اسلام اور عورت پہلا حصہ

باپ کی اولاد ہے۔ انسانی روح رکھتی ہے۔ فطرتاً نیک ہے۔ مرد کے راحت و سکون کا سامان اور محبت و رحمت کا خزینہ ہے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

(الف) عورت اور انسان: طلوع آفتاب اسلام کے ساتھ تاریکی کا سفر جس میں انسان ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا اختتام کو پہنچا اور روشنی کے سفرکا آغاز ہوا ۔ آفتاب اسلام کی روشنی میں جب عورت کو دیکھا تو انسان کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ ''خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا'' عورت سے متعلق پہلی بار علم ہوا کہ وہ بھی مرد کی طرح انسان ہے۔ باپ کی اولاد ہے۔ انسانی روح رکھتی ہے۔ فطرتاً نیک ہے۔ مرد کے راحت و سکون کا سامان اور محبت و رحمت کا خزینہ ہے۔ اس کی پیشانی پر ذلت، داسی، غلامی اور نحوست کا پیدائشی داغ نہیں۔ اخوت، مساوات اور حریت مرد کی طرح اس کا بھی پیدائشی حق ہے۔ اس کی شخصیت حقوق یافتہ ہے۔ بنیادی انسانی حقوق میں وہ مرد کی ہم پلہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

(1 ''اور عورتوں کے لیے بھی اسی طرح حقوق مردوں پر ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں'' (سورۃ البقرہ آیت 28)

(2) ''عورتیں تمہارا لباس اور تم عورتوں کا لباس ہو'' (سورۃ البقرہ آیت 187)

فرمان رسولؐ ہے ''بلا شبہ عورتیں انسانی حقوق میں مردوں کے مساوی ہیں۔''

عورت مجبور نہیں مرد کی طرح مختار ہے۔ جوابدہ اور مسؤل ہے۔ اطاعت کی صورت میں جزا اور بغاوت کی شکل میں سزا کی مستحق ہے۔ وہ انسانی تمدن کی خشتِ اول ہے۔ یہ رتبہ بلند عورت کو اس کی معاشرتی خدمت کے اعتراف میں اسلام نے دیا ہے۔ اس کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہے۔ وہ حسن سلوک کی مستحق ہے، وہ سراپا عز و شرف ہے۔ رسالت نے اس کے مختلف روپ ماں، بیٹی اور بیوی کی عظمت کو سلام کیا ہے۔ اس کی خدمت میں مرد کے لیے عزت بھی ہے راحت بھی، عظمت بھی ہے جنت بھی۔

(ب)عورت اور گھر: عورت جذبات کا زندہ آتش فشاں ہے۔ وہ پھٹ جائے تو ہر اچھائی کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے۔ قوموں کے عروج و زوال میں اس کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ عورت کا تانا بانا زیادہ تر جذبات کے تاروں کا بنا ہوا ہے۔ اس لیے نرم بھی ہے اور نازک بھی۔ قدرت نے افزائش اور پرورش نسل انسانی کی وجہ سے مرد کو کم سے کم اور عورت کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت جذبات ودیعت کیا ہے۔ اس کی مامتا نام ہی گرمیٔ جذبات کا ہے۔ جذبات کی فطرت میں ثبات اور ٹھہراؤ نہیں ہوتا بلکہ تغیر، بہاؤ اور جلدی جھکاؤ ہوتا ہے۔

اس لیے اس کے بچاؤ کے لیے فرمان الٰہی ہے ''اپنے گھروں میں ٹھہری رہیں'' تاکہ اس کی جذباتی توانائی کا ذخیرہ اس کثیر المقاصد عظیم منصوبے پر صرف ہوسکے جو اﷲ علیم و حکیم نے اس کا فطری وظیفہ حیات قرار دیا ہے۔ اس کی اصل منزل مراد گھر ہے جو اس کی جنت بھی ہے اور دوزخ بھی۔ آپؐ نے فرمایا ''عورت اپنے شوہر کے گھر کی راعی ہے اور وہ اپنی متعلقہ رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے'' جس طرح پھول سے چمن کی زینت وابستہ ہے اسی طرح عورت سے گھر کی زینت وابستہ ہے۔ اس کی زندگی شمع کی صورت ہے جس سے گھر کا اجالا ہے۔

وہ بنیادی طور پر خاتون خانہ ہے اور گھر کی ملکہ ہے اس لیے اپنے اندر ایسا ملکہ پیدا کرے کہ اہل خانہ کی خوشی اور آرام خوب سے خوب تر ہوجائے۔ یہی اس کی زندگی کی اصل ہے۔ گھر اس کی زندگی اور بازار اس کی موت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ''عورت پردہ کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کے پیچھے تاک لگائے رہتا ہے'' انسان فطرتاً کمزور واقع ہوا ہے۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اور شیطان انسان کی فطری کمزوری کے باعث اس کے جسم میں خون کی طرح گردش کرکے گمراہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ الا رحمتِ الٰہی جس کو بچالے۔ اس لیے عورت کا اعلیٰ مقام (گھر) سے ادنیٰ مقام (بازار) کی طرف جانے سے غلط راہوں میں کھوجانے، نفس کی بھول بھلیوں میں گم ہوجانے اور اخلاقی اعتبار سے لڑ کھڑانے پھسلنے حتیٰ کہ گرنے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قدیم و جدید مخلوط معاشرے اس حقیقت کے شاہد ہیں۔

مگس کو باغ میں جانے نہ دینا

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

(ج)عورت اور بازار: اس بنیادی حقیقت کے باوجود کہ گھر عورت کا مقامِ قرار ہے بازار اس کے لیے مطلقاً راہ فرار یا شجر ممنوعہ نہیں۔ بازار کے سفر سے مفر ہی نہ ہو تو بحالتِ ضرورت اور مجبوری وہ اس راہ ناپسندیدہ سے زادِ تقویٰ کے ساتھ گزرسکتی ہے۔ مثلاً بیرون خانہ زندگی کی اصل ذمے داری مرد کی ہے لیکن وہ قوامیت کی فرضیت کی ادائیگی کی سکت نہ رکھتا ہو یا حوادثِ زمانہ کا شکار ہوکر سکت کھو بیٹھا ہو اور گھر کے افراد فقیری اور مسکینی کا شکار ہوں تو شریکِ حیات، ضروریاتِ حیات کی کفالت کے لیے اندرونِ خانہ کے ساتھ ساتھ بیرون خانہ کی دہری ذمے داری سنبھال سکتی ہے۔ لیکن اس اضافی ذمے داری کو سنبھالتے وقت کچھ باتوں کا خیال لازمی رکھنا پڑے گا مثلاً:

(1) شعبۂ تدبیر منزل فتنہ و فساد کی آماجگاہ نہ بن جائے۔ خاتونِ خانہ کی عدم موجودگی سے گھر کا خانہ خراب نہ ہوجائے۔ اس کے دور ہونے سے اہل خانہ کی زندگی تاریکی میں نہ ڈوب جائے۔ ایسا نہ ہو:


ایسا اُجڑا ہے امیدوں کا چمن تیرے بعد

پھول مرجھائے، بہاروں پر خزاں چھائی ہے

(2)قوام کی اجازت اور خوشی شاملِ حال ہو کیونکہ فرمانِ رسولؐ ہے ''جب عورت اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلتی تھی تو آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور جن و انس کے سوا ہر وہ چیز جس پر سے وہ گزرتی ہے پھٹکار بھیجتی ہے تاوقتیکہ واپس نہ ہو۔''

(3) اس کا لباس سترِ عورت ہو کشفِ عورت نہیں۔ ستر پوش ہو ستر شکن نہیں۔ جسمانی اعضا کی نمائش ور پیمائش کا پیمانہ نہیں۔ قدرتی سونا کو اور سہانا اظہار کرنے کا بہانہ نہیں۔ فرمان رسولؐ ہے:

(1)جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی ہی رہیں اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کریں اور خود دوسروں کی طرف مائل ہوں وہ جنت میں ہر گز داخل نہ ہوںگی اور نہ اس کی بو پائیںگی۔

(2)اﷲ کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو لباس پہن کر بھی ننگی کی ننگی رہیں۔ لباسِ عریاں، چاک گریباں میں بے حیائی کا اشتہار یا چلتی پھرتی بولتی زندہ متحرک تصویر نہ ہو۔ فرمان الٰہی ہے:

(1) اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے (سورۃ النور آیت نمبر 31)

(2) جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے گروہ میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لیے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ (سورۃ النور آیت 19)

(3) اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو۔ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 32)

(د) مخلوط معاشرہ:جو لوگ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی اجازت یعنی مخلوط معاشرہ کے جواز میں دور کی کوڑی لانے کی کوشش کرتے ہیں اور عہد رسالتؐ اور عہد خلافت کی مثالوں مثلاً عورتوں کی مردوں کے ساتھ مسجد میں شرکت، عورت کے حلقہ درس و تدریس میں مردوں کی شمولیت،عورت کی مردوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں خدمت وغیرہ کو مخلوط معاشرے کے قیام کی حمایت میں بطور دلائل پیش کرتے ہیں وہ یا تو جان بوجھ کر، یا کم علمی یا کوتاہ نظری کی وجہ سے علمی مجالس، مساجد اور جہاد کے ماحول میں انسان کی نفسیاتی، ذہنی اور قلبی کیفیت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ خوفِ خدا اندیشۂ آخرت اور جذبۂ خدمت ان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا رہتا ہے۔

پھر جس معاشرت میں عورتوں نے مردوں کے ساتھ بیرون خانہ زندگی میں فرائض انجام دیے ہیں ۔اس معاشرے کی ایمانی، اخلاقی، روحانی حالت کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب کیوں نہیں لیا جاتا کہ یہ مثالیں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے نسوانی افرادی قوت کو استعمال کرنے کی ایک ہنگامی اجازت ہے، اذنِ عام نہیں ۔

(جاری ہے ۔)
Load Next Story