دوسری شادی
دوسری شادی کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن ہمارے مذہب میں اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔
KARACHI:
حالیہ الیکشن کے حوالے سے جب الیکشن کمیشن کے سامنے بہت سے بڑوں کی پوٹلیاں کھلیں تو اس میں سے ایسے انکشافات بھی تھے جو ووٹرزکے علاوہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی حیران کن اور پریشان کن تھے۔ جناب دولت شہرت بھی اسی وقت تک اچھی لگتی ہے جب گھرکا سکون قائم رہے اور اگر گھرکا سکون ہی غارت ہوجائے تو کیسی دولت اورکیسی شہرت ۔
بہت سے پردہ نشینوں کے چہرے سے نقاب اٹھے تو پتہ چلا کہ صاحب کی ایک سے زائد بیگمات ہیں، جن میں سے پہلی والی کو دوسری کا علم ہی نہ تھا اور جب خبر چھپی اور چینل پر چلی تو پہلی والی بیگم پر غم کا پہاڑ گر پڑا کہ ہائے ہائے میاں جی۔۔۔! اتنی بڑی چیٹنگ۔۔۔۔ ارے مجھ سے تو پوچھ لیا ہوتا، دوسری شادی کرنے سے پہلے، میں تو اپنی اماں کے گھر چلی جاتی اور وہ غم اس قدر بڑا تھا کہ میاں جی کے ہارنے یا جیتنے سے بڑی بی بی کوکوئی فرق ہی نہ پڑا۔
ہمارا معاشرہ اس قسم کا ہے کہ جہاں دوسری شادی کے حوالے سے لوگوں کے دانت نکل آتے ہیں جیسے کوئی چٹکلا چھوڑ دیا ہو۔ یہ کیسی حماقت کی بات ہے کہ جس بات کو ہمارے مذہب نے جائز قرار دیا ہے اس پر لوگوں کی بتیسیاں کھل اٹھتی ہیں اور بہت سے لوگوں میں دشمنیاں جنم لیتی ہیں۔ جان کا مسئلہ بن جاتا ہے انا کی بھینٹ کا ایشو درپیش رہتا ہے، بقول ناصر کاظمی کے:
دل میں ہر وقت چبھن رہتی ہے
تھی تجھے کس کی طلب یاد نہیں
دوسری شادی کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن ہمارے مذہب میں اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ سورہ نساء میں اس بارے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اس دور کو اپنے سینوں سے لگا رکھا ہے جب ہمارے آبا و اجداد غیر منقسم ہندوستان میں رہا کرتے تھے جہاں ہندو دھرم میں دوسری شادی کی کوئی گنجائش ہی نہیں بلکہ شوہر کے مرنے کے ساتھ ہی بیوی کو بھی اس کی چتا کی آگ کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا لیکن مرد حضرات کو بخوبی اجازت دی جاتی ہے کہ بیگم کے مرنے کے بعد دوسری شادی رچالو۔ ہم اس تناظر میں اپنی شخصیت کو لے کر بڑھے ہیں جس میں دوسری شادی ایک طعنہ، الزام، دکھ و مایوسی اور گمراہی جیسے القابات سے بھری ہوتی ہے ۔
حال ہی میں ایک نوجوان اینکر نے اپنی دوسری شادی کے حوالے سے بڑے اعتماد سے سوشل میڈیا پر ایسے انکشافات کیے جن سے اس اینکر کے بارے میں اٹھتے ہوئے ابہام گرد کی مانند بیٹھ جاتے ہیں جہاں وہ کھل کر مذہب اسلام میں چار بیویوں کی اجازت کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ یقینا ہم بہت اچھے مسلمان ہیں لیکن جہاں اپنی بہن بیٹی اور اسی طرح کے رشتوں کے حوالے سے دوسری شادی کی بات کی جاتی ہے وہاں لال آنکھیں نکال کر کھڑے ہو جاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ آنکھیں بند کرکے نامساعد حالات میں جب دو وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر ہو اور اسلامی شریعت پر عمل کرتے ہوئے نکاح پہ نکاح کی سوچی جائے مناسب نہیں کیونکہ ہمارے دین میں انصاف کی بہت اہمیت ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کسی تقریب میں سوڈان کے حوالے سے بات چل رہی تھی، میزبان کے صاحبزادے سوڈان میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوڈان میں مرد حضرات ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں اور جن حضرات کی ایک بیگم ہوتی ہے اس سے مل کر لوگ حیرت کا اظہارکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے ابھی تک دوسری شادی نہیں کی کیوں؟ میزبان کے پاکستانی صاحبزادے ظاہر ہے کہ ہماری روایات کے مطابق ایک ہی خاتون خانہ پر راضی و خوش تھے ان کے مالک مکان کا اصرار تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کی بھی دوسری شادی کروا دیں۔ بلکہ ان کی نظر میں ان کے اپنے خاندان میں بھی ایسی بہت سی خواتین تھیں جو دوسری بیوی بننے پر تیار تھیں لیکن ہمارے پاکستانی بھائی دوسری شادی کو جیسے ''حرام'' سمجھتے تھے لہٰذا ایک ہی بھلی۔
ایک مشہور گلوکار کا رجحان جب مذہب کی جانب ہوا تو انھوں نے اسلام کے متعلق سنجیدگی سے پڑھنا شروع کیا ان کی بیگم جنھوں نے اسلام قبول کرکے ان سے شادی کی تھی ماضی میں ماڈلنگ بھی کیا کرتی تھیں۔ ان گلوکار کا کہنا تھا کہ میری بیگم نے اسلام کے تمام پیراؤں کو بہت دلچسپی سے پڑھا اور سمجھا اور اسے محسوس ہوا کہ رب العزت نے جہاں خواتین کو بہت سی آسانیاں اور رعایت دی ہے وہیں شادی کے حوالے سے مردوں کے لیے بھی چار شادیوں کی اجازت میں بڑی حکمت ہے، اس حد تک کہ میں خود بھی یہ چاہتی ہوں کہ اگر میرا شوہر دوسری شادی کرنا چاہے تو بخوشی کرے بلکہ مجھے اس کی دوسری شادی کی بہت خوشی ہوگی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
ڈپٹی نذیر احمد نے اس حوالے سے مراۃ العروس میں بڑی اچھی مثال پیش کی تھی۔ ان کے ناولز دیکھ لیں یا افسانے خواتین کی ذمے داریوں اور حقوق کے متعلق انھوں نے بہت ستھرے انداز میں لکھا۔ گھر کی راج دھانی عورت کے سپرد ہوتی ہے لیکن اگر یہ راج دھانی ایک کم عقل، عاقبت نااندیش، لڑاکو، خود غرض خاتون خانہ کے ذمے ہو تو گھر اجڑا ہوا دیار بن جاتا ہے۔ تیزی سے بدلتے اس دور میں جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے مذہبی اور اخلاقی حوالے سے بڑی برائیاں عام کردی ہیں، وہیں طبقات کا فرق، امیری غریبی اور دیگر مسائل نے شادی کے حوالے سے ایک گورکھ دھندہ شروع ہو چکا ہے ایسے میں دوسری شادی کرنا کوئی قبیح جرم نہیں ہے۔
ہمارے نبی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ایک سے زائد نکاح کرکے اس کی مثال قائم کی اور آنے والے وقتوں تک کے لیے لوگوں کو سمجھا دیا گیا کہ نکاح کا مقدس بندھن نہ صرف ایک خاتون کے لیے بلکہ معاشرے میں بھی کس قدر اہم مقام رکھتا ہے اور اس صورت میں یہ اور بھی محترم ہو جاتا ہے جب کسی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون کو نکاح کے بندھن میں باندھ کر اسے ذہنی اور معاشی حوالے سے ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی ڈپریشن کے اندھیروں سے نکالا جائے۔
آج کل طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ہمارے اندر اپنے نفس کی غلامی کا جال بڑھتا ہی جا رہا ہے وہیں والدین کے لیے یہ ایک عذاب کی طرح انھیں اندھیروں میں نگل رہا ہے، دوسری شادی کی اہمیت کو سمجھنے اور جاننے کے لیے حیات طیبۂ کو بغور پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا دوسری شادی ہنسی ٹھٹھا مذاق ہے یا ماتھے پر بدنامی کا داغ۔۔۔ ذرا سوچئے!
حالیہ الیکشن کے حوالے سے جب الیکشن کمیشن کے سامنے بہت سے بڑوں کی پوٹلیاں کھلیں تو اس میں سے ایسے انکشافات بھی تھے جو ووٹرزکے علاوہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی حیران کن اور پریشان کن تھے۔ جناب دولت شہرت بھی اسی وقت تک اچھی لگتی ہے جب گھرکا سکون قائم رہے اور اگر گھرکا سکون ہی غارت ہوجائے تو کیسی دولت اورکیسی شہرت ۔
بہت سے پردہ نشینوں کے چہرے سے نقاب اٹھے تو پتہ چلا کہ صاحب کی ایک سے زائد بیگمات ہیں، جن میں سے پہلی والی کو دوسری کا علم ہی نہ تھا اور جب خبر چھپی اور چینل پر چلی تو پہلی والی بیگم پر غم کا پہاڑ گر پڑا کہ ہائے ہائے میاں جی۔۔۔! اتنی بڑی چیٹنگ۔۔۔۔ ارے مجھ سے تو پوچھ لیا ہوتا، دوسری شادی کرنے سے پہلے، میں تو اپنی اماں کے گھر چلی جاتی اور وہ غم اس قدر بڑا تھا کہ میاں جی کے ہارنے یا جیتنے سے بڑی بی بی کوکوئی فرق ہی نہ پڑا۔
ہمارا معاشرہ اس قسم کا ہے کہ جہاں دوسری شادی کے حوالے سے لوگوں کے دانت نکل آتے ہیں جیسے کوئی چٹکلا چھوڑ دیا ہو۔ یہ کیسی حماقت کی بات ہے کہ جس بات کو ہمارے مذہب نے جائز قرار دیا ہے اس پر لوگوں کی بتیسیاں کھل اٹھتی ہیں اور بہت سے لوگوں میں دشمنیاں جنم لیتی ہیں۔ جان کا مسئلہ بن جاتا ہے انا کی بھینٹ کا ایشو درپیش رہتا ہے، بقول ناصر کاظمی کے:
دل میں ہر وقت چبھن رہتی ہے
تھی تجھے کس کی طلب یاد نہیں
دوسری شادی کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن ہمارے مذہب میں اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ سورہ نساء میں اس بارے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اس دور کو اپنے سینوں سے لگا رکھا ہے جب ہمارے آبا و اجداد غیر منقسم ہندوستان میں رہا کرتے تھے جہاں ہندو دھرم میں دوسری شادی کی کوئی گنجائش ہی نہیں بلکہ شوہر کے مرنے کے ساتھ ہی بیوی کو بھی اس کی چتا کی آگ کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا لیکن مرد حضرات کو بخوبی اجازت دی جاتی ہے کہ بیگم کے مرنے کے بعد دوسری شادی رچالو۔ ہم اس تناظر میں اپنی شخصیت کو لے کر بڑھے ہیں جس میں دوسری شادی ایک طعنہ، الزام، دکھ و مایوسی اور گمراہی جیسے القابات سے بھری ہوتی ہے ۔
حال ہی میں ایک نوجوان اینکر نے اپنی دوسری شادی کے حوالے سے بڑے اعتماد سے سوشل میڈیا پر ایسے انکشافات کیے جن سے اس اینکر کے بارے میں اٹھتے ہوئے ابہام گرد کی مانند بیٹھ جاتے ہیں جہاں وہ کھل کر مذہب اسلام میں چار بیویوں کی اجازت کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ یقینا ہم بہت اچھے مسلمان ہیں لیکن جہاں اپنی بہن بیٹی اور اسی طرح کے رشتوں کے حوالے سے دوسری شادی کی بات کی جاتی ہے وہاں لال آنکھیں نکال کر کھڑے ہو جاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ آنکھیں بند کرکے نامساعد حالات میں جب دو وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر ہو اور اسلامی شریعت پر عمل کرتے ہوئے نکاح پہ نکاح کی سوچی جائے مناسب نہیں کیونکہ ہمارے دین میں انصاف کی بہت اہمیت ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کسی تقریب میں سوڈان کے حوالے سے بات چل رہی تھی، میزبان کے صاحبزادے سوڈان میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوڈان میں مرد حضرات ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں اور جن حضرات کی ایک بیگم ہوتی ہے اس سے مل کر لوگ حیرت کا اظہارکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے ابھی تک دوسری شادی نہیں کی کیوں؟ میزبان کے پاکستانی صاحبزادے ظاہر ہے کہ ہماری روایات کے مطابق ایک ہی خاتون خانہ پر راضی و خوش تھے ان کے مالک مکان کا اصرار تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کی بھی دوسری شادی کروا دیں۔ بلکہ ان کی نظر میں ان کے اپنے خاندان میں بھی ایسی بہت سی خواتین تھیں جو دوسری بیوی بننے پر تیار تھیں لیکن ہمارے پاکستانی بھائی دوسری شادی کو جیسے ''حرام'' سمجھتے تھے لہٰذا ایک ہی بھلی۔
ایک مشہور گلوکار کا رجحان جب مذہب کی جانب ہوا تو انھوں نے اسلام کے متعلق سنجیدگی سے پڑھنا شروع کیا ان کی بیگم جنھوں نے اسلام قبول کرکے ان سے شادی کی تھی ماضی میں ماڈلنگ بھی کیا کرتی تھیں۔ ان گلوکار کا کہنا تھا کہ میری بیگم نے اسلام کے تمام پیراؤں کو بہت دلچسپی سے پڑھا اور سمجھا اور اسے محسوس ہوا کہ رب العزت نے جہاں خواتین کو بہت سی آسانیاں اور رعایت دی ہے وہیں شادی کے حوالے سے مردوں کے لیے بھی چار شادیوں کی اجازت میں بڑی حکمت ہے، اس حد تک کہ میں خود بھی یہ چاہتی ہوں کہ اگر میرا شوہر دوسری شادی کرنا چاہے تو بخوشی کرے بلکہ مجھے اس کی دوسری شادی کی بہت خوشی ہوگی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
ڈپٹی نذیر احمد نے اس حوالے سے مراۃ العروس میں بڑی اچھی مثال پیش کی تھی۔ ان کے ناولز دیکھ لیں یا افسانے خواتین کی ذمے داریوں اور حقوق کے متعلق انھوں نے بہت ستھرے انداز میں لکھا۔ گھر کی راج دھانی عورت کے سپرد ہوتی ہے لیکن اگر یہ راج دھانی ایک کم عقل، عاقبت نااندیش، لڑاکو، خود غرض خاتون خانہ کے ذمے ہو تو گھر اجڑا ہوا دیار بن جاتا ہے۔ تیزی سے بدلتے اس دور میں جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے مذہبی اور اخلاقی حوالے سے بڑی برائیاں عام کردی ہیں، وہیں طبقات کا فرق، امیری غریبی اور دیگر مسائل نے شادی کے حوالے سے ایک گورکھ دھندہ شروع ہو چکا ہے ایسے میں دوسری شادی کرنا کوئی قبیح جرم نہیں ہے۔
ہمارے نبی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ایک سے زائد نکاح کرکے اس کی مثال قائم کی اور آنے والے وقتوں تک کے لیے لوگوں کو سمجھا دیا گیا کہ نکاح کا مقدس بندھن نہ صرف ایک خاتون کے لیے بلکہ معاشرے میں بھی کس قدر اہم مقام رکھتا ہے اور اس صورت میں یہ اور بھی محترم ہو جاتا ہے جب کسی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون کو نکاح کے بندھن میں باندھ کر اسے ذہنی اور معاشی حوالے سے ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی ڈپریشن کے اندھیروں سے نکالا جائے۔
آج کل طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ہمارے اندر اپنے نفس کی غلامی کا جال بڑھتا ہی جا رہا ہے وہیں والدین کے لیے یہ ایک عذاب کی طرح انھیں اندھیروں میں نگل رہا ہے، دوسری شادی کی اہمیت کو سمجھنے اور جاننے کے لیے حیات طیبۂ کو بغور پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا دوسری شادی ہنسی ٹھٹھا مذاق ہے یا ماتھے پر بدنامی کا داغ۔۔۔ ذرا سوچئے!