’’فیکٹ فائنڈنگ‘‘سے پہلے اے این پی اپنا گھر درست کرے
ناقص گورننس، دہشت گردی کیخلاف امریکا کی طرف جھکائو نے اے این پی کو نقصان پہنچایا
عوامی نیشنل پارٹی نے مرکز اور خیبرپختونخوا میں پورے5سال تک حکومت میں رہنے کے بعد عام انتخابات میں اپنی خفت آمیز شکست کی وجوہات کا تعین کرنے کیلیے حقائق جاننے کی کمیٹی قائم کرکے درست فیصلہ کیا ہے۔
اگر اے این پی اپنا گھر ٹھیک رکھتی اور گڈگورننس کے علاوہ انتہاپسندی سے نمٹنے کیلیے عقلمندانہ پالیسی اختیار کرتی تو انتخابی نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔ ناقص گورننس، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے امریکہ کی طرف جھکائو اور پارٹی کے اندرونی اختلافات نے اے این پی کو نقصان پہنچایا۔ اے این پی اور جے یوآئی 1970کے بعد کئی بار برسراقتدار رہیں لیکن انھوں نے کوئی دیرپا سیاسی سوچ نہیں اپنائی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ5سال سے چلنے والی خارجہ پالیسی سے سب سے زیادہ اے این پی متاثر ہوئی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا اور نتیجتاً اسے اپنے بعض مرکزی رہنمائوں اور500 کارکنوں کی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تاہم خارجہ پالیسیوں کا بدستور حصہ رہنے پر اے این پی 5سال تک بیک وقت ''متاثرہ فریق اور ملزم''رہی۔
اے این پی کا عروج وزوال متحدہ مجلس عمل سے مختلف نہیں۔ اول الذکر سکیولر اور قوم پرست جماعت تھی جبکہ دوسرا مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا۔ ایم ایم اے نے2002کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی لیکن اگلے انتخابات میں امریکا مخالف موقف کے باوجود شکست اس کا مقدر بنی۔2008میں اے این پی نے کامیابی حاصل کرلی لیکن اب دھمکیوں کے باعث نہیں بلکہ اپنی ناقص کی وجہ سے شکست سے دوچار رہی۔ اسفند یار ولی نے 'فیکٹ فائنڈنگ' کمیٹی تو بنادی لیکن پہلے انھیں آغاز پارٹی انتخابات سے کرنا چاہیے۔ آزاد کمیٹی کو اپنی تحقیقات کا آغاز وزیراعلیٰ کے چنائو سے کرنا چاہیے کہ آیا وہ اس منصب کے قابل تھا یا اس سے بہترپارٹی میں امیدوار موجود تھے۔
گزشتہ پارٹی انتخابات میں اسفندیار ولی کو تیسری بار اے این پی کا سربراہ منتخب کرنا اور اس پرسنیئر رہنما بیگم نسیم ولی خان کا ردعمل پارٹی کے اندرکشمکش کا واضح ثبوت تھا۔ اے این پی کی شکست کی دوسری وجہ دہشت گردی کیخلاف غیرجانبدارانہ موقف اختیارکرنے کی بجائے انتہاپسندی کی غیرمتوازن مخالفت کرتے ہوئے امریکی پالیسیوں کی حمایت کرنا ہے۔ اگر اے این پی اور پیپلزپارٹی کی قیادت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ڈرون حملوں اور امریکا سے تعلقات پر منظورکی گئی قرارداد پر جراتمندانہ عملدرآمد کرتی تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔ اپوزیشن جماعتیں بھی صرف یہی مطالبہ کررہی تھیں کہ قرارداد پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ عملدرآمد ہوجاتا تو انتہاپسند قوتیں دفاعی پوزیشن پر چلی جاتیں جس سے اے این پی مخالف جذبات میں کمی آسکتی تھی۔ اس طرح اس تمام معاملے کا 'مدعا' صرف اے این پی اور پیپلزپارٹی پر پڑنے کی بجائے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی پر پڑنا تھا لیکن اس موقعے کو بھی گنوا دیا گیا۔
اے این پی کا بعدازاں اے پی سی بلانا بیکار تھا لیکن اپنی ناکامی کے اعتراف کیلیے یہ مناسب فیصلہ تھا لیکن اس وقت کافی دیر ہوچکی تھی۔ اسی طرح سوات میں قاضی عدالتوں کے قیام کا وعدہ پورا نہیں کیاگیا۔ اس تناظر میں صورتحال روزبروز اے این پی کے خلاف چلی جاتی گئی اور اے این پی کے ورکر اور رہنما اولین ٹارگٹ بنتے چلے گئے۔ ان حالات میں الیکشن کا بائیکاٹ مناسب آپشن تھا۔اسفندیار ولی کاکہنا ہے کہ اے این پی کے ہاتھ بندھے تھے اور اسے میدان میں جانا پڑگیا۔ ہاں انھوں نے درست کہالیکن ان حالات میں بھی الیکشن لڑنے کا فیصلہ اے این پی نے خودکیا۔اب وقت آگیا ہے کہ اے این پی عقلمندانہ سیاسی سوچ اپنائے اور غیرجانبدارانہ موقف اپنانے کے ساتھ اپنے گھر کو بھی ٹھیک کرے۔ تحریک انصاف کی حکومت پر تنقیدکرنے کے بجائے اے این پی کوکم ازکم اگلے3ماہ کیلیے صرف اپنی خامیوں کو تلاش کرنا چاہیے۔
اگر اے این پی اپنا گھر ٹھیک رکھتی اور گڈگورننس کے علاوہ انتہاپسندی سے نمٹنے کیلیے عقلمندانہ پالیسی اختیار کرتی تو انتخابی نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔ ناقص گورننس، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے امریکہ کی طرف جھکائو اور پارٹی کے اندرونی اختلافات نے اے این پی کو نقصان پہنچایا۔ اے این پی اور جے یوآئی 1970کے بعد کئی بار برسراقتدار رہیں لیکن انھوں نے کوئی دیرپا سیاسی سوچ نہیں اپنائی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ5سال سے چلنے والی خارجہ پالیسی سے سب سے زیادہ اے این پی متاثر ہوئی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا اور نتیجتاً اسے اپنے بعض مرکزی رہنمائوں اور500 کارکنوں کی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تاہم خارجہ پالیسیوں کا بدستور حصہ رہنے پر اے این پی 5سال تک بیک وقت ''متاثرہ فریق اور ملزم''رہی۔
اے این پی کا عروج وزوال متحدہ مجلس عمل سے مختلف نہیں۔ اول الذکر سکیولر اور قوم پرست جماعت تھی جبکہ دوسرا مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا۔ ایم ایم اے نے2002کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی لیکن اگلے انتخابات میں امریکا مخالف موقف کے باوجود شکست اس کا مقدر بنی۔2008میں اے این پی نے کامیابی حاصل کرلی لیکن اب دھمکیوں کے باعث نہیں بلکہ اپنی ناقص کی وجہ سے شکست سے دوچار رہی۔ اسفند یار ولی نے 'فیکٹ فائنڈنگ' کمیٹی تو بنادی لیکن پہلے انھیں آغاز پارٹی انتخابات سے کرنا چاہیے۔ آزاد کمیٹی کو اپنی تحقیقات کا آغاز وزیراعلیٰ کے چنائو سے کرنا چاہیے کہ آیا وہ اس منصب کے قابل تھا یا اس سے بہترپارٹی میں امیدوار موجود تھے۔
گزشتہ پارٹی انتخابات میں اسفندیار ولی کو تیسری بار اے این پی کا سربراہ منتخب کرنا اور اس پرسنیئر رہنما بیگم نسیم ولی خان کا ردعمل پارٹی کے اندرکشمکش کا واضح ثبوت تھا۔ اے این پی کی شکست کی دوسری وجہ دہشت گردی کیخلاف غیرجانبدارانہ موقف اختیارکرنے کی بجائے انتہاپسندی کی غیرمتوازن مخالفت کرتے ہوئے امریکی پالیسیوں کی حمایت کرنا ہے۔ اگر اے این پی اور پیپلزپارٹی کی قیادت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ڈرون حملوں اور امریکا سے تعلقات پر منظورکی گئی قرارداد پر جراتمندانہ عملدرآمد کرتی تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔ اپوزیشن جماعتیں بھی صرف یہی مطالبہ کررہی تھیں کہ قرارداد پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ عملدرآمد ہوجاتا تو انتہاپسند قوتیں دفاعی پوزیشن پر چلی جاتیں جس سے اے این پی مخالف جذبات میں کمی آسکتی تھی۔ اس طرح اس تمام معاملے کا 'مدعا' صرف اے این پی اور پیپلزپارٹی پر پڑنے کی بجائے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی پر پڑنا تھا لیکن اس موقعے کو بھی گنوا دیا گیا۔
اے این پی کا بعدازاں اے پی سی بلانا بیکار تھا لیکن اپنی ناکامی کے اعتراف کیلیے یہ مناسب فیصلہ تھا لیکن اس وقت کافی دیر ہوچکی تھی۔ اسی طرح سوات میں قاضی عدالتوں کے قیام کا وعدہ پورا نہیں کیاگیا۔ اس تناظر میں صورتحال روزبروز اے این پی کے خلاف چلی جاتی گئی اور اے این پی کے ورکر اور رہنما اولین ٹارگٹ بنتے چلے گئے۔ ان حالات میں الیکشن کا بائیکاٹ مناسب آپشن تھا۔اسفندیار ولی کاکہنا ہے کہ اے این پی کے ہاتھ بندھے تھے اور اسے میدان میں جانا پڑگیا۔ ہاں انھوں نے درست کہالیکن ان حالات میں بھی الیکشن لڑنے کا فیصلہ اے این پی نے خودکیا۔اب وقت آگیا ہے کہ اے این پی عقلمندانہ سیاسی سوچ اپنائے اور غیرجانبدارانہ موقف اپنانے کے ساتھ اپنے گھر کو بھی ٹھیک کرے۔ تحریک انصاف کی حکومت پر تنقیدکرنے کے بجائے اے این پی کوکم ازکم اگلے3ماہ کیلیے صرف اپنی خامیوں کو تلاش کرنا چاہیے۔