ووٹوں کی گنتی وڈیو ریکارڈنگ
گنتی کی وڈیو ریکارڈنگ ہونی چاہیے جس طرح یہ انتخابات ہوئے (یعنی پولنگ کا دن) اسی طرح سب کچھ ہو۔
دوبارہ انتخابات کے لیے بنائے جانے والے اتحادکو اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ ازسر نو انتخابات کی صورت میں وہ جیتی ہوئی نشستیں بھی ہار جائیں گے ۔ انتخابات کے نتائج کے بعد ہوا کارخ مزید شدت کے ساتھ جیت کر آنے والی جماعت کی طرف ہوگیا ہے وہ جتنا زیادہ دھاندلی، احتجاج اور دوبارہ انتخابات کا شورکریں گے، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے بیشتر جیتنے والے اراکین کے لیے ناپسندیدہ ہوگا۔
پیپلز پارٹی نے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگالیا ہے وہ اس معاملے میں احتجاج کو انتہائی ہلکا رکھنا چاہتی ہے، البتہ مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کسی محاذ آرائی کی طرف جائیں گے تو اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے سے پی پی گریز نہیں کرے گی ۔ حالات کچھ اس طرح ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں جو جیت چکے ہیں وہ اس پر تیار نہیں ہیں ۔
جیت کرآنے والوں کی اکثریت بھی احتجاج کے لیے تیار نہیں ہیں، عوام میں بھی دوبارہ انتخابات اور احتجاج کو پسند نہیں کیا جا رہا ہے، میڈیا بھی اس کی پذیرائی پرآمادہ نہیں ہے ۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کی حکمت عملی ناکام نظر آرہی ہے، اس حکمت عملی کو جاری رکھنے کی صورت میں وہ اپنی پارلیمانی طاقت کوکمزورکرسکتے ہیں۔ یہ صورتحال 2013ء کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ پیش آنے والی صورتحال سے مختلف ہے۔
پی ٹی آئی کے پاس قومی اسمبلی میں بہت کم قوت تھی اوراگر اس میں کمی آجاتی تو پی ٹی آئی کو اس کی فکر نہیں تھی ۔ یہاں صورتحال قدر مختلف ہے ۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہے اس کے پاس ایک تہائی سے کچھ کم اراکین ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے ساتھ ملک کر وہ قریباً نصف ہوجاتے ہیں ۔ یعنی اتنی بڑی قوت کو متحد رکھنے کی صورت میں انھیں کسی احتجاج کی ضرورت نہیں رہتی ہے انھیں تو صرف عدم اعتماد دلانے کے موقعے پر اپنے اراکین کے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہیے لیکن ابتداہی سے محاذآرائی کی طرف جانے سے اپنی قوت کو وقت سے پہلے ضایع کرنے کے مترادف ہے۔
متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی کو موجودہ انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ انھیں بھی اپنی حکمت پرغور کرنا ہوگا کہ انھوں نے مولانا فضل الرحمن کا بوجھ اٹھاکر غلطی تو نہیں کی، اگر غورکیاجائے تو سب سے بڑی غلطی مولانا فضل الرحمن نے کی۔ انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنا اور خصوصاً حلف نہ لینے کا بیان اس قدر نقصان دہ ثابت ہوا، سارا کھیل تحریک انصاف کے کھاتے میں چلا گیا اور جیت کا ساتھ دینے والوں نے بنی گالہ کا رخ کرلیا۔
اگر مولانا فضل الرحمن یہ بیان دیتے کہ ایم ایم اے کے 13، مسلم لیگ (ن) کے 65 اور پیپلز پارٹی کے 43 مل کر 121اراکین ہیں لہذا وہ اتحاد کا اعلان کرتے ہیں ساتھ ہی اس اتحاد کی جیت اور عددی برتری کااعلان بھی کرتے۔ جیسے ہی وہ 121اراکین کے اتحاد کا اعلان کرتے تحریک انصاف کے 116کی عدد ی برتری اور جیت کا دعویٰ کمزور ہو جاتا ۔اس صورت میں اس بات کا قوی امکان تھا کہ آزاد اراکین کو روکا جاتا اور ساتھ ملایا جاتا لیکن شروع ہی سے شکست کے تاثر نے تحریک انصاف کی کامیابی کے تاثر کو مزید پختہ کر دیا، اس طرح مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے نے خود کو اپنی غلطی سے اقتدار کے کھیل سے باہرکر لیا ورنہ جس اتحاد کے پاس نصف قومی اسمبلی کی نشستیں ہوں ۔
سینیٹ میں اکثریت ہو پنجاب میں زبردست عددی قوت ہو سندھ میں اکثریت ہو وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے پلیٹ فارم کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرے سیاسی طور پر انتہائی کمزور حکمت عملی ہے ۔اس وقت تو انھیں قانونی، عدالتی اور پارلیمانی راستہ اختیار کرنا تھا ۔ دوبارہ منصفانہ انتخابات کے معاملے سے زیادہ فوائد کے امکانات کے بجائے نقصانات کا پہلو زیادہ عیاں ہوتاہے انتخابات کے لیے ابھی مناسب وقت نہیں ہے ۔
اب جب بھی انتخابات ہوں ۔گنتی کی وڈیو ریکارڈنگ ہونی چاہیے جس طرح یہ انتخابات ہوئے (یعنی پولنگ کا دن) اسی طرح سب کچھ ہو اور اس میں گنتی کے موقعے پر وڈیو ریکارڈنگ کا اضافہ کر لیاجائے تو ہرگنتی کا مکمل ثبوت ہو گا ،دوبارہ گنتی کی ضرورت نہیں ہو گی، محض وڈیو دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا اور غلطی ہو گی تو وہ بھی سامنے آ جائے گی جسے فوراً درست کر لیا جائے گا ۔
البتہ انتخابی مہم کے معاملات قومی اسمبلی میں تمام جماعتیں مل کر طے کر سکتی ہیں اور نئے قوانین تیارکر سکتی ہیں۔ اس وقت سب سے اہم مرحلہ اسپیکرکے انتخابات کا ہے اگر اس میں پیپلز پارٹی کا جادو چل گیا تو خورشید شاہ کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ فی الحال ان کے پاس مطلوبہ عددی اکثریت نہیں ہے اورکامیابی کا امکان کم ہے لیکن خفیہ رائے شماری میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ان کی کامیابی پہلا قدم ہو گا۔ جس کے نتیجے میں دوبارہ انتخابات کی راہ ہموار ہو گی لیکن ایسا منظر مشکل سے ہی سامنے آئے گا کامیاب اراکین اپنی جیتی ہوئی نشستوں کو داؤ پر لگانے کے لیے کیسے تیار ہونگے۔ پنجاب میں بھی کھیل مسلم لیگ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
اگر صرف ایک آزاد امیدوار مسلم لیگ میں شامل ہوا ہے اور آزاد کی بھاری اکثریت پی ٹی آئی میں شامل ہوئی ہے تو مسلم لیگ (ن) کو وہ دن یاد کرنا ہو گا جب مولانا فضل الرحمن نے حلف نہ لینے کا اعلان کیا تھا اور شہباز شریف اس پرکوئی واضح موقف نہ اختیارکر سکے۔ اب دیر ہو چکی ہے ۔
پیپلز پارٹی نے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگالیا ہے وہ اس معاملے میں احتجاج کو انتہائی ہلکا رکھنا چاہتی ہے، البتہ مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کسی محاذ آرائی کی طرف جائیں گے تو اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے سے پی پی گریز نہیں کرے گی ۔ حالات کچھ اس طرح ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں جو جیت چکے ہیں وہ اس پر تیار نہیں ہیں ۔
جیت کرآنے والوں کی اکثریت بھی احتجاج کے لیے تیار نہیں ہیں، عوام میں بھی دوبارہ انتخابات اور احتجاج کو پسند نہیں کیا جا رہا ہے، میڈیا بھی اس کی پذیرائی پرآمادہ نہیں ہے ۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کی حکمت عملی ناکام نظر آرہی ہے، اس حکمت عملی کو جاری رکھنے کی صورت میں وہ اپنی پارلیمانی طاقت کوکمزورکرسکتے ہیں۔ یہ صورتحال 2013ء کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ پیش آنے والی صورتحال سے مختلف ہے۔
پی ٹی آئی کے پاس قومی اسمبلی میں بہت کم قوت تھی اوراگر اس میں کمی آجاتی تو پی ٹی آئی کو اس کی فکر نہیں تھی ۔ یہاں صورتحال قدر مختلف ہے ۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہے اس کے پاس ایک تہائی سے کچھ کم اراکین ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے ساتھ ملک کر وہ قریباً نصف ہوجاتے ہیں ۔ یعنی اتنی بڑی قوت کو متحد رکھنے کی صورت میں انھیں کسی احتجاج کی ضرورت نہیں رہتی ہے انھیں تو صرف عدم اعتماد دلانے کے موقعے پر اپنے اراکین کے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہیے لیکن ابتداہی سے محاذآرائی کی طرف جانے سے اپنی قوت کو وقت سے پہلے ضایع کرنے کے مترادف ہے۔
متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی کو موجودہ انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ انھیں بھی اپنی حکمت پرغور کرنا ہوگا کہ انھوں نے مولانا فضل الرحمن کا بوجھ اٹھاکر غلطی تو نہیں کی، اگر غورکیاجائے تو سب سے بڑی غلطی مولانا فضل الرحمن نے کی۔ انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنا اور خصوصاً حلف نہ لینے کا بیان اس قدر نقصان دہ ثابت ہوا، سارا کھیل تحریک انصاف کے کھاتے میں چلا گیا اور جیت کا ساتھ دینے والوں نے بنی گالہ کا رخ کرلیا۔
اگر مولانا فضل الرحمن یہ بیان دیتے کہ ایم ایم اے کے 13، مسلم لیگ (ن) کے 65 اور پیپلز پارٹی کے 43 مل کر 121اراکین ہیں لہذا وہ اتحاد کا اعلان کرتے ہیں ساتھ ہی اس اتحاد کی جیت اور عددی برتری کااعلان بھی کرتے۔ جیسے ہی وہ 121اراکین کے اتحاد کا اعلان کرتے تحریک انصاف کے 116کی عدد ی برتری اور جیت کا دعویٰ کمزور ہو جاتا ۔اس صورت میں اس بات کا قوی امکان تھا کہ آزاد اراکین کو روکا جاتا اور ساتھ ملایا جاتا لیکن شروع ہی سے شکست کے تاثر نے تحریک انصاف کی کامیابی کے تاثر کو مزید پختہ کر دیا، اس طرح مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے نے خود کو اپنی غلطی سے اقتدار کے کھیل سے باہرکر لیا ورنہ جس اتحاد کے پاس نصف قومی اسمبلی کی نشستیں ہوں ۔
سینیٹ میں اکثریت ہو پنجاب میں زبردست عددی قوت ہو سندھ میں اکثریت ہو وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے پلیٹ فارم کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرے سیاسی طور پر انتہائی کمزور حکمت عملی ہے ۔اس وقت تو انھیں قانونی، عدالتی اور پارلیمانی راستہ اختیار کرنا تھا ۔ دوبارہ منصفانہ انتخابات کے معاملے سے زیادہ فوائد کے امکانات کے بجائے نقصانات کا پہلو زیادہ عیاں ہوتاہے انتخابات کے لیے ابھی مناسب وقت نہیں ہے ۔
اب جب بھی انتخابات ہوں ۔گنتی کی وڈیو ریکارڈنگ ہونی چاہیے جس طرح یہ انتخابات ہوئے (یعنی پولنگ کا دن) اسی طرح سب کچھ ہو اور اس میں گنتی کے موقعے پر وڈیو ریکارڈنگ کا اضافہ کر لیاجائے تو ہرگنتی کا مکمل ثبوت ہو گا ،دوبارہ گنتی کی ضرورت نہیں ہو گی، محض وڈیو دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا اور غلطی ہو گی تو وہ بھی سامنے آ جائے گی جسے فوراً درست کر لیا جائے گا ۔
البتہ انتخابی مہم کے معاملات قومی اسمبلی میں تمام جماعتیں مل کر طے کر سکتی ہیں اور نئے قوانین تیارکر سکتی ہیں۔ اس وقت سب سے اہم مرحلہ اسپیکرکے انتخابات کا ہے اگر اس میں پیپلز پارٹی کا جادو چل گیا تو خورشید شاہ کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ فی الحال ان کے پاس مطلوبہ عددی اکثریت نہیں ہے اورکامیابی کا امکان کم ہے لیکن خفیہ رائے شماری میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ان کی کامیابی پہلا قدم ہو گا۔ جس کے نتیجے میں دوبارہ انتخابات کی راہ ہموار ہو گی لیکن ایسا منظر مشکل سے ہی سامنے آئے گا کامیاب اراکین اپنی جیتی ہوئی نشستوں کو داؤ پر لگانے کے لیے کیسے تیار ہونگے۔ پنجاب میں بھی کھیل مسلم لیگ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
اگر صرف ایک آزاد امیدوار مسلم لیگ میں شامل ہوا ہے اور آزاد کی بھاری اکثریت پی ٹی آئی میں شامل ہوئی ہے تو مسلم لیگ (ن) کو وہ دن یاد کرنا ہو گا جب مولانا فضل الرحمن نے حلف نہ لینے کا اعلان کیا تھا اور شہباز شریف اس پرکوئی واضح موقف نہ اختیارکر سکے۔ اب دیر ہو چکی ہے ۔