عمران خان کے لیے نئے چیلنجز

اب انھیں بالنگ کے انداز بدلنے ہوں گے اور موقع پرستوں پر نگاہ مرد مومن ڈالنی ہوگی۔

anisbaqar@hotmail.com

عمران خان جوانی میں مقابلے کیا کرتے تھے وہ بھی اپنے زور بازو اور شعور کی بنیاد پر کیا کرتے تھے مگر جب آج سے 22 برس قبل معراج محمد خان کے ساتھ جس کھیل کا آغاز کیا،اس میں نہ گیند تھی اور نہ بلا، نہ اس کی کوئی باؤنڈری تھی اور نہ چھکا۔ اس کھیل کی سرحدیں جیب کی گنجائش کے مطابق اور ضروریات کی حدیں محدود اور خواہشات انسانی ضروریات کے مطابق ان صفحات کو معراج کی صحبت نے تو ازبر کر دیا تھا مگر معراج نحیف و نزار ہونے کی وجہ سے اس تیز روی سے مسافت طے نہ کرسکے اور سیاست کو خیر باد کر دیا کچھ دوستوں نے مشورہ دیا مگر صحت کے انکار نے ان کو بٹھا دیا، جب کہ عمران خان صحت مندی کی راہ پر گامزن رہے۔

عمران خان پاکستان کے رقبے، اجناس کی پیداوار اور آبادی کو بغور دیکھتے رہے اور ازخود اصلاح بقول ماؤزے تنگ اپنی ذات پر تنقید اور تجربات سے سیکھنے پر عمل کرتے رہے جو انھیں آج اس منزل پہ لے آیا کہ اس مشکل دور میں وزیر اعظم کی کرسی پہ لایا جب حکومت تمام محاذوں پر آبلہ پا ہے اور خزانہ خالی، کیونکہ کرپٹ حکمرانوں نے شہروں کو کوڑے دان بنا دیا۔ بس ایک دو شہروں کوکاسمیٹک چینج کے غلاف اوڑھا دیے۔ کوئی انڈسٹریل ڈویلپمنٹ نہیں۔

کراچی کی اسٹیل مل جو سونا اگلنے والی قوت تھی اس کے مخصوص پارٹس سنا ہے کہ انڈین مل والا مٹھل لے گیا خیر جو بھی ہوگیا اتنی اعلیٰ اسٹیل جس کا جنوبی ایشیا میں کوئی ثانی نہ تھا آج وہ کرپٹ حکمرانوں نے ترقیاتی فنڈ کے نام پر ملک کو کنگال کر دیا۔ اب حکومت چلانے کے لیے ہر مد میں کٹوتی اور کفایت شعاری کی ضرورت ہے۔ پروٹوکول جیسی لعنت اور دکھاوے نے ملک پر اضافی امپورٹڈ اشیا کا بوجھ ڈال دیا ہے۔

کراچی، حیدرآباد اور سکھر اور اس صوبے کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی۔ ترقیاتی فنڈ کے غلط استعمال نے سندھ کو بدحال کردیا ہے ۔ کوٹہ سسٹم نے ملک میں ایک صوبے کو دو نسلی قومیت کی شکل دے دی ہے جس کی وجہ سے ملک میں لسانی تفریق کا احیا ہوگیا ہے ورنہ دونوں لسانی قوتیں آپس میں ضم ہونے کے مرحلے میں ہیں۔ گوکہ لیاری نے اس طوق کو نکال پھینکا اور اب سندھ کی ایک لسانی تحریک نے آخرکار اپنا محور تبدیل کردیا اور پی پی سے اتحاد کے بجائے وفاقی حکومت سے اتحاد کرلیا۔ کیونکہ پی پی نے کوڑا ایکسپورٹ کرنے میں اپنی فلاح تصور کی اور شہر میں غلاظت کے انبار لگ گئے گوکہ راقم نے پی پی کی حمایت میں نصف صدی گزار دی کہ اب ذوالفقار علی بھٹو کے نعروں میں سے کسی ایک پر عمل ہوتا ہے یا نہیں مگر وہی سفر جو نواز شریف کی راہ تھی۔

نواز شریف نے تو کم ازکم میٹرو بس، سڑکیں اور گورنمنٹ اسکول تو آباد کیے مگر سندھ آج بھی اس سے محروم ہے۔ جب کہ صوبے کے پاس خطیر رقم موجود تھی۔ لہٰذا یہ کہنا پڑے گا کہ سندھ کے صوبے میں آباد دوسری لسانی پارٹی نے مجبوراً اگر پی ٹی آئی کا ساتھ دیا تو برا نہ کیا کیونکہ بیرون ملک سے پی ٹی آئی کے لیے امداد کی آواز تو بلند ہوئی کم ازکم عمران خان کی معاشی ساکھ پر کوئی داغ نہیں۔ اگر ذہن پر ذرا سا بوجھ ڈالیں تو یاد آئے گا کہ جب جمائما سے عمران خان صاحب کی علیحدگی ہوئی تو انھوں نے ایک فیصد بھی اضافی رقم نہ لی بس وہی جو انصاف اور قانون سے بنتی ہے ورنہ وہ بھی ارب پونڈ میں ہوتی اسی وجہ سے ان کے تعلقات آج بھی انسانی بنیاد پر قائم ہیں۔


یہی وہ اصول ہیں جن کی دھمک دنیا میں گئی اور چند یوم میں پاکستانی کرنسی کو استحکام ملا۔ ورنہ ڈالر آج ڈیڑھ سو کے قریب ہوتا۔ چین نے دو مرتبہ امداد دی اور روس نے اسٹیل انڈسٹری کے احیا کی تجویز دی اور اس بلاسٹ فرنس کو رواں کرنے میں دلچسپی لی جو 800 ڈگری تک لوہے کو پگھلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ریل کی پٹریاں تک بنائی جاسکتی ہیں یہ تمام اوصاف لیڈر میں ہونے چاہئیں کہ دوسروں کی دولت پہ نظر نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد امیدوار خاص طور سے عمران خان کے در پے اس لیے آئے ہیں کہ یہاں ان کے لیے زیادہ امکانات ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان میں ملکی استحکام کا جذبہ ہو ابھی کہنا قبل ازوقت ہے۔ آزمائش کا وقت قریب آرہا ہے۔

رہ گئی ایم کیو ایم جس نے 8 نکات پر سمجھوتہ کیا ہے وہ خالصتاً صوبے کی بہتری کے لیے ہے حکومتی ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر، سندھ، حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام، لوکل گورنمنٹ کے لیے سرمائے کی فراہمی وغیرہ کوئی لسانی مسئلہ نہیں یہ ہر فرد کی ضرورت ہے یہ آٹھ نکاتی سمجھوتہ بامعنی اور بامقصد ہے۔ اس سمجھوتے میں چنگی کی رقم کا مسئلہ جو کراچی پر شب خون مار کر 1998ء میں لے لیا گیا تھا۔ اس کی واپسی عوامی مسئلہ ہے نہ کہ لسانی مسئلہ۔ اس رقم سے کراچی اور سندھ کے حالات خصوصاً بدلیں گے۔ کیونکہ سندھ کا ہر شہر نظر کرم کا طلبگار ہے۔

آج تک سیہون شریف کی درگاہوں کے راستے بھی بہتر نہ ہوسکے۔ سیہون شریف میں تو ایک چھوٹے ہوائی اڈے کی ضرورت ہے کیونکہ اس درگاہ پر پنجاب سے بے شمار زائرین اور کراچی کے علاوہ دور دراز کے لوگ یہاں زیارت پر آتے ہیں۔ خواہ فلائٹ ہفتے میں ایک دو دن ہی کیوں نہ ہو۔ سندھ کے دیہی علاقے غربت کی لکیر سے بہت نیچے ہیں یہ علاقے کسی این جی او کے متلاشی نہیں بلکہ حکومت کی توجہ کے طالب ہیں۔ 70 برس ہوچکے مگر حاکموں کو ہوش نہیں کوٹہ سسٹم اور اس جیسے دیگر دل خراش قوانین نفرتوں کے موجد ہیں۔ اب تو سندھ میں زرعی انڈسٹری کے قیام کی ضرورت ہے۔

مثلاً کوکونٹ، واٹر انڈسٹری، ڈیٹ انڈسٹری اور علاقے کے اعتبار سے انڈسٹری کا قیام سندھ کی دستکار خواتین کا جواب نہیں۔ اس کو رواں دواں کرنے کی ضرورت ہے۔ اور کراچی شہر میں گھروں میں بیٹھی خواتین کے لیے الیکٹرانک ورک، گھڑی سازی، ٹیلی فون کی پیکنگ یہ تمام تجاویز پہلی بار جب ایم کیو ایم برسر اقتدار آئی تھی تو بذات خود میں نے الطاف حسین کو مبارک باد دی تھی مگر وہ کسی اور دنیا کے خواب دیکھ رہے تھے اب پھر ایم کیو ایم نے یو ٹرن لیا ہے اور عمران خان کو اپنا ساتھی چنا ہے۔

اب دیکھیں صوبائی سطح پر سڑکیں، بسیں، سرکلر ریلوے کا آغاز ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر سرکلر ریلوے کو پوری طرح بحال کردیا جائے تو ہر وقت جو سڑک جام رہتی ہے یہ کھل جائے گی اور زیادہ سے زیادہ پسنجر سفر کرسکیں گے اور گرین لائن منصوبہ جو سست روی کا شکار ہے اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے اور رہ گیا جو مخالفین کاموں میں رخنہ ڈالنے کی باتیں کر رہے ہیں ان میں موجودہ حکومت کو گرانے کی قوت نہیں۔ کیونکہ عوام اچھی طرح سے واقف ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ جنھوں نے عوام کو چھ لاکھ فی کس اور آنے والوں کو بھی قرض کے جال میں پھنسا دیا ہے۔ رہ گیا عمران خان کے لیے چیلنجز کا مسئلہ تو یہ عوامی تعاون اور کچھ وقت انتظار ضرور کرنا ہوگا کہ اب انھیں بالنگ کے انداز بدلنے ہوں گے اور موقع پرستوں پر نگاہ مرد مومن ڈالنی ہوگی۔
Load Next Story