لہریں گننے کے شوقین
سمندرکی لہریں گننے پر بھی راضی شیخ رشید نے نہیں سنا ہوگا کہ ایک تھانیدار کرپشن میں بہت بدنام تھا۔
پی ٹی آئی کی مدد سے کامیاب ہونے والے عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے رکن قومی اسمبلی شیخ رشید کو موجودہ قومی اسمبلی میں سینئر ترین رکن پارلیمنٹ بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے جو آٹھویں بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سات بار وفاقی وزیر رہ چکے ہیں ، نومبر میں وہ 66 سال کے ہوجائیں گے اور عمران خان سے اپنے لیے کوئی وزارت نہیں مانگیں گے اگر عمران خان نے انھیں وزارت دی تو قبول کرلیں گے اور اگر عمران خان نے انھیں لہریں گننے کی ذمے داری بھی سونپی تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں ۔ شیخ رشید بلاشبہ بولنے کی طاقت سے مالا مال ہیں اور ہمیشہ ٹی وی چینلز پر تنہا ہی براجمان ہوتے ہیں ۔ ملکی حالات اور سیاست سے متعلق ان کی بہت سی باتیں درست بھی ثابت ہوئی ہیں اور عوامی مسائل سے متعلق بھی ان کی باتیں انھیں سننے والوں کے دل کو لگتی ہیں اور وہ خود کو فرزند راولپنڈی کے ساتھ حقیقی عوامی رہنما قرار دیتے ہیں۔
شیخ رشید اپنے شہر میں عام لوگوں کے ساتھ تھڑوں پر بیٹھے نظر آئے اور ان کا عوامی طرز بھی مشہور ہے۔ عوامی سطح پر ان میں غرور و تکبر بھی نہیں پایا جاتا۔ شیخ رشید پرانے مسلم لیگی اور میاں نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی رہے ہیں۔ 1989 میں وہ میاں نواز شریف کے اتنے قریب تھے کہ میاں صاحب جب وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت میں ایم کیو ایم کے شارع قائدین کے جلسے میں شرکت میں آئے تھے تو وہ اور چوہدری شجاعت حسین ان کے ہمراہ تھے اور اگلے روز یہ دونوں میاں نواز شریف کے ساتھ میرے آبائی شہر شکارپور حاجی مولا بخش سومرو کی وفات پر تعزیت کے لیے آئے تھے اور راقم کی تینوں سے میڈیا ٹاک میں ملاقات ہوئی تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف کے یہ دونوں انتہائی قریبی ساتھی اب میاں نواز شریف کے ساتھ نہیں ہیں اور چوہدری شجاعت کے برعکس شیخ رشید احمد اب میاں نواز شریف کی مخالفت میں ہر حد عبور کر گئے ہیں ۔ دونوں کی میاں صاحب سے یہ دوری جنرل پرویز مشرف کے دور میں شریفوں کی جلاوطنی سے شروع ہوئی جس کی وجہ یہ دونوں ہی نہیں بلکہ خود نواز شریف بھی ہیں جنھوں نے اپنے دیرینہ ساتھیوں کی قدر نہیں کی اور دونوں دل برداشتہ ہوکر نواز شریف سے دور ہوتے گئے۔
شیخ رشید مسلم لیگ سے اب تک جڑے ہوئے ہیں وہ جنرل پرویز دور میں مسلم لیگ(ق) کی حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہے اور بعد میں انھوں نے اپنی عوامی مسلم لیگ بنائی جس کے وہ واحد نمایاں رہنما ہیں ۔ شیخ رشید کے حامیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو عوامی مسلم لیگ کے کارکن تو نہیں مگر ان کے حامی ہیں اور انھیں ووٹ بھی دیتے ہیں اور ناراض ہوں تو انھیں مسترد بھی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ متعدد بار شکست سے بھی دوچار ہوئے ہیں۔
میاں نواز شریف جب دوسری بار وزیر اعظم بنے تھے تو انھوں نے اپنی کچن کابینہ میں شیخ رشید کو شامل نہیں کیا تھا بلکہ چوہدری شجاعت اور چوہدری نثارکو شیخ رشید احمد پر فوقیت دی تھی حالانکہ بے نظیر حکومت میں انھیں گرفتار بھی کیا گیا تھا اور وہ بہاولپور جیل میں رہے تھے۔
نواز شریف کی پہلی حکومت میں شیخ رشید کے ساتھ اعجاز الحق بھی شامل تھے اور دونوں بے نظیر دور میں گرفتار بھی ہوئے تھے مگر نواز شریف نے ابتدائی کابینہ میں دونوں کو نظر انداز کیا جس کا دونوں کو دکھ تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جب اپنی کابینہ میں توسیع کی اور دونوں کو شمولیت کی دعوت دی تو شیخ رشید فوراً وزیر بن گئے تھے مگر اعجاز الحق نے شامل ہونے سے اس لیے انکار کردیا تھا کہ انھیں پہلے کابینہ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا جس کے بعد اعجاز الحق (ق) لیگ کی حکومت میں شامل ہوئے مگر نواز شریف کا حامی ہوتے ہوئے بھی وہ نواز شریف حکومت میں شامل نہیں ہوئے۔
گزشتہ کئی برسوں سے اب شیخ رشید پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے انتہائی قریبی وہ ساتھی ہیں جو پی ٹی آئی میں نہیں ہیں اور ماضی میں عمران خان انھیں کونسلری کا اہل سمجھتے تھے نہ وہ ان کی سیاست پسند کرتے تھے مگر شیخ رشید نے پی ٹی آئی کے متعدد بڑے جلسوں سے خطاب کیا اور وہ پھر عمران خان کے وزیر بننے جا رہے ہیں ۔ انھوں نے روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ انھیں جو بھی وزارت ملی اس پر پوری قوم کی خدمت کروں گا چاہے عمران خان مجھے سمندرکی لہریں گننے پر لگا دیں اپنا کام کروں گا۔
سمندرکی لہریں گننے پر بھی راضی شیخ رشید نے نہیں سنا ہوگا کہ ایک تھانیدار کرپشن میں بہت بدنام تھا اور رشوت لینے سے باز نہیں آتا تھا جس پر ایس پی نے اسے دور دراز علاقے میں دریا کی لہریں گننے پر لگا دیا جس پر وہ پہلے تو پریشان ہوا پھر اس نے رشوت وصولی کا طریقہ ڈھونڈ لیا اور دریا پر جاکر لہریں گننے لگا اور جب کوئی کشتی یا لانچ وہاں سے گزرنا چاہتی تو وہ انھیں منع کردیتا کہ یہاں سے گزرنے کی وجہ سے اس کا لہریں گننے کا کام متاثر ہوتا ہے اور وہ لہریں درست طریقے سے نہیں گن پاتا۔ یہ مسئلہ دیکھ کر دریا سے گزرنے کے خواہشمندوں نے مجبوری میں وہاں سے گزرنے کے لیے تھانیدار کو رشوت دینی شروع کردی اور تھانیدار کی کمائی شروع ہوگئی۔
عمران خان اب ان سے سمندر کی لہریں کیسے گنوائیں گے یہ تو پتا نہیں مگر ان کی وزارت پکی لگتی ہے اور دس سال بعد وہ پھر وزیر بن جائیں گے اور انھوں نے پھر پیش گوئی کردی ہے کہ نواز شریف حوصلہ ہار چکے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد جلد ٹوٹ جائے گا اور مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک اٹھ رہا ہے۔
شیخ رشید نے 5 سال قبل ڈالر ایک سو روپے کا ہوجانے کی شرط پر قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اور اسحق ڈار تو ڈالر 98 روپے کی سطح پر لے آئے تھے مگر شیخ رشید مستعفی نہیں ہوئے تھے مگر ڈار نے انھیں استعفیٰ دینے کا نہیں کہا تھا۔