ملکی مفاد مد نظر رہے

ہمارے کچھ قارئین ضرور یہ کہیں گے کہ احتجاج کرنا اور غلطی دور کرنے کا مطالبہ ہر شہری کا قانونی حق ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid August 10, 2018
[email protected]

انتخاب 2018 کے انعقاد کو آج سولہ دن ہوچکے ہیں۔ مگر نتائج کو تسلیم کرنے پر تقریباً تمام سیاسی جماعتیں (سوائے پی ٹی آئی یا اکا دکا چھوٹی جماعتوں کے) حسب روایت یا حسب سابق تیار نہیں۔ اس سلسلے میں مظاہرے، احتجاج اور بیانات کا طوفان برپا ہے۔

ابتدائی نتائج پر جب شک و شبہے کا اظہار کیا گیا تھا تو فاتح ٹیم کے کپتان نے اپنی پہلی تقریر (فاتح تقریر) میں بڑے اعتماد سے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''جن حلقوں پر اعتراض سامنے آئے گا ہم انھیں کھلوائیںگے'' لہٰذا متاثرین نے کچھ حلقوں میں دوبارہ گنتی اور کچھ کے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کرانے کا مطالبہ کیا جو ایک طرح سے افسوسناک مطالبہ ہے۔ وہ اس لیے کہ جس ملک کا خزانہ خالی ہو اور وہاں کے انتخابات پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہو وہاں ایسا مطالبہ یقینا اپنے ملکی حالات سے یا تو بے خبری یا صرف اپنے مفادات کا دفاع ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

ہمارے کچھ قارئین ضرور یہ کہیں گے کہ احتجاج کرنا اور غلطی دور کرنے کا مطالبہ ہر شہری کا قانونی حق ہے۔ ہم اس کے سختی سے قائل ہیں مگر ہم کیونکہ عوام میں شامل ہیں ''محدود آمدنی میں گزر بسر کرنے والے'' لہٰذا جب کروڑوں بلکہ اربوں کی بات آتی ہے تو کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس سیاست دانوں کے لیے اربوں روپے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے، وہ تو ایک نشست کے لیے بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور جب اخراجات کا گوشوارہ جمع کراتے ہیں تو 33 تا 38 لاکھ ظاہر کیے جاتے ہیں۔ وہ بھی اس لیے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اخراجات کی ایک حد مقرر ہے۔

یہ دوسری بات ہے کہ ایک عام پینٹر، ڈیکوریشن کا سامان مہیا کرنے والا، ساؤنڈ سسٹم والا بھی اپنی اپنی جگہ حساب کتاب کے بعد کسی بھی امیدوار کے اصلی اخراجات کی حتمی رقم بتا سکتا ہے مگر ہمارے ذمے داران جانے عالمی جنگوں سے قبل کے زمانے میں رہ رہے ہیں کہ جب ایک روپے کا پانچ سیر اصلی گھی ملتا تھا جب سونا صرف 20 روپے تولہ تھا اسی لیے تو وہ بلاول ہاؤس کی 30،40 لاکھ قیمت پر مطمئن ہوگئے (اس ساری بات کا مطلب آپ سب سمجھ گئے ہوںگے کہ ہمارے یہاں کچھ بھی درست نہیں ہوتا) اس لیے قانونی حق ہونے کے باوجود ایسا مطالبہ بہر حال ملکی مفاد میں نہیں۔

جہاں تک انتخابات میں دھاندلی کا تعلق ہے تو اس کا شور تو ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے بلکہ ایک بار تو چند حلقوں کے انتخابات پر اس قدر احتجاج کیا گیا تھا کہ واضح اکثریت سے جیتنے والے کو ان احتجاج کرنے والوں نے تختہ دار تک پہنچا کر دم ہی نہیں لیا بلکہ سکھ کا سانس لے کر آرام سے اپنی اپنی خواب گاہوں میں جاکر ایسی لمبی تان کر سوئے کہ ملک میں امیر المومنین (معاذ اﷲ) مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوگئے اور جب جب ان کی ضرورت اقتدار کو ہوئی یہ خواب گاہوں سے شیروانیاں پہن پہن کرنکلے اور اقتدار میں شامل ہوتے گئے۔

اس ''بامقصد احتجاج'' کے نتیجے میں قوم کئی عشروں یرغمال بنی رہی۔ یہی نہیں اس کے اثرات تو آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ پاکستانی معاشرہ اس دوران اس قدر تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہوا کہ اب اگر ترقی کی طرف دوڑانے بھی لگے تو بھی اس سیاہ دور کی تلافی نہ ہوسکے۔ پھر دور کیوں جائیں گزشتہ انتخابات کے بعد خود موجودہ فاتح ٹیم کے کپتان نے اسی دھاندلی پر کتنا شور مچایا تھا۔ طویل دھرنے کے ذریعے دارالحکومت اور پارلیمنٹ کو مہینوں یرغمال بنائے رکھا، چار حلقے کھلواکر بھی مطمئن نہ ہوئے بلکہ اسپیکر ایاز صادق سے تو اب تک مخاصمت چل رہی ہے۔

خیر عمران خان نے ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے ہی بڑی فراخدلی سے اعتراض شدہ حلقے کھولنے پر آمادگی بڑی خوش دلی سے ظاہر کی مگر بعد کی اطلاعات کے مطابق چند حلقوں میں دوبارہ گنتی کے دوران نتائج تبدیل ہونے کی صورت میں یہ سلسلہ تقریباً تھم گیا ہے (کیونکہ یہ نتائج پی ٹی آئی کے خلاف آئے تھے) لہٰذا انتخابات میں ناکام یا کم نشستیں حاصل کرنے والے ایک نکتے پر (دھاندلی پر) متحد ہورہے ہیں اور احتجاج کا ہر طریقہ (جلسے جلوس، مظاہرے، عدالتی کارروائی) اختیار کرنے پر تیار ہیں۔ کچھ عاقبت نا اندیشوں کی طرف سے ایوان میں حلف نہ اٹھانے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ شکر ہے کہ اکثریت (مخالفین کی) نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔

حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی طرف سے اگرچہ انتخابات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے مگر الیکشن کمیشن نے انتخابات کو اب تک ہونے والے تمام انتخابات سے زیادہ شفاف، پر امن اور غیر جانب دار قرار دیا ہے۔ حلقے کھلوانے کی بہت سی درخواستیں مسترد بھی کردی ہیں۔

مخالف جماعتوں میں سے اکثر اعلانیہ طور پر پی ٹی آئی کی کامیابی کو اسٹیبلشمنٹ کی کارکردگی قرار دے رہی ہے۔ راؤ منظر حیات جو ایک سینئر کالم نگار ہی نہیں بلکہ سیاسی اور سرکاری اندرونی و بیرونی حالات کا مشاہدہ و تجربہ بھی رکھتے ہیں اپنے کالم میں اس خدشے بلکہ شبہے پر تفصیلی روشنی دلائل کے ساتھ ڈال چکے ہیں ان کا کالم پڑھ کر بات ہماری عقل میں بھی آگئی ہے۔

لیکن الیکشن کمیشن کی کارکردگی بہر حال قابل توجہ ضرور ہے، مانا کہ انتخابات پر امن ہوئے مگر کمیشن کی کارکردگی پر جو انگلی اٹھائی جارہی ہے اس کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا، اگر بقول سیکریٹری الیکشن کمیشن یہ انتخابات ہمیشہ سے زیادہ پر امن تھے تو ہمیشہ سے زیادہ مہنگے بھی تو تھے، اتنا خرچ کرکے بھی آخر خامیاں کیوں اور کیسے رہ گئیں۔ مثلاً فارم 45 کے بجائے سادہ کاغذ پر نتائج دینا، آر ٹی ایس کا اس قدر جلد بیٹھ جانا اس کا مطلب ہے کہ پہلے اس کی کارکردگی کو چیک ہی نہیں کیا جاسکا تھا، چلے مان لیتے ہیں کہ یہ خلاف توقع ہوگیا، مگر جماعتی ایجنٹوں کو گنتی کے وقت باہر نکال دینا یہ کس قانون کے تحت اور کس کے اشارے پر کیا گیا؟

یہ سب بھی چھوڑیے کراچی میں کچرا کنڈی سے جلے ہوئے بیلٹ پیپرز ملنے کے بعد ایک اسکول سے اور پھر کے پی کے میں بھی کوڑے سے بیلٹ پیپرز کا ملنا جس کے بارے میں یہ اطلاع شایع ہوئی کہ ان پر نہ مہر تھی نہ کسی متعلقہ آفیسر کے دستخط گویا یہ انتخابی عملے کی طرف سے جاری ہی نہیں کیے گئے تھے اس بیان سے کیا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے۔ اگر یہ انتخابی عملے کی طرف سے جاری ہی نہیں ہوئے تو پھر پولنگ بوتھ بلکہ پولنگ اسٹیشن سے باہر ان کا آنا کیا غیر ذمے داری کے زمرے میں نہیں آتا؟ اور اب عذرداریوں کو نظر انداز کرنا، آخر یہ سب کیا ہے۔ عمران خان خود حلقے کھلواکر بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوئے تھے۔

تو وہ دوسروں کو مطمئن کیے بنا خود کیسے آرام سے حکومت کرسکیںگے۔ یہ سب ایک طرف اب عمران خان کو حلف اٹھانے کی مشروط اجازت دینا الیکشن کمیشن کی بروقت بہترین کارکردگی پر سوال نہیں ہے کیا؟ کچھ قومی اور کچھ صوبائی نتائج کیوں روکے گئے؟ کچھ تو ایسا ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس سب کی ذمے داری بہر حال الیکشن کمیشن پر ہی عاید ہوتی ہے۔

اس ساری صورتحال سے سب تذبذب کا شکار ہیں۔ مگر ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے عاجزانہ گزارش ہے کہ اپنے خدشات، اعتراض کا اظہار کریں مگر اس کا رخ ذاتی مفاد اور انا کی بجائے ملکی مفادات اور عالمی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ راستہ نہ اختیار کریں کہ خدا نخواستہ وطن عزیز پر کوئی آنچ آئے یا پھر کوئی طویل سیاہ رات ہمارا مقدر بن جائے۔ دانشورانہ فیصلوں کی ضرورت ہے جذباتیت کو بالائے طاق رکھ کر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں