ڈربنے جاوں تو دریا ملے پایاب مجھے
یہ مسئلہ وہی انڈے اور مرغی میں سنیارٹی اور جونیارٹی کا ہے۔ کہ کون پہلے پیدا ہوا۔
مسئلہ وہی پرانا یعنی دنیا کا ''سینئر'' ترین مسٔلہ ہے جسے دنیا کے سارے رفتہ و گزشتہ و موجودہ و آیندہ دانشورین اور منورین ابھی تک حل نہیں کر پائے بس یہاں تک کہ پاکستان کے دانا دانشور مفکرین و اینکرین بھی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے حالانکہ ملک کا سب کچھ بگاڑ چکے ہیں۔
یہ مسئلہ وہی انڈے اور مرغی میں سنیارٹی اور جونیارٹی کا ہے۔ کہ کون پہلے پیدا ہوا۔ اب ایک دانشور بمقام پاکستان نے اس کا ایک تسلی بخش جواب ڈھونڈا بھی تھا لیکن وہ جواب بھی بعد میں جواب سے زیادہ سوالوں کا ''ابا جان'' ثابت ہو گیا۔
اس دانشور کو ہم جانتے پہچانتے ہیں اور کبھی مان بھی لیتے ہیں کیونکہ ان سے اکثر بمقام آئینہ ہماری ملاقات ہوتی رہتی ہے بشرطیکہ ہم آئینے کے سامنے جائیں ورنہ خود وہ دو قدم بھی آئینے سے اٹھا کر ہماری ملاقات کو نہیں آتے اور ہم تھوڑا سا اپنے مرشد پر گئے ہیں کہ۔
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد ؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ ''مردم گزیدہ'' ہوں
بہر حال اس دانشور نے جواب یوں دیا تھا کہ انڈے اور مرغی میں کوئی بھی سینئر یا جونیئر نہیں ہے دونوں ایک ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ مرغی جب پیدا ہوئی تو انڈا بھی اس کے پیٹ میں تھا لیکن بعد میں اس جواب کے ''پیٹ'' ہی سے بہت سارے سوال نکل آئے اور ان تمام سوالوں کے پیٹ میں جوابات تھے اور جوابات کے پیٹ میں سوالات یعنی مرغی کے پیٹ میں انڈا اور پھر انڈے کے پیٹ میں مرغی اور مرغی کے پیٹ کے اندر ۔۔۔۔ اب کوئی کہاں تک جائے ،آگے پھر وہی مرغی میں انڈہ اور انڈے میں مرغی کا جواب اور اس کے پیٹ میں یہ سوال کہ ایک دوسرے کے پیٹ میں پہلے کون؟
لیکن آج کا ہمارا موضوع نہ انڈہ ہے نہ مرغی نہ ہی مرغا بلکہ ان سب کو اپنے پیٹ میں ''پہنچانے والا'' ہے آپ اسے جانتے ہوں گے اگر نہیں جانتے تو کسی بھی آئینے سے معلوم کر سکتے ہیں یا کسی چلو بھر ''نا صاف پانی'' میں دیکھ کر پتہ لگا سکتے ہیں اورپھر اسی چلو بھر پانی میں ڈوب بھی سکتے ہیں۔
ان تمام سوالوں کے ''جواب'' اور پھر ان تمام جوابوں کے سوال حضرت ''انسان'' پر بات ٹھہر تو جاتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی کہ خود اس کا بھی وہی انڈے اور مرغی کا معاملہ ہے۔ کہ پہلے یہ پیدا ہوا تھا یا اس کا نصیب پہلے پیدا ہوا اور پھر اس کے لیے اس کی پیدائش ہوئی اس لیے تو اس نے چیخ کر کہا کہ
آسماں بار امانت نہ توانست کشید
قرعٔہ فال بنام من دیوانہ زدند
اور انھی '' من دیوانہ'' میں سے ایک ہم بھی ہے جسے آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ اپنی بد نصیبی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے یا بد نصیبی اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
بات اگر یہیں تک ہوتی تو پھر بھی ہم اتنا دکھی نہ ہوتے کہ قسمت، حکومت اور بیوی کسی کے بھی بس یا پسند کے نہیں ہوتے لیکن دکھ ہمارا یہ ہے کہ ہماری قسمت باؤلے کتے کی طرح ہر اس شخص کو بھی کاٹ لیتی ہے جو یا ہمارے نزدیک آتا ہے یا ہم کسی کے قریب جاتے ہیں اکثر کو تو احساس تک نہیں ہوتا کہ ان پر جو آفت پڑی ہے کیوں پڑی ہے ورنہ وہ اب تک ہمارا نہ جانے کیاکیا کر چکے ہوتے دوسروں کا کاٹ کھانے کے لیے ہماری بد قسمتی اتنی تیز ہے کہ اگر کسی کے ساتھ علیک سلیک بھی کر لیتے ہیں تو پھر مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے رہتے ہیں کہ ہماری ، قسم کی بدقسمتی اسے لاحق ہوئی یا نہیں ہوتی تو ضرور رہے لیکن کسی کو فوراً جسے ہم دیکھ لیتے ہیں اور کسی کو بعد میں جسے دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں جن جن لوگوں کو اس بات کا پتہ چل چکا ہے وہ تو ہماری صحبت سے یوں بھاگتے ہیں جسے جیسے مرشد نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے
سایہ میرا مجھ سے مثل ''دود'' بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے
آپ شاید یقین نہ کریں کہ ہم نے اس ''نصیبی'' کے مارے جو ہمیں لاحق ہے لیکن ہمارے قریب دوسروں کو بھی کاٹ لیتی ہے دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا ہے اور دشمنوں نے ہم سے کہ قربت کے نتائج نہایت سرعت سے نقصان دہ نکلتے ہیں۔
پہلے پہل ہمیں اس بات کا پتہ اس وقت چلا جب ہم دو تین مقامات بڑے خوش و خروش کے ساتھ ملازم ہو کر کام کرنے لگے اور ابھی اس خوشی میں اچھی طرح گا بھی نہ ہو چکے تھے یعنی
غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
لیکن ہماری یہ ''دعا'' اکثر بد دعا بن جاتی اور وہ شاخ نہ رہتی جس پر ہم ابھی آشیانہ بنانے کے لیے ''تنکے'' ڈھونڈ رہے تھے یعنی یا تو وہ کمپنی ڈوب جاتی یا مالک دیوالیہ ہو جاتا، اور حکومت کا وہ محکمہ یا شاخ ختم ہو جاتی اس طرح آٹھ دس لوگوں کو دیوالیہ اور پھر دیوانہ چار پانچ کمپنیوں کو ڈبونے اور دو چار مہر بان افسروں کو درد بدر کرنے کے بعد ہمیں اپنے اوپر اور اپنے نصیب پر شک ہوا تو تحقیق پر پتہ چلا کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی مثالات تو بہت ہیں لیکن اندازہ اس سے لگائیں کہ جب سے ہم پاکستان کو لاحق ہوئے ہیں تب سے اب تک کیا کیا بلکہ کیا یکا کچھ نہیں ہوا سب سے پہلے تو یہ دیکھئے کہ ہمارا روپیہ جو ایک زمانے میں روپیہ کہلاتا تھا اور پاس پڑوس والے ملکوں کے ''سکوں'' کے درمیان ایسا گھڑا کھڑا رہتا تھا کہ وہ اس کے گھٹنے تک بھی نہیں آتے تھے۔
مثلاً افغانستان کا سکہ اور اس دوسری طرف والے منحوس پڑوسی کے ''سکّے'' صفر کی طرح ہوتے اور درمیان میں ہمارا ''سکہ'' 1کی صورت میں کھڑا ہوتا یوں (0/0) لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ بڑھتے گئے اور ہم گھٹتے گئے ہمارے میں ایک شخص تھا وہ ہو بہو ہمارے ''روپے'' کی طرح تھا یا ہمارا روپیہ ہی اس پر گیا ہے اس کے بارے میں اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ جب پیدا ہوا تو اسی سال کا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس کی عمر بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگی ستر سال کی عمر میں یہ اسکول میں داخل میٹرک کرنے کے بعد اس کی عمر ساٹھ سال ہو گئی اور شادی کے وقت یہ پچاس سال کا ہو گیا تھا پہلا بیٹا 45سال کی عمر میں پیدا ہوا اور جب اس کے بڑے بیٹے کی شادی تھی تو یہ 35کا تھا۔ یو آہستہ آہستہ جب پوتاپوتی کے مرحلے میں پہنچا تو پندرہ سال کا ہو چکا تھا آج کل اس کی عمر پانچ سال بتائی جاتی ہے نہ اس کا کوئی بال کالا رہ گیا ہے اور نہ منہ میں کوئی دانت باقی رہا ہے ظاہر ہے کہ جس دن مرے گا وہی اس کی پیدائش کا دن ہوگا اور کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ وہ دن اس کی یوم پیدائش کہے یا یوم وفات اور بچوں کو بھی تشویش ہے کہ بعد میں وہ ایک ہی دن اس کی سالگرہ منائیں گے یا برسی۔
ہمارا یہ سکہ آج کل اس سابقہ پوزیشن سے بدلتے بدلتے ایسا ہو چکا ہے(101) ہوچکا ہے اور ہم حیران ہے کہ اسے کہیں تو کیا کہیں اور کہیں گے تو کیسے کہیں گے روپیہ تو اسے کہہ نہیں سکتے کہ روپے تو اس کے دائیں بائیں کھڑے صاف نظر آرہے ہیں اس کے نیچے کے سکیّ جو کبھی ہوا کرتے تھے وہ بھی نہ کہہ سکتے کہ اب نہیں نہ کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا ہے اور اس کی وہ اولایں بازار سے جتنی چیزیں اٹھا کر لاتے تھے اتنی چیزیں لانے کے لیے یہ نہ جانے اپنے جیسے کتنوں کو لے کر جائے گا بچارا تو اب خود بھی اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے بلکہ اس کا نام تک بھی نہ رہا زبانوں پر البتہ داستانوں میں کہیں کہیں اس کا نام آجاتا ہے وہ بھی کسی مرحوم کی طرح۔
اب اس سے زیادہ بڑا ثبوت اپنی بد نصیبی کا اور ساتھ آپ سب کا اور کیا پیش کر سکتے۔ کہ ڈربنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا حاصل
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
یہ مسئلہ وہی انڈے اور مرغی میں سنیارٹی اور جونیارٹی کا ہے۔ کہ کون پہلے پیدا ہوا۔ اب ایک دانشور بمقام پاکستان نے اس کا ایک تسلی بخش جواب ڈھونڈا بھی تھا لیکن وہ جواب بھی بعد میں جواب سے زیادہ سوالوں کا ''ابا جان'' ثابت ہو گیا۔
اس دانشور کو ہم جانتے پہچانتے ہیں اور کبھی مان بھی لیتے ہیں کیونکہ ان سے اکثر بمقام آئینہ ہماری ملاقات ہوتی رہتی ہے بشرطیکہ ہم آئینے کے سامنے جائیں ورنہ خود وہ دو قدم بھی آئینے سے اٹھا کر ہماری ملاقات کو نہیں آتے اور ہم تھوڑا سا اپنے مرشد پر گئے ہیں کہ۔
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد ؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ ''مردم گزیدہ'' ہوں
بہر حال اس دانشور نے جواب یوں دیا تھا کہ انڈے اور مرغی میں کوئی بھی سینئر یا جونیئر نہیں ہے دونوں ایک ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ مرغی جب پیدا ہوئی تو انڈا بھی اس کے پیٹ میں تھا لیکن بعد میں اس جواب کے ''پیٹ'' ہی سے بہت سارے سوال نکل آئے اور ان تمام سوالوں کے پیٹ میں جوابات تھے اور جوابات کے پیٹ میں سوالات یعنی مرغی کے پیٹ میں انڈا اور پھر انڈے کے پیٹ میں مرغی اور مرغی کے پیٹ کے اندر ۔۔۔۔ اب کوئی کہاں تک جائے ،آگے پھر وہی مرغی میں انڈہ اور انڈے میں مرغی کا جواب اور اس کے پیٹ میں یہ سوال کہ ایک دوسرے کے پیٹ میں پہلے کون؟
لیکن آج کا ہمارا موضوع نہ انڈہ ہے نہ مرغی نہ ہی مرغا بلکہ ان سب کو اپنے پیٹ میں ''پہنچانے والا'' ہے آپ اسے جانتے ہوں گے اگر نہیں جانتے تو کسی بھی آئینے سے معلوم کر سکتے ہیں یا کسی چلو بھر ''نا صاف پانی'' میں دیکھ کر پتہ لگا سکتے ہیں اورپھر اسی چلو بھر پانی میں ڈوب بھی سکتے ہیں۔
ان تمام سوالوں کے ''جواب'' اور پھر ان تمام جوابوں کے سوال حضرت ''انسان'' پر بات ٹھہر تو جاتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی کہ خود اس کا بھی وہی انڈے اور مرغی کا معاملہ ہے۔ کہ پہلے یہ پیدا ہوا تھا یا اس کا نصیب پہلے پیدا ہوا اور پھر اس کے لیے اس کی پیدائش ہوئی اس لیے تو اس نے چیخ کر کہا کہ
آسماں بار امانت نہ توانست کشید
قرعٔہ فال بنام من دیوانہ زدند
اور انھی '' من دیوانہ'' میں سے ایک ہم بھی ہے جسے آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ اپنی بد نصیبی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے یا بد نصیبی اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
بات اگر یہیں تک ہوتی تو پھر بھی ہم اتنا دکھی نہ ہوتے کہ قسمت، حکومت اور بیوی کسی کے بھی بس یا پسند کے نہیں ہوتے لیکن دکھ ہمارا یہ ہے کہ ہماری قسمت باؤلے کتے کی طرح ہر اس شخص کو بھی کاٹ لیتی ہے جو یا ہمارے نزدیک آتا ہے یا ہم کسی کے قریب جاتے ہیں اکثر کو تو احساس تک نہیں ہوتا کہ ان پر جو آفت پڑی ہے کیوں پڑی ہے ورنہ وہ اب تک ہمارا نہ جانے کیاکیا کر چکے ہوتے دوسروں کا کاٹ کھانے کے لیے ہماری بد قسمتی اتنی تیز ہے کہ اگر کسی کے ساتھ علیک سلیک بھی کر لیتے ہیں تو پھر مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے رہتے ہیں کہ ہماری ، قسم کی بدقسمتی اسے لاحق ہوئی یا نہیں ہوتی تو ضرور رہے لیکن کسی کو فوراً جسے ہم دیکھ لیتے ہیں اور کسی کو بعد میں جسے دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں جن جن لوگوں کو اس بات کا پتہ چل چکا ہے وہ تو ہماری صحبت سے یوں بھاگتے ہیں جسے جیسے مرشد نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے
سایہ میرا مجھ سے مثل ''دود'' بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے
آپ شاید یقین نہ کریں کہ ہم نے اس ''نصیبی'' کے مارے جو ہمیں لاحق ہے لیکن ہمارے قریب دوسروں کو بھی کاٹ لیتی ہے دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا ہے اور دشمنوں نے ہم سے کہ قربت کے نتائج نہایت سرعت سے نقصان دہ نکلتے ہیں۔
پہلے پہل ہمیں اس بات کا پتہ اس وقت چلا جب ہم دو تین مقامات بڑے خوش و خروش کے ساتھ ملازم ہو کر کام کرنے لگے اور ابھی اس خوشی میں اچھی طرح گا بھی نہ ہو چکے تھے یعنی
غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
لیکن ہماری یہ ''دعا'' اکثر بد دعا بن جاتی اور وہ شاخ نہ رہتی جس پر ہم ابھی آشیانہ بنانے کے لیے ''تنکے'' ڈھونڈ رہے تھے یعنی یا تو وہ کمپنی ڈوب جاتی یا مالک دیوالیہ ہو جاتا، اور حکومت کا وہ محکمہ یا شاخ ختم ہو جاتی اس طرح آٹھ دس لوگوں کو دیوالیہ اور پھر دیوانہ چار پانچ کمپنیوں کو ڈبونے اور دو چار مہر بان افسروں کو درد بدر کرنے کے بعد ہمیں اپنے اوپر اور اپنے نصیب پر شک ہوا تو تحقیق پر پتہ چلا کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی مثالات تو بہت ہیں لیکن اندازہ اس سے لگائیں کہ جب سے ہم پاکستان کو لاحق ہوئے ہیں تب سے اب تک کیا کیا بلکہ کیا یکا کچھ نہیں ہوا سب سے پہلے تو یہ دیکھئے کہ ہمارا روپیہ جو ایک زمانے میں روپیہ کہلاتا تھا اور پاس پڑوس والے ملکوں کے ''سکوں'' کے درمیان ایسا گھڑا کھڑا رہتا تھا کہ وہ اس کے گھٹنے تک بھی نہیں آتے تھے۔
مثلاً افغانستان کا سکہ اور اس دوسری طرف والے منحوس پڑوسی کے ''سکّے'' صفر کی طرح ہوتے اور درمیان میں ہمارا ''سکہ'' 1کی صورت میں کھڑا ہوتا یوں (0/0) لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ بڑھتے گئے اور ہم گھٹتے گئے ہمارے میں ایک شخص تھا وہ ہو بہو ہمارے ''روپے'' کی طرح تھا یا ہمارا روپیہ ہی اس پر گیا ہے اس کے بارے میں اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ جب پیدا ہوا تو اسی سال کا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس کی عمر بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگی ستر سال کی عمر میں یہ اسکول میں داخل میٹرک کرنے کے بعد اس کی عمر ساٹھ سال ہو گئی اور شادی کے وقت یہ پچاس سال کا ہو گیا تھا پہلا بیٹا 45سال کی عمر میں پیدا ہوا اور جب اس کے بڑے بیٹے کی شادی تھی تو یہ 35کا تھا۔ یو آہستہ آہستہ جب پوتاپوتی کے مرحلے میں پہنچا تو پندرہ سال کا ہو چکا تھا آج کل اس کی عمر پانچ سال بتائی جاتی ہے نہ اس کا کوئی بال کالا رہ گیا ہے اور نہ منہ میں کوئی دانت باقی رہا ہے ظاہر ہے کہ جس دن مرے گا وہی اس کی پیدائش کا دن ہوگا اور کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ وہ دن اس کی یوم پیدائش کہے یا یوم وفات اور بچوں کو بھی تشویش ہے کہ بعد میں وہ ایک ہی دن اس کی سالگرہ منائیں گے یا برسی۔
ہمارا یہ سکہ آج کل اس سابقہ پوزیشن سے بدلتے بدلتے ایسا ہو چکا ہے(101) ہوچکا ہے اور ہم حیران ہے کہ اسے کہیں تو کیا کہیں اور کہیں گے تو کیسے کہیں گے روپیہ تو اسے کہہ نہیں سکتے کہ روپے تو اس کے دائیں بائیں کھڑے صاف نظر آرہے ہیں اس کے نیچے کے سکیّ جو کبھی ہوا کرتے تھے وہ بھی نہ کہہ سکتے کہ اب نہیں نہ کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا ہے اور اس کی وہ اولایں بازار سے جتنی چیزیں اٹھا کر لاتے تھے اتنی چیزیں لانے کے لیے یہ نہ جانے اپنے جیسے کتنوں کو لے کر جائے گا بچارا تو اب خود بھی اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے بلکہ اس کا نام تک بھی نہ رہا زبانوں پر البتہ داستانوں میں کہیں کہیں اس کا نام آجاتا ہے وہ بھی کسی مرحوم کی طرح۔
اب اس سے زیادہ بڑا ثبوت اپنی بد نصیبی کا اور ساتھ آپ سب کا اور کیا پیش کر سکتے۔ کہ ڈربنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا حاصل
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے