہم نے خواتین کی قطارکے پاس جا کے اعلان کیا کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی کی ضرورت ہے جو عملے کی مدد کرے، بالآخرایک لڑکی آگے بڑھی اور یوں یہ مسئلہ حل ہوا۔ہم خواتین کو صبر سے کام لینے کی تلقین کرتے ہوئے وہاں سے نکل آئے ۔

اس کے بعد ہم ابوالحسن روڈ پر واقع میرٹ اینڈ میرٹ اسکول گئے،اس اسکول میں بھی تین پولنگ اسٹیشن بنے ہوئے تھے ، جگہ کم تھی اور ایک چھوٹے سے کمرے میںمردوں اور عورتوں کے بوتھ اکٹھے کر دئیے تھے اور پہلے عورتوں کو اندر بھیجا جا رہا تھا یوں ووٹ ڈالنے کا عمل اور بھی سست ہو گیا تھا ،ہم نے پریزائڈنگ افسر سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی درخواست کی لیکن اس نے جگہ کی کمی کا عذر پیش کیا،ہم نے باہر نکل کے میڈیا اور سول سوسائٹی کے دوستوں کو بذریعہ ایس ایم ایس اس صورتحال سے آگاہ کیا۔

پھر ہم حشمت اسکول پہنچے تو ایک امیدوار کو اپنے لڑکوں کے ساتھ پریشان کھڑے پایا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سوا دس بج گئے تھے لیکن یہاں پولنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ہم اندر گئے تو عورتوں اور مردوں کو پریشان کھڑے پایا، خیر تھوڑی دیر بعد ہی بیلٹ پیپرز اور باکس پہنچ گئے اور سیکیورٹی عملے نے گیٹ کھول کے مزید لوگوں کو اندرآنے دیا۔گلشن اقبال ہی میں ایرو کلب کے پاس واقع گورنمنٹ اسکول کی کشادہ عمارت میں ماحول بہت پر سکون تھا اور مرد اور عورتیں مختلف کمروںمیں جا کے ووٹ ڈال رہے تھے۔ پریزائڈنگ افسر نے بتایا کہ یہاں پولنگ آٹھ بجے شروع ہو گئی تھی ، سامان پہلے ہی مل گیا تھا اور عملہ بھی موجود تھا۔

وفاقی اردو سائنس یونیورسٹی کے کیمپس میں بھی کئی پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے اور یہاں بھی لوگوں کو یہی پریشانی تھی کہ ان کا ووٹ کس پولنگ اسٹیشن میںہے۔ایسی ہی ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ وہ رات ہی بیرون ملک سے صرف ووٹ ڈالنے آئی تھیں۔یہاں کھلے میدان میں ووٹنگ کا کچھ سامان پڑا ہوا تھا، اس سامان کے پاس کھڑے ہوئے لوگ جماعت اسلامی کے رضاکار تھے، انہوں نے بتایا کہ انتخابی عملہ اس سامان کو فاضل قرار دے کر یہاں چھوڑ گیا ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story