امید کی کرن
ہوسکتا ہے کہ ڈھیر سارا ریونیو اس ملک کا مقدر بنے، لوگوں کو روزگار بھی مہیا ہو اور نوکریاں بھی دی جائیں۔
ہر تصویرکے دو رخ ہوتے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ تصویرکا صرف ایک رخ دیکھیں یا دوسرا یا پھر دونوں۔کچھ اس طرح کی بازگشت کانوں کو چھوتی ہے کہ ملک میں اب کنٹرولڈ جمہوریت ہوگی اور پھر خیالات اس طرح کے بھی ہیں کہ اس جگہ پر جہاں ہم پہنچے ہیں ہماری ہی جمہوری قوتوں کی مہربانی ہے۔ زرداری صاحب کو اگرکورٹ کی آنکھوں سے دیکھیں یا پھر میاں صاحب ہی کیوں نہ ہوں۔ شہادتیں مشکل سے ملتی ہیں، مگر دل ہے کہ مانتا نہیں!کیونکہ صحافی کی آنکھ یا عام آدمی کی آنکھ کے دیکھنے کے زاویے اور ہوتے ہیں لیکن کورٹ ٹھوس ثبوتوں اور شہادتوں کے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ میں ہوں جو مفروضوں کی بنیاد پر آگے بڑھ سکتا ہوں اور پیشگوئی بھی کرسکتا ہوں۔
پندرہ پندرہ شوگر ملیں، ہزاروں ایکڑ زمین اور سب بے نامی۔ میاں صاحب کا جاتی عمرہ کا مربعوں میں بنا محل تب تو نہیں تھا جب جنرل جیلانی گورنر ہوا کرتے تھے۔ یہ صرف انگریز نہیں تھے جو نواز دیتے تھے، ہمارے جرنیلوں نے بھی اپنوں کو نوازا اور خود بھی بہت کچھ پاتے تھے۔ الٰہی بخش سومروکو جنرل ضیاء الحق نے اسلام آباد کی مہنگی زمینیں ڈی ایچ اے کے چیئرمین کو سفارش کرکے یوں دلوائیں کہ ان کے پاس اسلام آباد میں رہنے کوگھر نہیں ہے۔ (الٰہی بخش سومرو نے یہ بات مجھے اپنے انٹرویو میں بتائی تھی)
کیوں آج کل یہ سننے کو مل رہا ہے کہ یہ جمہوریت کنٹرولڈ جمہوریت ہوگی تو ہماری جمہوریت کو اس مقام پرکون لے کر آیا؟ کیا وجہ ہے کہ ہماری معیشت ہر پانچ سال بعد آئی ایم ایف کا رخ کرتی ہے، خسارہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور ایک بار پھر ہم کشکول لیے گلی گلی پھر رہے ہیں۔ فاقہ مستی رنگ لا رہی ہے، وہی غربت ، وہی بھوک اور وہی افلاس۔
لیکن اس بار تباہی اور بری طرح سے آئی۔ ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ افسر شاہی بھی لوٹ مار میں دو ہاتھ آگے تھی، یہ نیلامی تھی اس ملک کے بھوک وافلاس کے مارے لوگوں کی۔ لوٹو اور بس لوٹو اور یہ سب لوٹ کھسوٹ جمہوریت کے نام پر ہو رہی تھی۔ جس طرح حادثے اچانک جنم نہیں لیتے بالکل اسی طرح یہ ملک Populism Right Wing کے آڑے اچانک نہیں آیا۔ یہ سب آپ جمہوری قوتوں کی نالائقیاں تھیں کہ ہم گزرے ہیں پھر یہاں سے۔ ہر ایک پاس بڑے بڑے وعدے ہیں، کوئی ڈیموں میں آگے نکلنا چاہتا ہے،کوئی وزیر اعظم ہاؤس میں نہ جانے کی بات کرکے دوسرے حکمرانوں کو مات دینا چاہتا ہے، لیکن یہ سب وعدے اور صرف وعدے۔ جس طرح میاں صاحب نے اپنے دور حکومت میں ''قرض اتارو ملک سنوارو'' کا معجون بیچا تھا۔
عمران خان کی شخصیت کے بھی دو پہلو نظر آتے ہیں۔ ایک عمران خان وہ جو اس ملک میں ورلڈ کپ جیت کر آتا ہے۔ وہ اسی حوصلے سے، جنون اور عشق سے اس ملک کی سیاست میں اترتا ہے، یہ وہ عمران خان ہے، جواس ملک کو کینسر اسپتال دیتا ہے، لیکن یہی عمران خان وہ عمران خان بھی ہے جوآجکل معجون مرکب اور خمیرہ گاؤزبان کی بھی دکان لگاتا ہے۔ چند مہینوں میں نوکریوں کے وعدے ،کھربوں روپے ٹیکسز ملک کو دلوانے کے وعدے ۔انھوں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگاؤں گا وہ وعدہ پورا تو نہ ہوا لیکن انھوں نے کوشش ضرورکی۔
ہوسکتا ہے کہ ڈھیر سارا ریونیو اس ملک کا مقدر بنے، لوگوں کو روزگار بھی مہیا ہو اور نوکریاں بھی دی جائیں، لیکن وزیراعظم ہاؤس نہ جانے کا فیصلہ نہ اس بات پر اثرانداز ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ وزیراعظم ہاؤس تو آخر کار آپ کو جانا ہی پڑے گا۔ حکومت سنبھالنے سے پہلے اس طرح کی باتیں معجون بیچنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ ورنہ خیبر پختونخوا کی حکومت سندھ سے تو بہتر ہی ہوگی، پنجاب سے بھی شاید بہتر ہوگی لیکن فرق شاید انیس اور بیس کا ہو۔خان صاحب کے پاس بھی درباریوں کا ایک دربار سجے گا، ان کو بھی مختلف درگاہوں کی حاضری دینے کے مشورے دیے جائیں گے اور حاضریاں بھروائی جائیں گی۔ مختلف لباسوں کے نمونے دکھائے جائیں گے، مگر اب اس داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحرکی گھڑیاں ٹھہرگئی ہیں۔
اہم معاملہ اس ملک کا ذریعہ آمدنی ہے اور اس کو استعمال اور خرچ کرنے کا۔ کس کے ہاتھ کتنا آیا اور عام آدمی کے لیے کیا ہے، اداروں کی اتنی تباہی کبھی نہ تھی اور نہ ہی انگریزوں نے بھی ادارے اتنے بدتر حالت میں چھوڑے تھے۔ ہم دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں لیکن ہماری ایٹمی طاقت ہونے سے دنیا ناراض ہے۔وہ ہم پر ہماری معشیت کے ذریعے وارکرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سارے پس منظر میں صرف اس ملک کو دیکھنا ہے، لیکن اگر یہ ملک اندرونی فتنوں کا شکار ہوا تو پھرکوئی سماں ڈی چوک جیسا ہوگا، پھر سے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن جیسی ہڑتالیں ہوں گے کیونکہ یہ ایندھن تو بہرحال خان صاحب کے مزاج نے ہی ڈالا ہوا ہے اور اس بات سے یقینا میرا دل خون کے آنسو روئے گا۔
خان صاحب کو اس اننگ میں بیٹنگ اور باولنگ کے فرق کو دیکھنا ہوگا۔ پچ کے اندر نمی کو دیکھنا ہوگا۔ خان صاحب نے باولنگ کرکے تو دوسری ٹیموں کو فارغ کردیا لیکن اب ان کی ٹیم بیٹنگ پر ہے اور یہ اننگ بیس یا پچاس اوورز والی نہیں بلکہ ٹیسٹ میچ ہے۔ ابھی تو خان صاحب کی ٹیم اوپننگ کرنے جا رہی ہے۔ صرف اور صرف بہترین پرفارمنس ہی خان صاحب کو جتوا سکتی ہے۔ اوپنرز کو اچھا اسٹارٹ دینا ہے، ایک سنجیدگی اور میچورٹی کے ساتھ۔ صحیح جگہ پر بال کی پلیسنگ کرکے کھیلنا، اگر بال اور فیلڈنگ میں گنجائش نکلتی ہے تو چوکا مارنے میں کوئی حرج نہیں مگر چھکا لگانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔میرے خیال میں وزیراعظم ہاؤس میں نہ جانے کا اعلان کر کے انھوں نے ڈائریکٹ چھکا مارا ہے۔
چلو اگر چھکا لگا ہی دیا ہے توکوئی بات نہیں مگر باقی اننگزذرا سنبھل کرکھیلیں، یہ ٹیسٹ میچ ہے۔ٹی 20 نہیں۔ اووروں کی بھیڑ ہے سب کچھ ہوجائے گا مگر آہستہ آہستہ۔خان صاحب ٹیم کو جوڑکر آگے لے جا سکتے ہیں۔ خان صاحب ہمت والے بھی ہیں اور پارٹی کے اندر پیدا ہونے والے پریشرکو توڑ بھی سکتے ہیں۔ خان صاحب کے اندرکپتانی کی قدرتی صلاحیتیں موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کوکس طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ ملک کی موجودہ صورتحال ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلینج ہے اور اس چیلینج کا سامنا وہ کرسکتے ہیں اگر وہ پارٹی ڈسپلن کو برقرار رکھ سکیں۔ معیشت کا مضبوط ہونا اس ملک کے survival کے لیے سب سے بڑا سوال ہے۔ اس حکومت کے بننے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کا بم اس حکومت پرگرچکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب معاشی پالیسی بہتر بنا کر اس ملک کو مزید قرضوں کے بوجھ سے بچا سکتے ہیں۔
میاں نواز شریف احتساب کی زد میں آچکے ہیں اور اب اس کا گھیرا آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ سندھ کے عوام کا ووٹ '' جئے بھٹو'' کے لیے وقف ضرور ہے لیکن آصف زرداری اور ان کی بہن کی سرزنش سندھ کے عوام کو رنجیدہ نہیں بلکہ ان کے لیے اطمینان کا باعث ہوگی۔ کیونکہ ان کے چہرے اب سندھ کے عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ بلاول بھٹوکی الیکشن کئمپین کس قدرکامیاب رہی لیکن بلاول بھٹوکی جگہ اگر آصف زرداری ہوتے تو ان کا وجود پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن میں ایک زوال کا باعث ہوتا۔
پندرہ پندرہ شوگر ملیں، ہزاروں ایکڑ زمین اور سب بے نامی۔ میاں صاحب کا جاتی عمرہ کا مربعوں میں بنا محل تب تو نہیں تھا جب جنرل جیلانی گورنر ہوا کرتے تھے۔ یہ صرف انگریز نہیں تھے جو نواز دیتے تھے، ہمارے جرنیلوں نے بھی اپنوں کو نوازا اور خود بھی بہت کچھ پاتے تھے۔ الٰہی بخش سومروکو جنرل ضیاء الحق نے اسلام آباد کی مہنگی زمینیں ڈی ایچ اے کے چیئرمین کو سفارش کرکے یوں دلوائیں کہ ان کے پاس اسلام آباد میں رہنے کوگھر نہیں ہے۔ (الٰہی بخش سومرو نے یہ بات مجھے اپنے انٹرویو میں بتائی تھی)
کیوں آج کل یہ سننے کو مل رہا ہے کہ یہ جمہوریت کنٹرولڈ جمہوریت ہوگی تو ہماری جمہوریت کو اس مقام پرکون لے کر آیا؟ کیا وجہ ہے کہ ہماری معیشت ہر پانچ سال بعد آئی ایم ایف کا رخ کرتی ہے، خسارہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور ایک بار پھر ہم کشکول لیے گلی گلی پھر رہے ہیں۔ فاقہ مستی رنگ لا رہی ہے، وہی غربت ، وہی بھوک اور وہی افلاس۔
لیکن اس بار تباہی اور بری طرح سے آئی۔ ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ افسر شاہی بھی لوٹ مار میں دو ہاتھ آگے تھی، یہ نیلامی تھی اس ملک کے بھوک وافلاس کے مارے لوگوں کی۔ لوٹو اور بس لوٹو اور یہ سب لوٹ کھسوٹ جمہوریت کے نام پر ہو رہی تھی۔ جس طرح حادثے اچانک جنم نہیں لیتے بالکل اسی طرح یہ ملک Populism Right Wing کے آڑے اچانک نہیں آیا۔ یہ سب آپ جمہوری قوتوں کی نالائقیاں تھیں کہ ہم گزرے ہیں پھر یہاں سے۔ ہر ایک پاس بڑے بڑے وعدے ہیں، کوئی ڈیموں میں آگے نکلنا چاہتا ہے،کوئی وزیر اعظم ہاؤس میں نہ جانے کی بات کرکے دوسرے حکمرانوں کو مات دینا چاہتا ہے، لیکن یہ سب وعدے اور صرف وعدے۔ جس طرح میاں صاحب نے اپنے دور حکومت میں ''قرض اتارو ملک سنوارو'' کا معجون بیچا تھا۔
عمران خان کی شخصیت کے بھی دو پہلو نظر آتے ہیں۔ ایک عمران خان وہ جو اس ملک میں ورلڈ کپ جیت کر آتا ہے۔ وہ اسی حوصلے سے، جنون اور عشق سے اس ملک کی سیاست میں اترتا ہے، یہ وہ عمران خان ہے، جواس ملک کو کینسر اسپتال دیتا ہے، لیکن یہی عمران خان وہ عمران خان بھی ہے جوآجکل معجون مرکب اور خمیرہ گاؤزبان کی بھی دکان لگاتا ہے۔ چند مہینوں میں نوکریوں کے وعدے ،کھربوں روپے ٹیکسز ملک کو دلوانے کے وعدے ۔انھوں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگاؤں گا وہ وعدہ پورا تو نہ ہوا لیکن انھوں نے کوشش ضرورکی۔
ہوسکتا ہے کہ ڈھیر سارا ریونیو اس ملک کا مقدر بنے، لوگوں کو روزگار بھی مہیا ہو اور نوکریاں بھی دی جائیں، لیکن وزیراعظم ہاؤس نہ جانے کا فیصلہ نہ اس بات پر اثرانداز ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ وزیراعظم ہاؤس تو آخر کار آپ کو جانا ہی پڑے گا۔ حکومت سنبھالنے سے پہلے اس طرح کی باتیں معجون بیچنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ ورنہ خیبر پختونخوا کی حکومت سندھ سے تو بہتر ہی ہوگی، پنجاب سے بھی شاید بہتر ہوگی لیکن فرق شاید انیس اور بیس کا ہو۔خان صاحب کے پاس بھی درباریوں کا ایک دربار سجے گا، ان کو بھی مختلف درگاہوں کی حاضری دینے کے مشورے دیے جائیں گے اور حاضریاں بھروائی جائیں گی۔ مختلف لباسوں کے نمونے دکھائے جائیں گے، مگر اب اس داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحرکی گھڑیاں ٹھہرگئی ہیں۔
اہم معاملہ اس ملک کا ذریعہ آمدنی ہے اور اس کو استعمال اور خرچ کرنے کا۔ کس کے ہاتھ کتنا آیا اور عام آدمی کے لیے کیا ہے، اداروں کی اتنی تباہی کبھی نہ تھی اور نہ ہی انگریزوں نے بھی ادارے اتنے بدتر حالت میں چھوڑے تھے۔ ہم دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں لیکن ہماری ایٹمی طاقت ہونے سے دنیا ناراض ہے۔وہ ہم پر ہماری معشیت کے ذریعے وارکرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سارے پس منظر میں صرف اس ملک کو دیکھنا ہے، لیکن اگر یہ ملک اندرونی فتنوں کا شکار ہوا تو پھرکوئی سماں ڈی چوک جیسا ہوگا، پھر سے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن جیسی ہڑتالیں ہوں گے کیونکہ یہ ایندھن تو بہرحال خان صاحب کے مزاج نے ہی ڈالا ہوا ہے اور اس بات سے یقینا میرا دل خون کے آنسو روئے گا۔
خان صاحب کو اس اننگ میں بیٹنگ اور باولنگ کے فرق کو دیکھنا ہوگا۔ پچ کے اندر نمی کو دیکھنا ہوگا۔ خان صاحب نے باولنگ کرکے تو دوسری ٹیموں کو فارغ کردیا لیکن اب ان کی ٹیم بیٹنگ پر ہے اور یہ اننگ بیس یا پچاس اوورز والی نہیں بلکہ ٹیسٹ میچ ہے۔ ابھی تو خان صاحب کی ٹیم اوپننگ کرنے جا رہی ہے۔ صرف اور صرف بہترین پرفارمنس ہی خان صاحب کو جتوا سکتی ہے۔ اوپنرز کو اچھا اسٹارٹ دینا ہے، ایک سنجیدگی اور میچورٹی کے ساتھ۔ صحیح جگہ پر بال کی پلیسنگ کرکے کھیلنا، اگر بال اور فیلڈنگ میں گنجائش نکلتی ہے تو چوکا مارنے میں کوئی حرج نہیں مگر چھکا لگانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔میرے خیال میں وزیراعظم ہاؤس میں نہ جانے کا اعلان کر کے انھوں نے ڈائریکٹ چھکا مارا ہے۔
چلو اگر چھکا لگا ہی دیا ہے توکوئی بات نہیں مگر باقی اننگزذرا سنبھل کرکھیلیں، یہ ٹیسٹ میچ ہے۔ٹی 20 نہیں۔ اووروں کی بھیڑ ہے سب کچھ ہوجائے گا مگر آہستہ آہستہ۔خان صاحب ٹیم کو جوڑکر آگے لے جا سکتے ہیں۔ خان صاحب ہمت والے بھی ہیں اور پارٹی کے اندر پیدا ہونے والے پریشرکو توڑ بھی سکتے ہیں۔ خان صاحب کے اندرکپتانی کی قدرتی صلاحیتیں موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کوکس طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ ملک کی موجودہ صورتحال ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلینج ہے اور اس چیلینج کا سامنا وہ کرسکتے ہیں اگر وہ پارٹی ڈسپلن کو برقرار رکھ سکیں۔ معیشت کا مضبوط ہونا اس ملک کے survival کے لیے سب سے بڑا سوال ہے۔ اس حکومت کے بننے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کا بم اس حکومت پرگرچکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب معاشی پالیسی بہتر بنا کر اس ملک کو مزید قرضوں کے بوجھ سے بچا سکتے ہیں۔
میاں نواز شریف احتساب کی زد میں آچکے ہیں اور اب اس کا گھیرا آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ سندھ کے عوام کا ووٹ '' جئے بھٹو'' کے لیے وقف ضرور ہے لیکن آصف زرداری اور ان کی بہن کی سرزنش سندھ کے عوام کو رنجیدہ نہیں بلکہ ان کے لیے اطمینان کا باعث ہوگی۔ کیونکہ ان کے چہرے اب سندھ کے عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ بلاول بھٹوکی الیکشن کئمپین کس قدرکامیاب رہی لیکن بلاول بھٹوکی جگہ اگر آصف زرداری ہوتے تو ان کا وجود پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن میں ایک زوال کا باعث ہوتا۔