الیکشن کمیشن سے مطالبہ اور ہماری اقلیتیں
کل پھر گیارہ اگست ہے اور ایک بار پھر ملک بھر میں ’’یومِ اقلیتاں‘‘ منایا جارہا ہے۔
خیر سے ایسے کرموں والے الیکشن ہُوئے ہیں کہ کوئی بھی خوش اور مطمئن نہیں ہے۔ جو بظاہر جیتے ہیں، وہ بھی قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے لیے پریشاں اور سرگرداں ہیں۔ انتخابات مکمل ہُوئے آج 17 دن ہو چکے ہیں لیکن فتح کی کوئی حتمی شکل کسی کے سامنے بھی نہیں آ رہی۔ دو صوبوں میں جہاں دو پارٹیوں کی واضح اکثریت کا ظہور ہُوا ہے، وہاں بھی ہنوز کوئی حکومت بوجوہ تشکیل نہیں پا سکی ہے۔
ہر شخص سراپا سوال ہے کہ یہ کس قسم کے انتخابات ہُوئے ہیں؟ ووٹ دینے والے بھی پریشان ہیں اور ووٹ لینے والے بھی۔ایک کنفیوژن ہے جس نے تقریباً ہر شخص کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی، نون لیگ، جے یو آئی ایف، اے این پی، جماعتِ اسلامی وغیرہ تو مبینہ دھاندلی کا ڈھول بجا ہی رہے ہیں، پی ٹی آئی بھی شکوے کرنے والوں میں شامل ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے معروف سینیٹر، اعظم خان سواتی، نے تو باقاعدہ سینیٹ میں انتخابات کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ مبینہ دھاندلی کے اِ س شور میں چوہدری غلام عباس کی بپتا سب سے منفرد اور انوکھی ہے۔ غلام عباس بھٹو صاحب کے عاشقِ صادق رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں کئی برس لاہور کے شاہی قلعہ میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
سابق رکن اسمبلی بھی رہے اور وزیر بھی۔ بقول اُن کے، جناب زرداری کی ''مہربانیاں '' اُن پراتنی ہُوئیں کہ وہ پیپلز پارٹی ہی سے کنارہ کش ہو گئے۔ تازہ انتخابات سے صرف چند دن قبل عمران خان کی پُر شوق دعوت پر وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے انھیں این اے74 (سیالکوٹ تین) کا ٹکٹ دیا گیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ چوہدری غلام عباس کی انتخابی مہمات اسقدر بھرپور تھیں کہ زبان زدِ خاص و عام یہ تھا کہ اُن کی جیت تو وَٹ پر پڑی ہُوئی ہے۔ اُن کے مدِ مقابل سابق وفاقی وزیر، زاہد حامد، کا بیٹا ( علی زاہد) تھا۔ نون لیگ کے ٹکٹ پر ۔ بقول غلام عباس، 25 اور26 جوالائی کی درمیانی شب وہ تیرہ ہزار ووٹوں کی لِیڈ سے جیت رہے تھے۔ ٹی ویوں پر بھی اُن کی فتح اناؤنس ہو رہی تھی۔
صبح سحری کے وقت (بقول اُن کے) ووٹوں کی گنتی کرنے والے ذمے داران نے اُن سے کہا:''چوہدری صاحب، آپ جیت رہے ہیں، پیشگی مبارک، آپ اطمینان سے گھر جائیں اور آرام کریں۔ '' دوسرے روز اُن کے حریف کو تین ہزار ووٹوں کی اکثریت سے فاتح قرار دے دیا گیا۔ غلام عباس نے سُنا تو سناٹے میں آگئے۔ وہ اب اسلام آباد اور لاہور کے پریس کلبوں میں صحافیوں کے رُوبرو اپنی بِپتا سُنا رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ کیا اور کیسے دھاندلی ہُوئی ہے۔ کئی نجی ٹی ویوں پر بھی اُن کا واویلا سنائی دیا گیا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ تاخیر سے پہنچائے جانے والے ووٹوں کے تھیلوں میں سیکڑوں لفافے بغیر سِیل، کھلے ہُوئے تھے اور جب ووٹوں کا معائنہ کیا گیا تو ووٹوں پر لگائی گئی مہروں کی شکلیں بھی مختلف تھیں۔ سرکاری مہر سے قطعی مختلف۔ اُن کے پاس ووٹوں پر لگائی ان مہروں کے عکس بھی ہیں۔
وہ صحافیوں کو متعلقہ آراو کی لکھی گئی وہ تحریر بھی دکھا رہے ہیں جس میں مبینہ طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ جن ووٹوں کے لفافوں کو سربمہر ہونا چاہیے تھا، سر بمہر نہیں تھے۔ غلام عباس اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن وہاں اُن کی فریاد سُننے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنا کیس عدالت میں بھی لے جا چکے ہیں ، لیکن اِس کہانی کا اَنت کیا ہو گا، کوئی نہیں جانتا ۔ غلام عباس کو مگر یقین ہے کہ اُن کا کیس اتنا مضبوط ہے کہ اُن کے حلقے میں دوبارہ الیکشن ضرور ہوگا۔
غلام عباس کا تعلق جس ضلع(سیالکوٹ) سے ہے،وہاں اور اس کے آس پاس کے تمام اضلاع (وسطی پنجاب)میں80فیصد سیٹوں پرپی ٹی آئی ہار گئی ہے ۔ نون لیگ مگر سینہ کوبی کررہی ہے کہ اُس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے، حالانکہ ہاتھ تو پی ٹی آئی سے ہُوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتی ہے تو اُسے سیریس ہی نہیں لیا جارہا۔ اب تو عمران خان اور فواد چوہدری بھی آن دی ریکارڈ شکوہ کناں نظر آرہے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنرسے تو ہمارے عزت مآب چیف جسٹس صاحب کا شکوہ بھی سامنے آگیا ہے۔
لاہور میں ''تحریکِ لبیک'' نے بھی الیکشن کمیشن کے خلاف مظاہرہ کر دیا ہے۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم ایم اے سمیت چھوٹی بڑی 13جماعتوں نے متحد ہو کر آٹھ اگست کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرکزی دفتر کے سامنے مبینہ دھاندلی کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ راقم نے خودبھی یہ مظاہرہ دیکھا ہے۔ مظاہرین کی تعداد متاثر کُن نہیں تھی۔ توقعات کے بالکل برعکس۔ جوش اورولولے سے قطعی خالی۔ وجہ شائد شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو، سراج الحق اور اسفند یار ولی خان کی عدم شرکت تھی۔ الیکشن کمیشن کے سامنے مگر تیرہ جماعتوں کا متحد ہو کر مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر احتجاج کنندگان کی طرف سے یہ مطالبہ کرنا کہ چیف الیکشن کمشنر کو مستعفی ہونا چاہیے۔عمران خان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ہی یہ مظاہرے نیک شگون نہیں ہیں۔
نوٹ : گیارہ اگست کو سب اہلِ پاکستان ''یومِ اقلیتاں'' مناتے ہیں۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم علیہ رحمہ کی 11اگست والی تاریخ ساز تقریر سے اِس کاحوالہ کشید کیا جاتا ہے۔ اِس دن کی خاص انفرادیت اور ممتاز حیثیت یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی تما م اقلیتوں کے تمام متعلقین کو وہی مساوی حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کے اکثریتی شہریوں کے ہیں۔ انھیں اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی بھرپورآزادیاں حاصل ہیں۔ سیاست و معیشت میں کہیں بھی اُن سے امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا۔ ہمارا آئین پوری طاقت کے ساتھ اُن کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔ کم ہی ایسی سنگین شکایات سامنے آتی ہیں جو اِس امر کی نشاندہی کرتی ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی کہیں بے حرمتی یا پامالی کا کوئی واقعہ رُونما ہُوا ہے۔
ہماری تمام اقلیتیں پاکستان کی حدود میں محفوظ ہیں۔کل پھر گیارہ اگست ہے اور ایک بار پھر ملک بھر میں ''یومِ اقلیتاں'' منایا جارہا ہے۔ یہ حسین اتفاق ہے کہ اِس بار ''مینارٹیز ڈے'' ایسی تاریخوں میں آیا ہے جب ساری قوم ابھی ابھی عام انتخابات سے فارغ ہُوئی ہے۔ اطمینان اور مسرت کی بات ہے کہ ان انتخابات میں اقلیتی برادری کے کئی لوگ براہِ راست الیکشن جیت کر اسمبلیوں کا حصہ بنے ہیں۔ انفرادیت یہ بھی ہے کہ جیتنے والے یہ اقلیتی افراد اُن علاقوں سے فتحیاب ہُوئے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اکثریتی مسلمان برادری کے لوگوں نے اقلیتی اُمیدواروں کو ووٹ دے کر یکساں محبت اور احترام کا ثبوت دیا ہے۔ مثال کے طور پر مہیش ملانی، ہری رام کشوری اور گیا ن چند ایسرانی۔ یہ تینوں معزز افراد ہندو ہیں ۔
سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور 25جولائی کے عام انتخابات میں براہِ راست الیکشن لڑ کر جیتے ہیں۔ ساری قوم کی طرف سے انھیں مبارکباد۔ مہیش ملانی صاحب نے ضلع تھرپارکر کے حلقہ این اے 222سے ایک لاکھ چھ ہزار چھ سوتیس ووٹ لیے ہیں۔ انھوں نے ارباب ذکاء اللہ ایسے طاقتور اور دولتمند شخص کو شکست دی ہے۔ ہری رام کشوری ، جو آصف زرداری کے دوست خیال کیے جاتے ہیں، نے سندھ کے ضلع میرپور خاص (حلقہ پی ایس147)سے اپنے سیاسی حریف( مجیب الحق) کو ہرایا ہے۔ فاتح اور شکست خوردہ اُمیدواروں کے ووٹوں میں دس ہزار ووٹوں کا فرق ہے۔ جامشورو( حلقہ پی ایس 81) سے گیان چند ایسرانی نے ملک چنگیز خان کو آٹھ ہزار ووٹوں کی لِیڈ سے شکست دی ہے۔
اِن افراد کی کامیابی پر غیر ملکی میڈیا میں پاکستان کی بجا طور پر تعریف وتحسین کی گئی ہے۔ بھارتی میڈیا، جس نے ہمیشہ پاکستان کی تنقیص ہی کی ہے، بھی تازہ انتخابات میں اقلیتوں کی کامیابی پر پاکستان کے انتخابی نظام کی تعریف کیے بِنا نہیں رہ سکا ہے۔ مارچ2018ء میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں سندھ ہی سے ایک محترم ہندو خاتون ، کرشنا کماری کوہلی، منتخب ہُوئی تھیں۔ لاریب پاکستان میں اقلیتوں کو جو حقوق اور آزادیاں حاصل ہیں، بھارت میں موجود تمام اقلیتیں تو اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل یہ آزادیوں ہی کا کمال ہے کہ اِس بار اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں میں 30فیصد اضافہ ہُوا ہے۔