خطی خان بھی ایک سنجرانی تھا
تاریخ میں یہ لکھا ہے کہ ہمایوں 25 دن ملک خطی کا مہمان رہا۔ اُس کی خاطر مدارت کے لیے 300 سے زیادہ بھیڑیں خرچ کیں۔
''ارشد' میرا پرانا دوست ہے۔ ہر وقت منہ میں پان بھرا ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں جاتا ہے پان کی پچکاری مار کر اپنا نشان چھوڑ دیتا ہے۔ قد میں میرے برابر ہے لیکن وزن میں زیادہ ہے۔اس لیے لیاری میں بوٹیاں پکا کر بیچتا ہے۔ کچھ لوگ بلوچوں کے بارے میں بس اتنا جانتے ہیں کہ بلوچ صرف بلوچستان میں رہتے ہیں ۔وہ سب لوگ ارشد کو ''بلوچ'' کہتے ہیں۔ مگر بلوچی بولنے والے ارشد کو ''جدگال'' کہتے ہیں۔ جدگال بلوچستان میں جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ لیاری کا سابق ایم این اے شاہ جہاں بلوچ جدگال ہے۔ آج کل پھر مارکیٹ میں ''جام صاحب'' کا نام گھومنے لگا ہے تو پھر لوگوں کو جدگال یا دآگئے ہیں۔
ارشد رہتا لیاری میں ہے مگر دل بلوچستان ہے ۔کراچی کی گلی میں، منہ میں پان بھر کربلوچستان کی سیاست پر خوب مصالحہ لگاتا ہے۔میرے پاؤں پر زور سے ہاتھ مار کر کہنے لگا کہ ''ارے واجہ۔ جس ٹی وی والے کو یہ نہیں پتہ کہ جدگال کون ہے وہ بلوچستان کی رام کہانی ایسے سناتے ہیں جیسے یہ لوگ ادھُر کا فنٹر ہے۔ارے تم کو کیا معلوم کہ تربت کا پہاڑ کیسا ہوتا ہے۔ محفل میں بیٹھے ہمارے ایک دوست نے اُسے چھیڑ دیا اور کہا کہ بلوچستان کا حال سرداروں نے برا کر دیا۔ ارشد بھائی تو جیسے ہتھے سے اکھڑ گئے۔ غصے میں کہنے لگے کہ تم کو معلوم ہی نہیں سردار کون ہوتا ہے۔ سردار اور چوہدری میں فرق ہوتا ہے۔ سردار کے پاس کوئی جاگیریں نہیں ہوتی ہیِں۔ سردار کے پاس تو اکثر کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ یہ جو لوگ ٹی وی میں سیاست کر رہے ہوتے ان بلوچوں کے پاس پیسہ ہوتا ہو گا۔ یہاں ایک الگ نظام ہے۔مجھے ایسی باتوں سے دکھ ہوتا ہے۔
میں نے کہانی کا رخ بدلنے کے لیے پوچھ لیا کہ یہ صادق سنجرانی کہاں سے آگیا؟۔ارشد خوش ہو گیا۔ اس کی باچھیں کھل گئیں، کہنے لگا واجہ ۔تم نے اچھا کیا پورا نام لیا صادق سنجرانی۔ یہ نواز شریف اس کو سنجرانی سنجرانی بولتا ہے تو ہم کو غصہ آتا ہے ۔ سنجرانی ہمارا قوم ہے۔ بلوچ ہے۔ قوم کو نہیں بولا کرو۔ نام پورا لیا کرو۔ سلیم کیونکہ تاریخ سے دلچسپی رکھتا ہے تو مجھ سے کہنے لگا کہ سنجرانی قبیلہ کہاں ہوتا ہے ۔میں نے کہا کہ ہمارے بچوں کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ ہم نے ایٹمی دھماکے چاغی میں کیے۔ لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ چاغی میں رہتا کون ہے۔ سیکڑوں سال سے وہاں سنجرانی قبیلہ آباد ہے۔ سنجرانی قبیلہ کے ایک سردار نے اس خطے میں سیکڑوں سال پہلے وہ کام کیا ہے جس کی وجہ سے آج برصغیر کی تاریخ بلکل مختلف ہوتی۔
جب بلوچستان کا عظیم نام چاکر اعظم رند حکومت کرتا تھا۔ اُس زمانے میں سنجرانی قبیلہ چاغی کے علاقے پر اپنا اثر رکھتا تھا۔ اُس وقت ملک خطی خان سنجرانی قبیلہ کا سردار تھا۔ اُس کے باپ کے وفاداروں نے کیسے اُس کی جان بچائی اور کیسے وہ سردار بنا یہ کہانی پھر سناؤں گا۔ لیکن اُس کا صرف ایک واقعہ بتا دوں۔ ایک بار اُس کے لڑکے نادر خان کو ہمسایہ سمالانیوں نے کسی بات پر بہت مارا۔ سردار کے خوف سے راتوں رات پورا قبیلہ ہجرت کرنے نکل گیا۔ لیکن جیسے ہی سردار خطی خان کو اس بات کا علم ہوا ۔وہ فورا اکیلا ان لوگوں کی تلاش میں نکلا، کہتے ہیں کہ وہ تقریبا 60 میل دور انھیں مل گئے۔ جیسے ہی انھوں نے سردار کو اکیلے دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ سردار خطی خان نے کہا کہ تم میرا حصہ ہو ۔ اگر تم میرے بیٹے کو قتل بھی کر دیتے تو میں تمہارے100 گھروں کو کبھی نہیں چھوڑتا۔آؤ میرے ساتھ واپس چلو۔ اور یہ ہی محبت تھی کہ20 سال بعد جب چاغی پر حملہ ہوا تو ان سمالانیوں نے سردار کے لیے اپنی جانیں قربان کر دی۔
ارشد کہاں چپ رہنے والا تھا، فورا بولا تم اس کو بتاؤ یہ نیا پاکستان، نیا پاکستان کہتا رہتا ہے۔ اس پورے علاقے کو نیا ہم نے بنایا۔اس کو بتاؤ ہمایوں پر ہمارا کتنا بڑا احسان ہے۔ارشد رکا نہیں، پھر کہنے لگا بلوچوں کا بتاؤ۔
ہمایوں خان سے مرزا کامران خان نے اقتدار چھین لیا تھا۔ ہمایوں بے یار و مددگار تھا۔ وہ ایران جانا چاہتا تھا ۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ چھپ چھپ کر سندھ کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔ مرزا کامران خان کو یہ بات معلوم ہو گئی کہ ہمایوں ایران جانے کے لیے بلوچستان کا راستہ لینا چاہتا ہے۔ مرزا کامران نے حاکم ِ چاغی ملک خطی خان کو بہت سارے تحفے اور دولت بھیج کر یہ پیغام دیا کہ اگر وہ ہمایوں کو گرفتار کر کے اُس کے حوالے کر دے تو اُسے بہت بڑی سلطنت دی جائے گی۔ ملک خطی خان یہ سُن کر ہمایوں کی تلاش میں نکل پڑا۔ ہمایوں بہت برے حالات میں نوشکی کے راستے چاغی میں داخل ہوا ۔اور خطی خان کے دادا سردار جہاں بیگ خان کے قلعے کے سامنے خیمہ لگا دیا۔ ہمایوں کے ایک منصب دار کی بیوی بلوچی زبان جانتی تھی۔ وہ قلعہ کے اندر داخل ہوئی اور ملک خطی خان کی بیوی مہ ناز سے ملی اور اُسے پوری داستان سُنائی۔ ملک خطی خان جب واپس لوٹا تو یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ جسے وہ تلاش کر رہا تھا وہ شخص تو گھر کے سامنے موجود ہے۔
ارشد نے جیب سے پان نکالا اور منہ میں رکھنے سے پہلے کہنے لگا دیکھو بلوچ کا بیوی کیسا ہوتا ہے۔ ملک خطی خان نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا۔ اورکہا کہ اگر وہ ہمایوں کو مرزا کامران کے حوالے کر دے گا تو اُسے بہت دولت ملے گی۔ لیکن اُس کی بیوی راضی نہیں ہوئی اور کہا کہ بلوچ روایت کے مطابق ''باہوٹ'' ( جو شخص پناہ میں ہو) کو گرفتار کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ خطی خان نے خاندان کے سب لوگوں کو بلایا اور سب نے یہ کہا کہ بلوچ روایت کے مطابق دھمکی، جتنی خطرناک ہو یا دولت کی جتنی لالچ دی جائے جو ہمارے گھر یا علاقے میں آجائے اُسے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچ روایت آج بھی اتنی مضبوط ہے۔ ابھی میں بات ہی کر رہا تھا کہ ارشد پھر سیاست بیچ میں لے آیا۔ اور کہا اگر عمران ہم پر بھروسہ کرے گا پھر دیکھو ہم کیا کرتا ہے۔ میں خاموش ہونے لگا تو کہنے لگا۔ارے واجہ تم تو بولو۔خدا قسم ہم کچھ نہیں بولے گا۔
خطی خان کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ روایت کے خلاف نہیں جاسکتا ہے۔لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ بلوچی شان، غیرت اور روایات کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوگا اور جہاں تک کامران کا معاملہ ہے تو اُسے بھی دیکھ لینگے۔
ملک خطی خان نیا لباس اور بلوچی روایت کے مطابق ایک سردار کی حیثیت سے ہمایوں کے خیمے میں گیا۔ اور اُسے تسلی دیتے ہوئے بلوچ روایت کے عظیم جملے کہے کہ ہم بلوچ لوگ ہیں اور ہمیں اپنی روایات اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ ہمیں کامران کی طرف سے آپ کی گرفتاری کا حکم ملا ہے۔ مگر دولت کی لالچ میں ہم اپنی روایت سے غداری نہیں کر سکتے۔ ہم کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے آنے والی نسلوں کے سامنے ہم شرمندہ ہوں۔ تاریخ میں یہ لکھا ہے کہ ہمایوں 25 دن ملک خطی کا مہمان رہا۔ اُس کی خاطر مدارت کے لیے 300 سے زیادہ بھیڑیں خرچ کیں۔ ہمایوں کو سرحد تک پہنچایا اور دیوان چاہ کے مقام پر ناروئی، ریکی اور دیگر بلوچ قبائل کے سردار کو بلا کر بلوچی قول لے کر اُن کے حوالے کیا۔ بلوچی قول کے مطابق اب مہمان کی جان و مال کا تحفظ بلوچوں کے حوالے ہے ۔
اب مہمان کے لیے جان جا سکتی ہے لیکن اُسے اپنی منزل تک ضرور پہنچائیں گے۔ ایران سے مدد لینے کے بعد ہمایوں واپس آیا تو دالبندین کے راستے ''پلے پوپ'' کے مقام پر وہ ٹھہرا۔ جہاں ملک خطی خان اُس سے ملا اور پھر انھیں سبی لایا۔ جہاں بلوچستان کا عظیم بادشاہ میرچاکر خان رند موجود تھا۔ اور پھر اُس سے بلوچ قول لیا۔ جس کے تحت چاکر خان نے ہمایوں کی بھرپور مدد کی اور ہمایوں اسی مدد کی وجہ سے ایک بار پھر دلی کے تخت پر بیٹھا۔ اسی وجہ سے پہلی بار بلوچ، بلوچستان سے نکل کر پنجاب اور پورے ہندوستان میں پھیلے۔ ہمایوں نے بلوچوں کو بہت سی جاگیریں دیں۔ ارشد پھر بولا۔ ارے واجہ تم کو اسی لیے تو ہم سمجھا رہا تھا کہ پنجاب سے بلوچوں کی ایک ہی سیٹ نکلی ہے یہ بے ایمانی ہے۔ کم سے کم10 سیٹیں بلوچوں کی ہونی چاہیے۔ پر تم ان ٹی وی والوں کو سمجھاؤ کہ صرف سنجرانی نہ بولے، قوم کو دیکھے۔ ان کو بتاؤ کہ خطی خان بھی سنجرانی تھا۔