سندھ ہائیکورٹ نے بلدیہ عظمیٰ سے وصولیوں کا ریکارڈ طلب کر لیا
تشہیری مواد کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں سے وصول کردہ رقوم کا ریکارڈ بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی گئی
KARACHI:
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کے ایم سی انتظامیہ کو ایک ہفتے کے اندر اندر ایڈورٹائزمنٹ کی مد میں ہونے والی وصولیوں ، مقامات اور پارٹیوں کی نشاندہی کے ساتھ مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیاہے۔
فاضل بینچ نے الیکشن کے دوران لگائے گئے سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں، بل بورڈز، سائن بورڈزاور دیگر تشہیری مواد کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں سے وصول کردہ رقوم کا ریکارڈ بھی پیش کرنے کی ہدایت کی، فاضل بینچ نے حکومت سندھ کو ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر کے ایم سی کی اسپیشل گرانٹ اور ڈی ایم سیز کی او زیڈ ٹی کی گرانٹ جاری کرے تاکہ ملازمین اور پنشنرز کو تنخواہیں اور پنشن اد ا کی جاسکیں۔
سندھ ہائیکورٹ نے یہ ہدایات سجن یونین (سی بی اے ) کے ایم سی کے صدر سید ذوالفقارشاہ ،جسٹس ہیلپ لائن کے ندیم شیخ ایڈوکیٹ اورریٹائر پنشنر کے نمائندے محمد اسمعیل شہیدی کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیں، درخواست گزاروں کے مطابق کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے تقریباً70 ہزار ملازمین و پنشنر ز کو تنخواہیں اور پنشن ادا نہیں کی جارہی، سماعت کے موقع پر ندیم شیخ ایڈووکیٹ نے بینچ کو بتایا کہ کے ایم سی حکومت سندھ سے ملنے والی امداد پر نظررکھتی ہے۔
جبکہ اسکی خود آمدنی ڈیڑ ھ ارب روپے سے زائد ہے لیکن اس کی وصولی پر توجہ نہیں دی جارہی، سید ذوالفقارشاہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈی ایم سیز کو او زیڈ ٹی کی ماہوار گرانٹ جاری نہ کیے جانے کے باعث شہر میں کچرا اٹھانے کا کام بھی متاثر ہورہاہے، اس پر عدالت نے پانچوں ڈی ایم سیز کو آئندہ سماعت کے لیے نوٹس جاری کردیے جبکہ ندیم شیخ ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ فائر فائٹرز کو 4 ماہ فائر رسک الاؤنس ادا نہیں کیا گیا، اس پر کے ایم سی کے وکیل بہزاد حیدر ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جنوری 2013 تک کے بلز آئے تھے ان پر ادائیگی کی جاچکی ہے بقایا بلز آنے پر فائر رسک الاؤنس ادا کردیا جائے گا۔
سندھ حکومت سے فنڈز آنے پر تنخواہیں اور پنشن ادا کردی جائیں گی تاحال صرف گریڈ ایک تا گریڈ 5کے ملازمین کو تنخواہیں ادا کی گئی ہیں، سید بہزاد حیدر ایڈووکیٹ کے ایم سی نے بتایا کہ کے ایم سی کے محکمہ ایڈوٹائزمنٹ نے یکم جولائی 2012 سے ابھی تک 66کروڑ 23لاکھ10ہزار 48روپے وصول کیے ہیں، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ بتا سکتے ہیں کہ کس ادارے، کمپنی یا پارٹی سے کتنے پیسے وصول کیے گئے اس کا ریکارڈ کہاں ہے ،عدالت میں ریکارڈ کیوں پیش نہیں کیا گیا۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کے ایم سی انتظامیہ کو ایک ہفتے کے اندر اندر ایڈورٹائزمنٹ کی مد میں ہونے والی وصولیوں ، مقامات اور پارٹیوں کی نشاندہی کے ساتھ مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیاہے۔
فاضل بینچ نے الیکشن کے دوران لگائے گئے سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں، بل بورڈز، سائن بورڈزاور دیگر تشہیری مواد کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں سے وصول کردہ رقوم کا ریکارڈ بھی پیش کرنے کی ہدایت کی، فاضل بینچ نے حکومت سندھ کو ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر کے ایم سی کی اسپیشل گرانٹ اور ڈی ایم سیز کی او زیڈ ٹی کی گرانٹ جاری کرے تاکہ ملازمین اور پنشنرز کو تنخواہیں اور پنشن اد ا کی جاسکیں۔
سندھ ہائیکورٹ نے یہ ہدایات سجن یونین (سی بی اے ) کے ایم سی کے صدر سید ذوالفقارشاہ ،جسٹس ہیلپ لائن کے ندیم شیخ ایڈوکیٹ اورریٹائر پنشنر کے نمائندے محمد اسمعیل شہیدی کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیں، درخواست گزاروں کے مطابق کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے تقریباً70 ہزار ملازمین و پنشنر ز کو تنخواہیں اور پنشن ادا نہیں کی جارہی، سماعت کے موقع پر ندیم شیخ ایڈووکیٹ نے بینچ کو بتایا کہ کے ایم سی حکومت سندھ سے ملنے والی امداد پر نظررکھتی ہے۔
جبکہ اسکی خود آمدنی ڈیڑ ھ ارب روپے سے زائد ہے لیکن اس کی وصولی پر توجہ نہیں دی جارہی، سید ذوالفقارشاہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈی ایم سیز کو او زیڈ ٹی کی ماہوار گرانٹ جاری نہ کیے جانے کے باعث شہر میں کچرا اٹھانے کا کام بھی متاثر ہورہاہے، اس پر عدالت نے پانچوں ڈی ایم سیز کو آئندہ سماعت کے لیے نوٹس جاری کردیے جبکہ ندیم شیخ ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ فائر فائٹرز کو 4 ماہ فائر رسک الاؤنس ادا نہیں کیا گیا، اس پر کے ایم سی کے وکیل بہزاد حیدر ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جنوری 2013 تک کے بلز آئے تھے ان پر ادائیگی کی جاچکی ہے بقایا بلز آنے پر فائر رسک الاؤنس ادا کردیا جائے گا۔
سندھ حکومت سے فنڈز آنے پر تنخواہیں اور پنشن ادا کردی جائیں گی تاحال صرف گریڈ ایک تا گریڈ 5کے ملازمین کو تنخواہیں ادا کی گئی ہیں، سید بہزاد حیدر ایڈووکیٹ کے ایم سی نے بتایا کہ کے ایم سی کے محکمہ ایڈوٹائزمنٹ نے یکم جولائی 2012 سے ابھی تک 66کروڑ 23لاکھ10ہزار 48روپے وصول کیے ہیں، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ بتا سکتے ہیں کہ کس ادارے، کمپنی یا پارٹی سے کتنے پیسے وصول کیے گئے اس کا ریکارڈ کہاں ہے ،عدالت میں ریکارڈ کیوں پیش نہیں کیا گیا۔