بھوت مرچ امریکا میں سبزہ زاروں کی محافظ بن گئی
سائنس دانوں نے بُھوت مرچ سے وہ جزو علیٰحدہ کیا جو اسے تیزی بخشتا ہے اور پھر اسے سفوف کی شکل دے دی۔
گلوبل وارمنگ کے اثرات دھیرے دھیرے نمودار ہورہے ہیں۔ عالمی درجۂ حرارت بڑھنے سے دنیا کا موسم بدل رہا ہے۔ کہیں موسلا دھار بارشیں ہورہی ہیں تو کہیں خشک سالی نے مستقل ڈیراہ جمالیا ہے۔
بہت سے ایسے خطے ہیں جہاں پہلے سبزہ لہلہاتا تھا، اب وہاں ریت اڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ موسمی تغیرات سے امریکا کے مشہور زمانہ مرغزار بھی متأثر ہورہے ہیں۔ یہ سبزہ زار جنگلی حیات کی متعدد انواع کے مسکن ہیں، تاہم یہاں سبزہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ سبزہ زاروں کی بحالی کے لیے چند برس قبل سرکاری و نجی اداروں نے مشترکہ طور پر کوششیں شروع کی تھیں۔ باقاعدہ منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت مرغزاروں کے صحرا میں تبدیل ہوجانے والے حصوں میں پودے لگانے کا آغاز کیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ مقامی پودوں کی بہت سی اقسام کے بیج بونے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جن کی پنیری نہیں لگائی جاسکتی تھی۔ تاہم مشکل یہ پیش آئی کہ ماہرین بیج بونے کے بعد اگلے روز چکر لگاتے تو وہ جگہیں کُھدی ہوئی ملتیں اور بیج غائب ہوتے۔ البتہ جو پودے لگائے جاتے تھے وہ صحیح سلامت رہتے تھے۔ تسلسل کے ساتھ یہ واقعات ہونے لگے تو اس کا سبب جاننے کے لیے کیمرے لگادیے گئے۔ اس کوشش کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور بیجوں کی تباہی کا 'مجرم ' سامنے آگیا۔ ماہرین ماحولیات یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چوہے ان کے بوئے گئے بیج نکال انھیں اپنی خوراک بنارہے تھے۔
اب ماہرین ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ بیجوں کو چوہوں سے کیسے بچایا جائے۔ یہ تجویز سامنے آئی کہ بیجوں کی حفاظت کے لیے ان پر کسی ایسے مادّے یا کیمیکل کی تہہ چڑھادی جائے جو چوہوں کو ناپسند ہو۔ ماہرین نے رائے دی کہ چوہے مرچ کی بُو سے دور بھاگتے ہیں لہٰذا بیجوں پر مرچ کے محلول کا اسپرے کردیا جائے۔ یہ تجویز پسند کی گئی، مگر اب مسئلہ ایسی مرچ تلاش کرنے کا تھا جس کی کوٹنگ چوہوں کو تو دور بھگائے مگر بیج کے پھوٹنے کی راہ میں حائل نہ ہو۔ چناں چہ ہر علاقے میں پیدا ہونے والی مرچوں پر تجربات کا سلسلہ شروع ہوا۔
ریاست مونٹانا کی وادیٔ میسولا میں واقع لیبارٹری میں ہر ملک میں کاشت کی جانے والی سرخ مرچوں کی آزمائش کا سلسلہ چار برس تک جاری رہا۔ بالآخر سائنس دانوں کو گوہر مقصود ہاتھ آگیا۔ یہ بھارت میں پیدا ہونے والی سرخ مرچ تھی جسے مقامی طور پر 'بُھوت مرچ' کہا جاتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کی سب سے تیز مرچوں میں کیا جاتا ہے جسے چکھنے سے ہی زبان جلنے لگتی ہے۔ 2007ء تک بھوت مرچ کو دنیا کی سب سے تیز مرچ ہونے کا اعزاز حاصل تھا، تاہم اب بھی اس کی تیزی بڑے بڑوں کے چھکے چُھڑا دیتی ہے تو پھر چوہے کیسے اس کی تاب لاسکتے تھے۔
سائنس دانوں نے بُھوت مرچ سے وہ جزو علیٰحدہ کیا جو اسے تیزی بخشتا ہے اور پھر اسے سفوف کی شکل دے دی۔ جب اس سفوف کا چھڑکاؤ کرنے کے بعد بیج بوئے گئے تو چوہے ان کے قریب بھی نہیں آئے۔ اس طرح بُھوت مرچ کی بہ دولت امریکا کے اُجڑتے سبزہ زاروں میں پھر سے ہریالی بہار دکھانے لگی ہے۔
بہت سے ایسے خطے ہیں جہاں پہلے سبزہ لہلہاتا تھا، اب وہاں ریت اڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ موسمی تغیرات سے امریکا کے مشہور زمانہ مرغزار بھی متأثر ہورہے ہیں۔ یہ سبزہ زار جنگلی حیات کی متعدد انواع کے مسکن ہیں، تاہم یہاں سبزہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ سبزہ زاروں کی بحالی کے لیے چند برس قبل سرکاری و نجی اداروں نے مشترکہ طور پر کوششیں شروع کی تھیں۔ باقاعدہ منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت مرغزاروں کے صحرا میں تبدیل ہوجانے والے حصوں میں پودے لگانے کا آغاز کیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ مقامی پودوں کی بہت سی اقسام کے بیج بونے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جن کی پنیری نہیں لگائی جاسکتی تھی۔ تاہم مشکل یہ پیش آئی کہ ماہرین بیج بونے کے بعد اگلے روز چکر لگاتے تو وہ جگہیں کُھدی ہوئی ملتیں اور بیج غائب ہوتے۔ البتہ جو پودے لگائے جاتے تھے وہ صحیح سلامت رہتے تھے۔ تسلسل کے ساتھ یہ واقعات ہونے لگے تو اس کا سبب جاننے کے لیے کیمرے لگادیے گئے۔ اس کوشش کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور بیجوں کی تباہی کا 'مجرم ' سامنے آگیا۔ ماہرین ماحولیات یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چوہے ان کے بوئے گئے بیج نکال انھیں اپنی خوراک بنارہے تھے۔
اب ماہرین ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ بیجوں کو چوہوں سے کیسے بچایا جائے۔ یہ تجویز سامنے آئی کہ بیجوں کی حفاظت کے لیے ان پر کسی ایسے مادّے یا کیمیکل کی تہہ چڑھادی جائے جو چوہوں کو ناپسند ہو۔ ماہرین نے رائے دی کہ چوہے مرچ کی بُو سے دور بھاگتے ہیں لہٰذا بیجوں پر مرچ کے محلول کا اسپرے کردیا جائے۔ یہ تجویز پسند کی گئی، مگر اب مسئلہ ایسی مرچ تلاش کرنے کا تھا جس کی کوٹنگ چوہوں کو تو دور بھگائے مگر بیج کے پھوٹنے کی راہ میں حائل نہ ہو۔ چناں چہ ہر علاقے میں پیدا ہونے والی مرچوں پر تجربات کا سلسلہ شروع ہوا۔
ریاست مونٹانا کی وادیٔ میسولا میں واقع لیبارٹری میں ہر ملک میں کاشت کی جانے والی سرخ مرچوں کی آزمائش کا سلسلہ چار برس تک جاری رہا۔ بالآخر سائنس دانوں کو گوہر مقصود ہاتھ آگیا۔ یہ بھارت میں پیدا ہونے والی سرخ مرچ تھی جسے مقامی طور پر 'بُھوت مرچ' کہا جاتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کی سب سے تیز مرچوں میں کیا جاتا ہے جسے چکھنے سے ہی زبان جلنے لگتی ہے۔ 2007ء تک بھوت مرچ کو دنیا کی سب سے تیز مرچ ہونے کا اعزاز حاصل تھا، تاہم اب بھی اس کی تیزی بڑے بڑوں کے چھکے چُھڑا دیتی ہے تو پھر چوہے کیسے اس کی تاب لاسکتے تھے۔
سائنس دانوں نے بُھوت مرچ سے وہ جزو علیٰحدہ کیا جو اسے تیزی بخشتا ہے اور پھر اسے سفوف کی شکل دے دی۔ جب اس سفوف کا چھڑکاؤ کرنے کے بعد بیج بوئے گئے تو چوہے ان کے قریب بھی نہیں آئے۔ اس طرح بُھوت مرچ کی بہ دولت امریکا کے اُجڑتے سبزہ زاروں میں پھر سے ہریالی بہار دکھانے لگی ہے۔