بلوچستان اسپیشل بچہ نہیں ہے
بلوچستان کو باقی تین صوبوں کے برعکس آج تک اپنے معاملات خود دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
اکثریتی وفاقی جماعت تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر اور وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے مزید تین ووٹ پکے کرنے کی خاطر اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے ساتھ چار روز پہلے کوئٹہ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
اس معاہدے پر اسلام آباد میں بھی دستخط ہو سکتے تھے جب اختر مینگل کئی روز بلوچستان ہاؤس میں اس امید پر ڈیرے ڈالے رہے کہ بنی گالا کا مکین دور سے آئے مہمان کا خیرمقدم کرنے چند کلومیٹر کی سفری زحمت کر کے بلوچستان ہاؤس آئے گا ، چائے پئیے گا اور تین ووٹوں کا تعاون حاصل کر لے گا۔مگر بنی گالا کا مکین بھی اس انتظار میں اپنی جگہ سے نہ ہلا کہ اختر مینگل طشتری میں تین ووٹ کی نذر پیش کرنے کے لیے خود چل کے آئے گا۔
جب اختر مینگل واپس کوئٹہ روانہ ہو گئے تب پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو اچانک سے لگا کہ اس وقت انا سے بھی قیمتی ایک ایک ووٹ ہے۔چنانچہ پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کے طیارے میں کوئٹہ بھیجے گئے۔اس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ شاہ محمود اور جہانگیر ترین کی مبینہ رسی کشی برائے جانشینی سے بھی زیادہ اہم شے ہے نظریہِ ضرورت۔
بہرحال دونوں پارٹیوں نے مرکز میں تعاون کے لیے جس یادداشت پر دستخط کیے وہ بلوچستان کی موجودہ حالت کے تناظر میں اہم ہے۔یہ یادداشت چھ نکات پر مشتمل ہے۔
اول۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنجیدگی سے حل کیا جائے اور آیندہ ایسے واقعات سے پرہیز کیا جائے۔نیشنل ایکشن پلان پر حرف بحرف عین روح کے مطابق عمل کیا جائے۔
دوم۔تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بلوچستان کے حقوق اور مقامی آبادی کی عمرانی شناخت برقرار رکھنے کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے۔
سوم۔ صوبے کے فائدے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قدرتی وسائل میں حصہ داری کی شرائط شفاف طریقے سے دوبارہ طے کی جائیں۔تانبے ، سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی صفائی و پروسیسنگ کی ریفائنریاں بلوچستان میں لگائی جائیں۔
چہارم۔ بلوچستان میں پانی کی قلت کے سبب آبادی کی نقلِ مکانی روکنے اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں اضافے کے لیے صوبے میں بڑے ڈیم بنائے جائیں۔
پنجم۔وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے لیے مختص چھ فیصد کوٹے نیز دفترِ خارجہ کی تقرریوں میں بلوچستان کے حصے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔
ششم۔ تمام افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے ان کے وطن بھیجا جائے۔
اس معاہدے پر پی ٹی آئی کی شاہ - ترین ٹیم نے عمران خان کو اعتماد میں لے کر دستخط کیے جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے سربراہ اخترمینگل ، سیکریٹری جنرل سینیٹر جہانزیب جمالدینی اور سیکریٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ نے دستخط کیے۔پی ٹی آئی اس سے قبل ایم کیو ایم کی مرکز میں حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی ترقی کے وعدے پر تحریری سمجھوتہ کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی مرکز میں ایم کیو ایم کی طرح اختر مینگل کو بھی ایک وزارت دینے پر تیار ہے لیکن اخترمینگل کے بقول ہمیں عہدوں کی نہیں اس معاہدے پر عمل درآمد کی تمنا ہے۔جہاں ستر برس انتظار کیا وہاں ہم تھوڑا اور انتظار کر سکتے ہیں۔وفاق میں ہم عمران خان کی حکومت سے ضرور تعاون کریں گے البتہ صوبے میں ہمارا اتحاد جمعیتِ علمائے اسلام عرف متحدہ مجلسِ عمل سے رہے گا۔
صوبے میں ایم ایم اے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی پچاس جنرل نشستوں میں سے چھ چھ نشستیں ہیں اور دونوںجماعتیں مخلوط صوبائی حکومت کا حصہ بننے کے بجائے فی الحال اپوزیشن کا کردار نبھانے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں۔البتہ تحریکِ انصاف سرکاری وارڈ میں جنم لینے والی بلوچستان عوامی پارٹی(باپ)کی ممکنہ مخلوط حکومت میں جونئیر پارٹنر بننے کو تیار ہے۔اس کے بدلے باپ وفاق میں تحریکِ انصاف کو سہارا دیے رکھے گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر بلوچستان نیشنل پارٹی نہ مرکزی حکومت میں شامل ہو گی نہ صوبائی مخلوط سیٹ اپ کا حصہ بنے گی تو پھر دو جماعتی معاہدے کی اہمیت کیا ہے ؟ تحریکِ انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے بجائے یہ معاہدہ چند دن بعد ظہور میں آنے والی وفاقی انصافی حکومت اور حکومتِ بلوچستان یا وفاق اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی تمام پارلیمانی جماعتوں کے درمیان بھی تو ہو سکتا تھا تاکہ اس معاہدے پر وفاقی مہر لگنے کے بعد باضابطہ انداز میں عمل ہو سکے۔یہی سوال تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ماضی میں صدر آصف علی زرداری نے اہلِ بلوچستان سے پیپلز پارٹی کے گزشتہ ادوار میں ہونے والی غفلتوں پر جو معافی مانگی اور اس کے بعد یوسف رضا گیلانی حکومت نے آغازِ حقوقِ بلوچستان نامی جو پیکیج دیا۔کیا اس پیکیج کے وجود یا کامیابی و ناکامی کے بارے میں کوئی اطلاع ہے ؟ کم از کم کوئی یہی بتادے کہ اس انتظام کے نتیجے میں بلوچستان کے حالاتِ زندگی میں کتنی بنیادی تبدیلی آئی۔اس سے پہلے پرویز مشرف نے بلوچستان میں انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے اربوں روپے کے جس پیکیج پر عمل درآمد کیا اس سے بلوچستان کے عام آدمی کے معیارِ زندگی اور وفاق کے بارے میں سوچ میں کتنی بہتری و بڑہوتری دیکھنے میں آئی ؟
تحریکِ انصاف اور ایک قوم پرست بلوچ سیاسی جماعت میں جو معاہدہ ہوا ہے اس میں کوئی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے تو بس اتنی کہ ایک ممکنہ برسرِ اقتدار وفاقی جماعت نے بلوچستان کے تین بنیادی مسئلوں یعنی لاپتہ افراد ، وسائل کی تقسیم میں منصفانہ شفافیت کی ضرورت اور آبادی کے اعتبار سے بلوچستان کی نسلی و علاقائی شناخت برقرار رکھنے کے لیے خصوصی اقدامات و قوانین کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔اس معاہدے پر کتنا عمل ہوگا یا نہیں۔اس سے قطع نظر مستقبل میں کسی بھی جامع حل کی کوششوں میں فریقین اس معاہدے کا حوالہ بھی دے سکیں گے۔
مسئلہ ہونے کو تو ایک دن میں حل ہو سکتا ہے اگر وفاق کسی طرح اپنے مرکزی اداروں کو اس پر قائل کر لے کہ جہاں بلوچستان کو فیڈریشن کا حصہ بنائے رکھنے کے لیے ستر برس میں اب تک درجن بھر تجربات کیے جا چکے ہیں وہیں یہ تجربہ بھی کر کے دیکھ لیا جائے کہ صوبے کے معاملات صرف صوبے کے اندر اور صوبے کے نمایندے اور ادارے ہی آپس میں طے کریں اور ان میں یہ احساس جاگے کہ اب مرکز ہر چھوٹے بڑے معاملے میں کسی ایک فریق کی علانیہ و غیر علانیہ مدد کو نہیں آئے گا۔بلوچستانیوں کو بھلے ان کا تعلق کسی بھی نظریے یا سوچ سے ہو صوبائی معاملات چلانے کے لیے اپنی مدد آپ کرنی ہو گی۔
ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والے بلوچستان کو باقی تین صوبوں کے برعکس آج تک اپنے معاملات خود دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔جس روز بلوچستان کو اپنی مرضی سے معاملات ایک پوری پانچ سالہ مدت کے لیے چلانے کا اختیار ملا اس روز سے ان کا یہ احساس بھی مدہم پڑنا شروع ہو جائے گا کہ انھیں اب تک ایک غیر علانیہ نوآبادی سمجھ کر لولی پاپ تھمایا جاتا رہا ہے۔بلوچستان کی بطور صوبہ اکیاون برس عمر ہو چکی ہے۔اتنی عمر کے آدمی کے ہاتھ میں اگر لالی پاپ اور منہ میں چوسنی ہو تو یہ منظر کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا۔کجا آپ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو مسلسل ایک '' اسپیشل بچہ '' بنا کے رکھیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
اس معاہدے پر اسلام آباد میں بھی دستخط ہو سکتے تھے جب اختر مینگل کئی روز بلوچستان ہاؤس میں اس امید پر ڈیرے ڈالے رہے کہ بنی گالا کا مکین دور سے آئے مہمان کا خیرمقدم کرنے چند کلومیٹر کی سفری زحمت کر کے بلوچستان ہاؤس آئے گا ، چائے پئیے گا اور تین ووٹوں کا تعاون حاصل کر لے گا۔مگر بنی گالا کا مکین بھی اس انتظار میں اپنی جگہ سے نہ ہلا کہ اختر مینگل طشتری میں تین ووٹ کی نذر پیش کرنے کے لیے خود چل کے آئے گا۔
جب اختر مینگل واپس کوئٹہ روانہ ہو گئے تب پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو اچانک سے لگا کہ اس وقت انا سے بھی قیمتی ایک ایک ووٹ ہے۔چنانچہ پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کے طیارے میں کوئٹہ بھیجے گئے۔اس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ شاہ محمود اور جہانگیر ترین کی مبینہ رسی کشی برائے جانشینی سے بھی زیادہ اہم شے ہے نظریہِ ضرورت۔
بہرحال دونوں پارٹیوں نے مرکز میں تعاون کے لیے جس یادداشت پر دستخط کیے وہ بلوچستان کی موجودہ حالت کے تناظر میں اہم ہے۔یہ یادداشت چھ نکات پر مشتمل ہے۔
اول۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنجیدگی سے حل کیا جائے اور آیندہ ایسے واقعات سے پرہیز کیا جائے۔نیشنل ایکشن پلان پر حرف بحرف عین روح کے مطابق عمل کیا جائے۔
دوم۔تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بلوچستان کے حقوق اور مقامی آبادی کی عمرانی شناخت برقرار رکھنے کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے۔
سوم۔ صوبے کے فائدے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قدرتی وسائل میں حصہ داری کی شرائط شفاف طریقے سے دوبارہ طے کی جائیں۔تانبے ، سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی صفائی و پروسیسنگ کی ریفائنریاں بلوچستان میں لگائی جائیں۔
چہارم۔ بلوچستان میں پانی کی قلت کے سبب آبادی کی نقلِ مکانی روکنے اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں اضافے کے لیے صوبے میں بڑے ڈیم بنائے جائیں۔
پنجم۔وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے لیے مختص چھ فیصد کوٹے نیز دفترِ خارجہ کی تقرریوں میں بلوچستان کے حصے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔
ششم۔ تمام افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے ان کے وطن بھیجا جائے۔
اس معاہدے پر پی ٹی آئی کی شاہ - ترین ٹیم نے عمران خان کو اعتماد میں لے کر دستخط کیے جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے سربراہ اخترمینگل ، سیکریٹری جنرل سینیٹر جہانزیب جمالدینی اور سیکریٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ نے دستخط کیے۔پی ٹی آئی اس سے قبل ایم کیو ایم کی مرکز میں حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی ترقی کے وعدے پر تحریری سمجھوتہ کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی مرکز میں ایم کیو ایم کی طرح اختر مینگل کو بھی ایک وزارت دینے پر تیار ہے لیکن اخترمینگل کے بقول ہمیں عہدوں کی نہیں اس معاہدے پر عمل درآمد کی تمنا ہے۔جہاں ستر برس انتظار کیا وہاں ہم تھوڑا اور انتظار کر سکتے ہیں۔وفاق میں ہم عمران خان کی حکومت سے ضرور تعاون کریں گے البتہ صوبے میں ہمارا اتحاد جمعیتِ علمائے اسلام عرف متحدہ مجلسِ عمل سے رہے گا۔
صوبے میں ایم ایم اے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی پچاس جنرل نشستوں میں سے چھ چھ نشستیں ہیں اور دونوںجماعتیں مخلوط صوبائی حکومت کا حصہ بننے کے بجائے فی الحال اپوزیشن کا کردار نبھانے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں۔البتہ تحریکِ انصاف سرکاری وارڈ میں جنم لینے والی بلوچستان عوامی پارٹی(باپ)کی ممکنہ مخلوط حکومت میں جونئیر پارٹنر بننے کو تیار ہے۔اس کے بدلے باپ وفاق میں تحریکِ انصاف کو سہارا دیے رکھے گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر بلوچستان نیشنل پارٹی نہ مرکزی حکومت میں شامل ہو گی نہ صوبائی مخلوط سیٹ اپ کا حصہ بنے گی تو پھر دو جماعتی معاہدے کی اہمیت کیا ہے ؟ تحریکِ انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے بجائے یہ معاہدہ چند دن بعد ظہور میں آنے والی وفاقی انصافی حکومت اور حکومتِ بلوچستان یا وفاق اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی تمام پارلیمانی جماعتوں کے درمیان بھی تو ہو سکتا تھا تاکہ اس معاہدے پر وفاقی مہر لگنے کے بعد باضابطہ انداز میں عمل ہو سکے۔یہی سوال تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ماضی میں صدر آصف علی زرداری نے اہلِ بلوچستان سے پیپلز پارٹی کے گزشتہ ادوار میں ہونے والی غفلتوں پر جو معافی مانگی اور اس کے بعد یوسف رضا گیلانی حکومت نے آغازِ حقوقِ بلوچستان نامی جو پیکیج دیا۔کیا اس پیکیج کے وجود یا کامیابی و ناکامی کے بارے میں کوئی اطلاع ہے ؟ کم از کم کوئی یہی بتادے کہ اس انتظام کے نتیجے میں بلوچستان کے حالاتِ زندگی میں کتنی بنیادی تبدیلی آئی۔اس سے پہلے پرویز مشرف نے بلوچستان میں انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے اربوں روپے کے جس پیکیج پر عمل درآمد کیا اس سے بلوچستان کے عام آدمی کے معیارِ زندگی اور وفاق کے بارے میں سوچ میں کتنی بہتری و بڑہوتری دیکھنے میں آئی ؟
تحریکِ انصاف اور ایک قوم پرست بلوچ سیاسی جماعت میں جو معاہدہ ہوا ہے اس میں کوئی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے تو بس اتنی کہ ایک ممکنہ برسرِ اقتدار وفاقی جماعت نے بلوچستان کے تین بنیادی مسئلوں یعنی لاپتہ افراد ، وسائل کی تقسیم میں منصفانہ شفافیت کی ضرورت اور آبادی کے اعتبار سے بلوچستان کی نسلی و علاقائی شناخت برقرار رکھنے کے لیے خصوصی اقدامات و قوانین کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔اس معاہدے پر کتنا عمل ہوگا یا نہیں۔اس سے قطع نظر مستقبل میں کسی بھی جامع حل کی کوششوں میں فریقین اس معاہدے کا حوالہ بھی دے سکیں گے۔
مسئلہ ہونے کو تو ایک دن میں حل ہو سکتا ہے اگر وفاق کسی طرح اپنے مرکزی اداروں کو اس پر قائل کر لے کہ جہاں بلوچستان کو فیڈریشن کا حصہ بنائے رکھنے کے لیے ستر برس میں اب تک درجن بھر تجربات کیے جا چکے ہیں وہیں یہ تجربہ بھی کر کے دیکھ لیا جائے کہ صوبے کے معاملات صرف صوبے کے اندر اور صوبے کے نمایندے اور ادارے ہی آپس میں طے کریں اور ان میں یہ احساس جاگے کہ اب مرکز ہر چھوٹے بڑے معاملے میں کسی ایک فریق کی علانیہ و غیر علانیہ مدد کو نہیں آئے گا۔بلوچستانیوں کو بھلے ان کا تعلق کسی بھی نظریے یا سوچ سے ہو صوبائی معاملات چلانے کے لیے اپنی مدد آپ کرنی ہو گی۔
ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والے بلوچستان کو باقی تین صوبوں کے برعکس آج تک اپنے معاملات خود دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔جس روز بلوچستان کو اپنی مرضی سے معاملات ایک پوری پانچ سالہ مدت کے لیے چلانے کا اختیار ملا اس روز سے ان کا یہ احساس بھی مدہم پڑنا شروع ہو جائے گا کہ انھیں اب تک ایک غیر علانیہ نوآبادی سمجھ کر لولی پاپ تھمایا جاتا رہا ہے۔بلوچستان کی بطور صوبہ اکیاون برس عمر ہو چکی ہے۔اتنی عمر کے آدمی کے ہاتھ میں اگر لالی پاپ اور منہ میں چوسنی ہو تو یہ منظر کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا۔کجا آپ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو مسلسل ایک '' اسپیشل بچہ '' بنا کے رکھیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)