قربانی کے فضائل اور مسائل
آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ، ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔‘‘
قربانی حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کی سنّت، اسلام کا شعار اور اہم عبادت ہے، قربانی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب اور ضروری ہے، لیکن اس اہم عبادت کے بہت سے مسائل و احکام ہیں، اس مضمون میں فقہ کی مختلف کتب سے اہم اور ضروری مسائل کو جمع کردیا گیا ہے، تاکہ ان کی رعایت رکھی جائے اور تمام مسلمانوں کی قربانی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول بن جائے۔
٭ قربانی کے فضائل
قربانی کا ثواب بہت بڑا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اﷲ تعالیٰ کو پسند نہیں، ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے۔'' (مشکوٰۃ)
آپ ﷺ کا فرمان ہے: '' قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ، ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔''
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: '' قربانی تمہارے باپ ( ابراہیمؑ) کی سنت ہے۔ صحابیؓ نے پوچھا: ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : '' ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ '' اُون کے متعلق فرمایا: '' اس کے ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔''
علاوہ ازیں یہ کہ نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد قربانی کرنے پر ہمیشگی اختیار فرمائی ہے، اور نہ کرنے پر سخت وعید اور تنکیر بیان فرمائی ہے، چناں چہ آپؐ کا ارشاد ہے : '' جو شخص قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں بھی نہ آئے۔'' (الترغیب)
٭ قربانی کی شرائط و ارکان
قربانی کے واجب ہونے کی تین شرائط ہیں : مسلمان ہونا۔ مقیم ہونا اور اتنا نصاب کا مالک ہونا کہ جس کی وجہ سے قربانی کا وجوب لازم ہوجاتا ہے۔ یعنی اس کے پاس رہائشی مکان، کھانے پینے کا سامان، استعمال کے کپڑوں اور روزمرہ استعمال کی دوسری چیزوں کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا نقد روپیہ، مال تجارت یا دیگر سامان ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی ( اس پر سال کا گزرنا ضروری نہیں ہے ) اور قربانی کا رکن اس جانور کا ذبح کرنا جس کا جواز شریعت سے ثابت ہو۔ ( شامی)
وہ عورت کہ جس کے پاس ایک دو تولہ سونا اور چاندی یا نقد روپیہ ہو، تو اس پر بھی قربانی واجب ہوگی اس بارے میں مفتی حضرات کی طر ف ضرور رجوع کیا جائے۔
٭ قربانی کا وقت : قربانی کی عبادت صرف تین دن ( یعنی ذی الحجہ کی دسویں، گیارویں اور بارہویں تاریخ) کے ساتھ مخصوص ہے، البتہ پہلے دن کو کرنا افضل ہے۔
٭ قربانی کی نیت اور دعا: قربانی کرتے وقت زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں، صرف دل ہی میں قربانی کی نیت کر لینا کافی ہے، البتہ زبان سے کہہ لینا بہتر ہے، اور جانور کو قبلہ رخ لٹانے کے بعد ذبح کرنے سے پہلے مسنون دعا پڑھیں۔
٭ ذبح کا مسنون طریقہ
قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا مقصد خاص اﷲ تعالیٰ کی رضا اور تعظیم ہو، اور عبادت کے خیال سے ذبح کرے، گوشت کھانے کے مقصد سے یا لوگوں دکھانے کی غرض سے نہ کرے۔ اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے، اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو کسی اور سے ذبح کرالے لیکن ذبح کے وقت جانور کے سامنے کھڑا رہے اور '' بسم اﷲ، اﷲ اکبر'' کی تلقین کرتا رہے ، تاکہ ذبح کرنے والا غلطی نہ کرے۔
( شامی) جانور کو قبلہ رخ لٹا کر ذبح کرنے والا خود بھی قبلہ کی طرف منہ کر کے مسنون دعا پڑھ لے، پھر اﷲ کا نام لیتے ہوئے شرعی طریقے کے مطابق حلقوم سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دے، لیکن اس کا خیال رکھے کہ گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے اور نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بل کہ حلقوم ( سانس کی نالی ) اور اس کے اطراف کی خون کی دو رگیں کاٹ دے۔ ذبح کرتے وقت اس بات کا پورا اہتمام کیا جائے کہ جانور کو تکلیف کم سے کم ہو، نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : ذبح کرنے سے پہلے چھری تیز کی جائے، ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کیا جائے اور حلقوم وغیرہ پورا کاٹا جائے تاکہ روح نکلنے میں سہولت اور آسانی ہو، اور جانور کے سامنے چھری بھی تیز نہ کرے۔ (مسلم )
٭ قربانی کن جانوروں کی جائز ہے: بکری، بکرا، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، گائے، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی کی قربانی درست ہے ان کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں۔ گائے، بھینس، اونٹ میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو بھی درست ہے، مگر ضروری ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو اور یہ شرط ہے کہ سب کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو، صرف گوشت کھانے کے لیے حصہ رکھنا مقصود نہ ہو، اگر ایک آدمی کی نیت بھی صحیح نہ ہو تو کسی کی بھی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
بکرا، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے۔ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے۔ گائے، بیل، بھینس دو سال کی، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے، ان عمروں سے کم کے جانور قربانی کے لیے کافی نہیں۔ اگر جانوروں کا فروخت کرنے والا عمر پوری بتاتا ہے اور ظاہری حالت میں اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی، اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔ جب کسی جانور کی عمر پوری ہونے کا یقین ہوجائے تو اس کی قربانی کرنا درست، ورنہ نہیں، اور اگر جانور دیکھنے میں پوری عمر کا معلوم ہوتا ہے، مگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ اس کی عمر ابھی پوری نہیں تو اس کی قربانی درست نہیں۔ ( دنبہ اور بھیڑ اس حکم سے مستثنیٰ ہے ان کا حکم اوپر بیان ہوگیا ) یاد رہے کہ جانور کی دانتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرے، عمر کا لحاظ رکھے۔ (کفایت المفتی )
جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہوں یا بیچ میں سے ٹوٹ گیا ہو، اس کی قربانی درست ہے، ہاں! سینگ جڑ سے اکھڑ گیا، جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ ( شامی) جو جانور اندھا یا کانا ہو یا اس کی ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زاید جاتی رہی ہو، یا ایک کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو، تو اس کی قربانی کرنا درست نہیں۔ جو جانور اتنا لنگڑا ہوکہ صرف تین پاؤں سے چلتا ہے، چوتھا پاؤں زمین پر رکھتا ہی نہیں یا رکھتا ہو، مگر اس سے چل نہیں سکتا، تو اس کی قربانی درست نہیں، اور اگر چلنے میں چوتھے پاؤں کا سہارا تو لیتا ہے مگر لنگڑا کر چلتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ ( البحر الرائق ) اگر جانور اتنا دبلا ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ رہا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔
اگر ایسا دبلا نہ ہو تو قربانی درست ہے۔ جانور جتنا موٹا فربہ ہو اسی قدر قربانی اچھی ہے۔ جس جانور کا تہائی سے دم وغیرہ زیادہ کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ ( شامی ) جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔ خصی جانور کی قربانی جائز بل کہ افضل ہے۔ ( شامی ) جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں اس کی قربانی کرنا درست نہیں، اگر کان تو ہوں مگر چھوٹے ہوں اس کی قربانی درست ہے۔ جس جانور کے جسم پر خارش ہو تو اگر خارش کا اثر صرف جلد تک محدود ہو تو اس کی قربانی کرنا درست ہے، اور خارش کا اثر گوشت تک پہنچ گیا ہو اور وہ اس کی وجہ سے لاغر اور دبلا ہوگیا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔ اونٹ، گائے اور بھینس کا اگر ایک تھن خشک ہوا ہو تو اس کی قربانی تو جائز ہے، لیکن اگر دو تھن خشک ہوجائے یا کٹ جائے تو پھر قربانی جائز نہ ہوگی۔
اگر جانور صحیح سالم خریدا تھا، پھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہوگیا، تو اگر خریدنے والا غنی صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لیے اسی عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی صاحب نصاب ہے یعنی اس پر قربانی کا وجوب ہے تو پھر اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے۔ جانور پہلے صحیح سالم تھا لیکن ذبح کے لیے لٹاتے وقت عیب دار ہوگیا تو ایسے جانور کی قربانی میں کوئی حرج نہیں بل کہ جائز ہے۔ قربانی کے لیے افضل اور بہترین جانور یہ ہے کہ وہ خصی ہو، خوب صورت ہو اور صحت مند بھی ہو ۔ نیز قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے تاکہ اس سے محبت ہو اور پھر اس کی قربانی میں ثواب زیادہ ملے۔
٭ قربانی کا گوشت: جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازہ سے تقسیم نہ کرے ورنہ کوئی حصہ کم اور کوئی زیادہ ہونے کی صورت میں سود ہونے کی وجہ سے گناہ ہوگا۔ ( بدائع ) اگر تمام حصے دار ایک جگہ کھاتے ہیں، جدا جدا نہیں تو اس صورت میں گوشت تول کر تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہیں اور سب گوشت کو آپس میں تقسیم نہیں کرتے بل کہ یکجا ہی فقراء و احباب کو تقسیم کرتے ہیں، یا کھانا پکا کر ان کو کھلانا چاہتے ہیں تو بھی جائز ہے اگر تقسیم کریں گے تو پھر اس میں برابری ضروری ہوگی۔ افضل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے رکھے، ایک حصہ احباب و اعزاء میں تقسیم کرے اور ایک حصہ فقراء اور مساکین میں تقسیم کرے، اور جس کے اہل و عیال زیادہ ہو تو تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے۔
( احکام و تاریخ قربانی ) لیکن گوشت بانٹنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ اپنے خرچ کے موافق نکال کر باقی فقراء اور عزیز و اقارب میں تقسیم کردیا جائے۔ اور ان لوگوں کا لحاظ خصوصیت کے ساتھ زیادہ رکھنا چاہیے، جو وسعت اور استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکتے اور یہ جو آج کل ادلا بدلی ہوتی ہے کہ ( جہاں سے گوشت ہمارے ہاں آیا اس کے یہاں ہم بھی پہنچادیں گے ورنہ نہیں، غریبوں کی ضرورت اور حاجت پر نظر نہیں ہوتی ) تو یہ بالکل خلاف عقل ہے۔ اگر گوشت کو تقسیم کرنے سے پہلے تمام شرکاء نے بہ رضا و رغبت کچھ تھوڑا بہت صدقہ کردیا تو یہ جائز ہے۔ (امداد الفتاوی ) کچا گوشت، چربی قسائی کو مزدوری میں دینا جائز نہیں۔ قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہیں۔ ( امداد الفتاوی) مردے کی طرف سے قربانی کرنا درست بل کہ باعث اجر بھی ہے لیکن اگر کسی نے قربانی کی وصیت کی ہو تو اس صورت میں تمام گوشت کا صدقہ کرنا واجب ہے ورنہ نہیں۔
٭ قربانی کی کھال: جب جانور شرعی طریقے سے ذبح کر لیا جائے ، تو جانور کے خوب ٹھنڈا ہونے کے بعد کھال اتار لی جائے ، ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال اتارنا ناجائز و حرام ہے اس سے احتراز لازم ہے ۔ (شامی ) جانور کی کھال احتیاط سے اتاری جائے، اس میں بے احتیاطی گناہ کا سبب بن سکتا ہے، چناں چہ فقہاء نے لکھا ہے کہ بے احتیاطی کرتے ہوئے چھری کے ذریعہ کھال میں سوراخ کرنا یا کھال پر گوشت کا چھوڑنا کھال اتارنے کے بعد اس کی حفاظت نہ کرنا کہ سڑ کر بے کار یا کم قیمت والا بن جائے یہ سب امور اسراف اور تبذیر ( فضول خرچی ) میں داخل ہیں، جس کی ممانعت قرآن مجید میں بھی آئی ہے۔ ( مسائل چرم قربانی و امداد الفتاویٰ ) قربانی کی کھال اپنے اور اہل عیال کے استعمال میں لانا جائز ہے، مثلا جائے نماز ، کتابوں کی جلد، ڈول، دسترخوان، جراب، جوتا وغیرہ کوئی بھی چیز بنا کر استعمال کی جاسکتی ہے، یہ بلا کراہت جائز ہے۔
( شامی) یہ بھی جائز ہے کہ کھال یا اس سے سے بنائی ہوئی چیز کسی کو ہبہ کیا جائے اگر چہ وہ شخص مال دار اور قریبی رشتے دار کیوں نہ ہو۔ ( امداد الفتاویٰ ) لیکن فقراء اور مساکین کو صدقہ کے طور پر دینا مستحب اور افضل ہے، واجب اور فرض نہیں۔ ( مسائل چرم قربانی ) ہاں اگر قربانی کا چمڑا نقد رقم یا کسی چیز کے عوض فروخت کردیا تو ا س صورت میں رقم کی قیمت کا فقراء میں صدقہ کے طور پر دینا واجب ہوگا۔ ( بحر) قربانی کے جانور کی رسی اور جھول کو بھی صدقہ کر دینا چاہیے یہ بھی مستحب ہے (شامی ) قربانی کی کھال کے پیسے مسجد کی مرمت میں یا کسی اور نیک میں لگانا جائز نہیں، بل کہ کسی غریب کو اس کا مالک بنا دینا ضروری ہے۔ (شامی ) قربانی کی کھال قصاب، امام اور مؤذن کو بہ طور اجرت دینا جائز نہیں۔ (شامی) (نوٹ: اگر مذکورہ افراد مستحقین ہیں تو ان کو بلا عوض دینا جائز ہوگا)
قربانی کے جانور میں جتنے لوگ شریک ہوں گے وہ کھال میں بھی اپنے اپنے حصے کے برابر شریک ہوں گے، کسی ایک شریک کو یہ کھال باقی شرکاء کی اجازت کے بغیر اپنے استعمال میں لانا یا کسی اور کو دینا جائز نہ ہوگا۔ ( امداد الفتاویٰ )
بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ خدا تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قربانی کی عبادت صحیح اصولوں کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
مفتی شفیق الدین الصلاح
٭ قربانی کے فضائل
قربانی کا ثواب بہت بڑا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اﷲ تعالیٰ کو پسند نہیں، ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے۔'' (مشکوٰۃ)
آپ ﷺ کا فرمان ہے: '' قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ، ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔''
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: '' قربانی تمہارے باپ ( ابراہیمؑ) کی سنت ہے۔ صحابیؓ نے پوچھا: ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : '' ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ '' اُون کے متعلق فرمایا: '' اس کے ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔''
علاوہ ازیں یہ کہ نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد قربانی کرنے پر ہمیشگی اختیار فرمائی ہے، اور نہ کرنے پر سخت وعید اور تنکیر بیان فرمائی ہے، چناں چہ آپؐ کا ارشاد ہے : '' جو شخص قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں بھی نہ آئے۔'' (الترغیب)
٭ قربانی کی شرائط و ارکان
قربانی کے واجب ہونے کی تین شرائط ہیں : مسلمان ہونا۔ مقیم ہونا اور اتنا نصاب کا مالک ہونا کہ جس کی وجہ سے قربانی کا وجوب لازم ہوجاتا ہے۔ یعنی اس کے پاس رہائشی مکان، کھانے پینے کا سامان، استعمال کے کپڑوں اور روزمرہ استعمال کی دوسری چیزوں کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا نقد روپیہ، مال تجارت یا دیگر سامان ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی ( اس پر سال کا گزرنا ضروری نہیں ہے ) اور قربانی کا رکن اس جانور کا ذبح کرنا جس کا جواز شریعت سے ثابت ہو۔ ( شامی)
وہ عورت کہ جس کے پاس ایک دو تولہ سونا اور چاندی یا نقد روپیہ ہو، تو اس پر بھی قربانی واجب ہوگی اس بارے میں مفتی حضرات کی طر ف ضرور رجوع کیا جائے۔
٭ قربانی کا وقت : قربانی کی عبادت صرف تین دن ( یعنی ذی الحجہ کی دسویں، گیارویں اور بارہویں تاریخ) کے ساتھ مخصوص ہے، البتہ پہلے دن کو کرنا افضل ہے۔
٭ قربانی کی نیت اور دعا: قربانی کرتے وقت زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں، صرف دل ہی میں قربانی کی نیت کر لینا کافی ہے، البتہ زبان سے کہہ لینا بہتر ہے، اور جانور کو قبلہ رخ لٹانے کے بعد ذبح کرنے سے پہلے مسنون دعا پڑھیں۔
٭ ذبح کا مسنون طریقہ
قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا مقصد خاص اﷲ تعالیٰ کی رضا اور تعظیم ہو، اور عبادت کے خیال سے ذبح کرے، گوشت کھانے کے مقصد سے یا لوگوں دکھانے کی غرض سے نہ کرے۔ اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے، اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو کسی اور سے ذبح کرالے لیکن ذبح کے وقت جانور کے سامنے کھڑا رہے اور '' بسم اﷲ، اﷲ اکبر'' کی تلقین کرتا رہے ، تاکہ ذبح کرنے والا غلطی نہ کرے۔
( شامی) جانور کو قبلہ رخ لٹا کر ذبح کرنے والا خود بھی قبلہ کی طرف منہ کر کے مسنون دعا پڑھ لے، پھر اﷲ کا نام لیتے ہوئے شرعی طریقے کے مطابق حلقوم سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دے، لیکن اس کا خیال رکھے کہ گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے اور نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بل کہ حلقوم ( سانس کی نالی ) اور اس کے اطراف کی خون کی دو رگیں کاٹ دے۔ ذبح کرتے وقت اس بات کا پورا اہتمام کیا جائے کہ جانور کو تکلیف کم سے کم ہو، نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : ذبح کرنے سے پہلے چھری تیز کی جائے، ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کیا جائے اور حلقوم وغیرہ پورا کاٹا جائے تاکہ روح نکلنے میں سہولت اور آسانی ہو، اور جانور کے سامنے چھری بھی تیز نہ کرے۔ (مسلم )
٭ قربانی کن جانوروں کی جائز ہے: بکری، بکرا، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، گائے، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی کی قربانی درست ہے ان کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں۔ گائے، بھینس، اونٹ میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو بھی درست ہے، مگر ضروری ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو اور یہ شرط ہے کہ سب کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو، صرف گوشت کھانے کے لیے حصہ رکھنا مقصود نہ ہو، اگر ایک آدمی کی نیت بھی صحیح نہ ہو تو کسی کی بھی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
بکرا، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے۔ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے۔ گائے، بیل، بھینس دو سال کی، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے، ان عمروں سے کم کے جانور قربانی کے لیے کافی نہیں۔ اگر جانوروں کا فروخت کرنے والا عمر پوری بتاتا ہے اور ظاہری حالت میں اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی، اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔ جب کسی جانور کی عمر پوری ہونے کا یقین ہوجائے تو اس کی قربانی کرنا درست، ورنہ نہیں، اور اگر جانور دیکھنے میں پوری عمر کا معلوم ہوتا ہے، مگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ اس کی عمر ابھی پوری نہیں تو اس کی قربانی درست نہیں۔ ( دنبہ اور بھیڑ اس حکم سے مستثنیٰ ہے ان کا حکم اوپر بیان ہوگیا ) یاد رہے کہ جانور کی دانتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرے، عمر کا لحاظ رکھے۔ (کفایت المفتی )
جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہوں یا بیچ میں سے ٹوٹ گیا ہو، اس کی قربانی درست ہے، ہاں! سینگ جڑ سے اکھڑ گیا، جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ ( شامی) جو جانور اندھا یا کانا ہو یا اس کی ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زاید جاتی رہی ہو، یا ایک کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو، تو اس کی قربانی کرنا درست نہیں۔ جو جانور اتنا لنگڑا ہوکہ صرف تین پاؤں سے چلتا ہے، چوتھا پاؤں زمین پر رکھتا ہی نہیں یا رکھتا ہو، مگر اس سے چل نہیں سکتا، تو اس کی قربانی درست نہیں، اور اگر چلنے میں چوتھے پاؤں کا سہارا تو لیتا ہے مگر لنگڑا کر چلتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ ( البحر الرائق ) اگر جانور اتنا دبلا ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ رہا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔
اگر ایسا دبلا نہ ہو تو قربانی درست ہے۔ جانور جتنا موٹا فربہ ہو اسی قدر قربانی اچھی ہے۔ جس جانور کا تہائی سے دم وغیرہ زیادہ کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ ( شامی ) جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔ خصی جانور کی قربانی جائز بل کہ افضل ہے۔ ( شامی ) جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں اس کی قربانی کرنا درست نہیں، اگر کان تو ہوں مگر چھوٹے ہوں اس کی قربانی درست ہے۔ جس جانور کے جسم پر خارش ہو تو اگر خارش کا اثر صرف جلد تک محدود ہو تو اس کی قربانی کرنا درست ہے، اور خارش کا اثر گوشت تک پہنچ گیا ہو اور وہ اس کی وجہ سے لاغر اور دبلا ہوگیا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔ اونٹ، گائے اور بھینس کا اگر ایک تھن خشک ہوا ہو تو اس کی قربانی تو جائز ہے، لیکن اگر دو تھن خشک ہوجائے یا کٹ جائے تو پھر قربانی جائز نہ ہوگی۔
اگر جانور صحیح سالم خریدا تھا، پھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہوگیا، تو اگر خریدنے والا غنی صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لیے اسی عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی صاحب نصاب ہے یعنی اس پر قربانی کا وجوب ہے تو پھر اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے۔ جانور پہلے صحیح سالم تھا لیکن ذبح کے لیے لٹاتے وقت عیب دار ہوگیا تو ایسے جانور کی قربانی میں کوئی حرج نہیں بل کہ جائز ہے۔ قربانی کے لیے افضل اور بہترین جانور یہ ہے کہ وہ خصی ہو، خوب صورت ہو اور صحت مند بھی ہو ۔ نیز قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے تاکہ اس سے محبت ہو اور پھر اس کی قربانی میں ثواب زیادہ ملے۔
٭ قربانی کا گوشت: جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازہ سے تقسیم نہ کرے ورنہ کوئی حصہ کم اور کوئی زیادہ ہونے کی صورت میں سود ہونے کی وجہ سے گناہ ہوگا۔ ( بدائع ) اگر تمام حصے دار ایک جگہ کھاتے ہیں، جدا جدا نہیں تو اس صورت میں گوشت تول کر تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہیں اور سب گوشت کو آپس میں تقسیم نہیں کرتے بل کہ یکجا ہی فقراء و احباب کو تقسیم کرتے ہیں، یا کھانا پکا کر ان کو کھلانا چاہتے ہیں تو بھی جائز ہے اگر تقسیم کریں گے تو پھر اس میں برابری ضروری ہوگی۔ افضل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے رکھے، ایک حصہ احباب و اعزاء میں تقسیم کرے اور ایک حصہ فقراء اور مساکین میں تقسیم کرے، اور جس کے اہل و عیال زیادہ ہو تو تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے۔
( احکام و تاریخ قربانی ) لیکن گوشت بانٹنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ اپنے خرچ کے موافق نکال کر باقی فقراء اور عزیز و اقارب میں تقسیم کردیا جائے۔ اور ان لوگوں کا لحاظ خصوصیت کے ساتھ زیادہ رکھنا چاہیے، جو وسعت اور استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکتے اور یہ جو آج کل ادلا بدلی ہوتی ہے کہ ( جہاں سے گوشت ہمارے ہاں آیا اس کے یہاں ہم بھی پہنچادیں گے ورنہ نہیں، غریبوں کی ضرورت اور حاجت پر نظر نہیں ہوتی ) تو یہ بالکل خلاف عقل ہے۔ اگر گوشت کو تقسیم کرنے سے پہلے تمام شرکاء نے بہ رضا و رغبت کچھ تھوڑا بہت صدقہ کردیا تو یہ جائز ہے۔ (امداد الفتاوی ) کچا گوشت، چربی قسائی کو مزدوری میں دینا جائز نہیں۔ قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہیں۔ ( امداد الفتاوی) مردے کی طرف سے قربانی کرنا درست بل کہ باعث اجر بھی ہے لیکن اگر کسی نے قربانی کی وصیت کی ہو تو اس صورت میں تمام گوشت کا صدقہ کرنا واجب ہے ورنہ نہیں۔
٭ قربانی کی کھال: جب جانور شرعی طریقے سے ذبح کر لیا جائے ، تو جانور کے خوب ٹھنڈا ہونے کے بعد کھال اتار لی جائے ، ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال اتارنا ناجائز و حرام ہے اس سے احتراز لازم ہے ۔ (شامی ) جانور کی کھال احتیاط سے اتاری جائے، اس میں بے احتیاطی گناہ کا سبب بن سکتا ہے، چناں چہ فقہاء نے لکھا ہے کہ بے احتیاطی کرتے ہوئے چھری کے ذریعہ کھال میں سوراخ کرنا یا کھال پر گوشت کا چھوڑنا کھال اتارنے کے بعد اس کی حفاظت نہ کرنا کہ سڑ کر بے کار یا کم قیمت والا بن جائے یہ سب امور اسراف اور تبذیر ( فضول خرچی ) میں داخل ہیں، جس کی ممانعت قرآن مجید میں بھی آئی ہے۔ ( مسائل چرم قربانی و امداد الفتاویٰ ) قربانی کی کھال اپنے اور اہل عیال کے استعمال میں لانا جائز ہے، مثلا جائے نماز ، کتابوں کی جلد، ڈول، دسترخوان، جراب، جوتا وغیرہ کوئی بھی چیز بنا کر استعمال کی جاسکتی ہے، یہ بلا کراہت جائز ہے۔
( شامی) یہ بھی جائز ہے کہ کھال یا اس سے سے بنائی ہوئی چیز کسی کو ہبہ کیا جائے اگر چہ وہ شخص مال دار اور قریبی رشتے دار کیوں نہ ہو۔ ( امداد الفتاویٰ ) لیکن فقراء اور مساکین کو صدقہ کے طور پر دینا مستحب اور افضل ہے، واجب اور فرض نہیں۔ ( مسائل چرم قربانی ) ہاں اگر قربانی کا چمڑا نقد رقم یا کسی چیز کے عوض فروخت کردیا تو ا س صورت میں رقم کی قیمت کا فقراء میں صدقہ کے طور پر دینا واجب ہوگا۔ ( بحر) قربانی کے جانور کی رسی اور جھول کو بھی صدقہ کر دینا چاہیے یہ بھی مستحب ہے (شامی ) قربانی کی کھال کے پیسے مسجد کی مرمت میں یا کسی اور نیک میں لگانا جائز نہیں، بل کہ کسی غریب کو اس کا مالک بنا دینا ضروری ہے۔ (شامی ) قربانی کی کھال قصاب، امام اور مؤذن کو بہ طور اجرت دینا جائز نہیں۔ (شامی) (نوٹ: اگر مذکورہ افراد مستحقین ہیں تو ان کو بلا عوض دینا جائز ہوگا)
قربانی کے جانور میں جتنے لوگ شریک ہوں گے وہ کھال میں بھی اپنے اپنے حصے کے برابر شریک ہوں گے، کسی ایک شریک کو یہ کھال باقی شرکاء کی اجازت کے بغیر اپنے استعمال میں لانا یا کسی اور کو دینا جائز نہ ہوگا۔ ( امداد الفتاویٰ )
بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ خدا تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قربانی کی عبادت صحیح اصولوں کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
مفتی شفیق الدین الصلاح