شجرکاری مہم کو ’کامیاب شجرکاری مہم‘ کیسے بنائیں

سوشل میڈیا پر لوگوں کو متحرک کیا جارہا ہے کہ وہ اس بار جھنڈیوں کے بجائے درخت لگائیں تاکہ ملکی آب و ہوا بہتر ہوسکے


عام طور پر پودے لگانے میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن بعد میں ان کی دیکھ بھال نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ پودے درخت نہیں بن پاتے اور شجر کاری کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ (فوٹو: فائل)

دورِ حاضر میں شجر کاری کی ضرورت و اہمیت سے ہر شخص واقف ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب لوگوں میں درخت لگانے کا جذبہ بڑھتا جارہا ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس جذبے کو ایک مہم کی شکل دی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ میں اس میں شامل ہوکر اپنے شہر، محلے اور گلی کو سرسبز بنانے کےلیے شجرکاری کر سکیں۔ اس وقت ملک بھر میں مختلف سطحوں پر سید عمار جعفری، پروفیسر ڈاکٹر شہزاد بسرا، صفدر چیمہ اور سجاد کھوسہ جیسے مخیر حضرات شجر کاری مہم کےلیے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔

میرے شجر کاری پروجیکٹس میں چار سالہ تجربے کے مطابق شجر کاری کو باقاعدہ مہم کی شکل دینے کےلیے ایک منظم طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی شجر کاری مہم شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ کس قسم کی شجر کاری مہم شروع کرنے جارہے ہیں؟ عموماً سال کے کسی بھی دن درخت لگائے جاسکتے ہیں لیکن اس مہم کو کسی خاص دن کی مناسبت سے جوڑ دیا جائے تو لوگوں میں اس سے متعلق جوش و خروش بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً یومِ شہداء کے موقع پر ہم موم بتیاں جلانے کے بجائے اس رجحان کو فروغ دے سکتے ہیں کہ ہر شہید کی یادگار کے طور پر ایک درخت لگادیا جائے۔ سوشل میڈیا پر یومِ آزادی کےلیے شجر کاری مہم زور پکڑ چکی ہے جس میں لوگوں کو متحرک کیا جارہا ہے کہ وہ اس بار جھنڈیوں کے بجائے درخت لگائیں تاکہ ملکی آب و ہوا بہتر کی جاسکے۔

جس پارک، گلی، محلے یا خالی جگہ پر شجر کاری کرنی ہو، اس کے متعلقہ افسران سے اجازت لے لی جائے تاکہ بعد میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ اس مقصد کےلیے ایک خط یا ای میل لکھنا چاہیے جس میں شجر کاری کے اغراض و مقاصد، جگہ کا تعین، شرکاء اور دیگر معلومات واضح کردی جائیں۔ یاد رہے کہ یہی خط منظوری کے بعد اجازت نامے کے طور پر استعمال ہوگا۔ مہم کو شروع کرنے کےلیے چند لوگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں باہمی مشاورت سے منصوبہ بندی کی جائے اور شجر کاری کےلیے مخصوص دن کا تعین کیا جائے۔

اگلا مرحلہ شجرکاری میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے جس میں علاقے کو مدِنظر رکھتے ہوئے درختوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ درخت اپنی افزائش اور ساخت کے اعتبار سے مختلف زمینوں اور مختلف موسمی حالات میں مخصوص اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مختلف درخت مخصوص آب و ہوا، زمین، درجہ حرارت اور بارش میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔ مثلاً زرعی ماہرین کے مطابق جنوبی پنجاب کی آب و ہوا خشک ہے اس لیے یہاں بیری، شریں، سوہانجنا، کیکر، پھلائی، کھجور، ون، جنڈ، فراش اور آم لگایا جائے۔ اسی طرح وسطی پنجاب کے نہری علاقوں میں املتاس، شیشم، جامن، توت، سمبل، پیپل، بکائن، ارجن، اور لسوڑا جبکہ شمالی پنجاب میں کچنار، پھلائی، کیل، اخروٹ، بادام، دیودار، اور اوک کے درخت لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔

شجر کاری مہم کا سب سے اہم مرحلہ بجٹ مرتب کرنا ہے جس میں پودوں کی تعداد، ان کی ترسیل اور بینر وغیرہ بنوانے پر آنے والے ممکنہ اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اس مہم کےلیے آپ کے جذبے کو سراہا جاسکتا ہے لیکن رقم اور وسائل کے بغیر کی گئی منصوبہ بندی عملی طور پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ اس مقصد کےلیے بہترین طریقہ ''فنڈ ریزنگ'' یعنی چندے (فنڈ) کے ذریعے رقم اکٹھی کرنا ہے۔ شہر بھر کے اسٹیک ہولڈرز، رہنماؤں اور چیدہ چیدہ شخصیات کی ایک فہرست مرتب کیجیے اور انہیں اپنی مہم کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے امداد کی اپیل کیجیے۔ فنڈز کے حصول کےلیے دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نقد رقم کے بجائے ڈونرز سے درخواست کی جائے کہ وہ پودے خرید کر دیں۔ امدادی رقم کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے اور اگر امداد پودوں کی صورت میں ہو تو ان پر متعلقہ شخصیت کے نام کا ٹیگ لگا دیا جائے۔

یہ کام چند لوگوں کے بس کا نہیں، اس مقصد کےلیے نوجوان رضاکاروں کی ٹیمیں تشکیل دے کر ذمہ داریاں بانٹ دینی چاہئیں تاکہ تمام کام خوش اسلوبی سے مکمل ہوسکے۔ رضاکار یا والنٹیئرز سب سے پہلے دوستوں میں سے تلاش کیے جائیں اور اس کے بعد علاقے کے دوسرے لوگوں سے ملاقات کرکے انہیں مہم کا حصہ بننے کےلیے تیار کیا جائے۔ اس مقصد کےلیے سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جہاں اپنی مہم کی شیئرنگ سے آپ کو ڈونیشن کے علاوہ عملی کام کرنے کےلیے رضاکار بھی مل سکتے ہیں۔ ممکن ہو تو بچوں کو بھی اس سرگرمی میں شامل کیا جائے کیوں کہ آپ کو دیکھ کر انہیں بھی تحریک حاصل ہوگی اور وہ مستقبل میں اس مشن کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

ٹیم مکمل ہو جانے کے بعد کسی اچھی نرسری کو متعلقہ پودے آرڈر کیجیے اور وقت پر پودوں کی ترسیل یقینی بنائیے۔ شجرکاری کےلیے مقرر کردہ تاریخ سے ایک دن پہلے پودے لگانے کےلیے منتخب کی گئی جگہ کو اچھی طرح تیار کرلیجیے تاکہ اگلے دن کوئی پریشانی نہ ہو۔ شجر کاری کے مقررہ دن ٹیم کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے۔ شجر کاری کا افتتاحی پودا لگانے کےلیے کسی اہم شخصیت کو مدعو کیا جاسکتا ہے جو ڈونر حضرات میں سے بھی کوئی ہوسکتا ہے۔ یہ طریقہ کار مستقبل میں شجر کاری کےلیے ڈونیشنز میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

پودے لگاتے وقت زرعی اصولوں کو مدنظر رکھیے اور اگر ممکن ہو تو شجرکاری مہم کےلیے کسی زرعی ماہر کی رضاکارانہ طور پر خدمات ضرور حاصل کیجیے۔

عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پودے لگانے میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن بعد میں ان پودوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ پودے درخت نہیں بن پاتے اور شجر کاری کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے درخت لگاتے وقت خیال رکھیے کہ نزدیک ہی کسی شخص کو اس کا ذاتی فائدہ ہوتا ہو۔ مثلاً کسی دکان کے سامنے درخت لگایا جائے تو دکاندار اسے مستقبل میں بھی پانی وغیرہ دیتا رہے گا۔ اس کےلیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ مختلف کالجوں، اسکولوں اور اداروں میں پودے لگائے جائیں تاکہ بعد میں ان کے مالی، پودوں کی دیکھ بھال کرتے رہیں۔ اپنی مہم کی تشہیر کےلیے مخصوص دن کی مناسبت سے بینر ضرور بنوایئے جس میں درختوں کی افادیت سے متعلق اہم باتیں درج ہوں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 'نیکی کر دریا میں ڈال' کے مصداق فوٹو سیشن سے گریز کرنا چاہیے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شجر کاری مہم کی جس قدر تشہیر کی جائے گی، اتنا ہی لوگ موٹیویٹ ہوں گے اور دیکھا دیکھی ہر گلی محلے میں شجر کاری مہم زور پکڑ جائے گی۔ اس مقصد کےلیے میڈیا کو بھی مدعو کیا جاسکتا ہے تاکہ ڈاکیومینٹری یا خبر کے ذریعے عام لوگوں کو شجر کاری کےلیے متحرک کیا جاسکے۔ شجر کاری مہم کی کامیاب تکمیل کے بعد ایک سادہ تقریب کا اہتمام کیجیے جس میں بہترین رضاکاروں کو تعریفی سرٹیفکیٹس دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

مستقبل میں مہم کو مزید مؤثر بنانے کےلیے کمیٹی کو چاہیے کہ شجر کاری مہم کا تنقیدی جائزہ لے اور اگر کہیں بہتری کی گنجائش موجود ہو تو اس کےلیے اقدامات کرے۔ اگر ان بنیادی باتوں پر عمل کیاجائے تو ہر گلی محلے میں شجر کاری مہم شروع کی جاسکتی ہے جس سے چند سال میں ہی سرسبز پاکستان کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔

اگست کا مہینہ ہر سال حب الوطنی اور جوش و خروش سے منایا جاتاہے۔ پہلے ہم لوگ اپنے وطن سے عقیدت کے اظہار کےلیے جھنڈیاں لگایا کرتے تھے لیکن اس وقت ماحولیاتی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں جھنڈیوں کی نہیں بلکہ درختوں کی ضرورت ہے۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ اس ماہ ہر علاقے میں شجر کاری مہم ضرور شروع کی جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں