مسکین سا ہیرو
کبھی اپنے آپ سے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی ہے کبھی بدعاؤں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
کیا وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے والے سب خوش نصیب ہوتے ہیں؟ کیا وزرائے اعلی اور وزراء بننے والے قسمت کے دھنی ہوتے ہیں؟ کیا یہ سب رشک کے قابل ہوتے ہیں؟ کیا ان کے علاوہ سب بد نصیب ہوتے ہیں؟ قسمت کے کھوٹے ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی جنہیں ہم خوش نصیب سمجھے بیٹھے ہیں، وہ واقعی خوش نصیب ہیں یا صرف ہماری آنکھوں کا دھوکا ہے، ہماری کم عقلی اور ناسمجھی ہے اور ہمیں اپنی آنکھوں کا چشمہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ہم جس طرح دیکھ رہے ہیں اس طرح ہم اصل منظر کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ ابو سعید ابو الخیر سے کسی نے کہا کہ کمال کا انسان ہو گا وہ جو ہوا میں اڑ سکے۔ ابو سعید نے جواب دیا ''یہ کونسی بڑی بات ہے یہ کام تو مکھی بھی کر سکتی ہے'' پھر اس شخص نے کہا اور اگرکوئی شخص پانی میں چل سکے اس کے بارے میں آپ کا کیا فرمانا ہے۔
آپ نے جواب دیا ''یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ہے کیونکہ لکڑی کا ٹکڑا بھی سطح آب پر تیر سکتا ہے تو پھر آپ کے خیال میں کمال کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا ''میری نظر میں کمال یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رہو اورکسی کو تمہاری زبان سے تکلیف نہ پہنچے۔ جھوٹ کبھی نہ کہو،کسی کا تمسخر مٹ اڑاؤ ۔کسی کی ذات سے کوئی ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ یہ کمال ہے'' اگر ہم پاکستان میں وزرات عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والوں اور وزیر اور مشیرکے عہدوں کا منصب رکھنے والوں کی مکمل فہرست ترتیب دے کر اور ابو سعید ابوالخیرکے کہے گئے کمالات کو سامنے رکھ کر ان کی مکمل زندگی،ان کے اقدامات،ان کے کرتوت، ان کے اعمال کو پرکھیں تو ایک آدھ کو چھوڑکر ان میں کوئی شخص خوش نصیب نہیں نکلے گا اور ایک آدھ کو چھوڑ کر ایک بھی قسمت کا دھنی ثابت نہیں ہو گا۔
جب کہ ہم دوسری طرف اپنے ارد گرد یا اپنے آپ پر نظر دوڑائیں گے تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خوش نصیب انسان برآمد ہو جائیں گے، جو کہ اصل میں خوش نصیب ہیں اصل میں قسمت کے دھنی ہیں خوش نصیب یا قسمت کا دھنی ہونے کا فیصلہ ہمیشہ زندگی کے کھیل کے آخر میں ہوتا ہے ناکہ اس وقت جب کہ کھیل جاری ہو۔ آپ ایک اورکام بھی کر سکتے ہیں ان حضرات کی مکمل فہرست ترتیب دے کر جوان عہدوں اور منصبوں پر فائز رہ چکے ہیں اور اپنی زندگی کا کھیل کھیل چکے ہیں اور آج کل آرام کر رہے ہیں۔ ان سے ملاقات کر کے ان کی گزری ہوئی زندگی اور اس میں کیے گئے فیصلوں، اعمال کے بارے میں بس صرف ایک یہ سوال پوچھ لیں کہ اگر خدا آپ کو دوبارہ سے زندگی شروع کرنے کا ایک اور موقع دے دے تو آپ کیا دوبارہ دی گئی زندگی کو بھی پرانے انداز، اقدامات اور اعمال کے مطابق گزاریں گے یا اسے بالکل مختلف انداز اور ابو سعید ابو الخیر کے کہے گئے کمالات کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے۔
یقین جانیے کہ سب کے سب متفقہ طور پر کہیں گے کہ ہم اپنی گزری ہوئی زندگی اور اقدامات اور اعمال پر بے انتہا شرمندہ ہیں اور شرمندگی کبھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اور خدا اگر ہمیں دوبارہ زندگی اور وہ عہدے اور منصب عطا فرمائے تو ہم اس زندگی کو اس زندگی سے بالکل اور یکسر مختلف زندگی بسرکریں گے۔ فرعون، یزید، ہٹلر، مسولینی، شاہ ایران، فرانس کے شاہ اور دیگر بڑے بڑے عہدوں اورمنصبوں پر قابض تھے۔ ان کی مرضی کے خلاف پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا لیکن آج کوئی بھی ان جیسا بننے کے لیے تیار نہیں ہے جب کہ یہ سب اپنے اپنے دورکے انتہائی خوش نصیب انسان مانے جاتے تھے، اس وقت ہر شخص کی خواہش ان جیسا بننے کی تھی۔ عظیم سیاسی مفکر میکس ویبر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سیاست میں صرف دو ہی بڑے گناہ ہیں۔
حقیقت پسندی کا فقدان اور فیصلوں کے نتائج کی ذمے داری قبول کرنے کا فقدان۔ جب کہ ہابزکا موقف ہے کہ ـ''انسان میں طاقت واقتدارکی خواہش باقی سب خواہشات سے بڑھ کر ہوتی ہے اقتدار در اقتدار کی ایک مستقل اور مضطرب خواہش ہمیں اس وقت تک دوڑائے لیے جاتی ہے جبتک کہ ہمیں موت نہیں آن لیتی'' اصل سمجھداری اور دانش مندی اس بات میں نہیں ہے کہ تجربے کے بعد سیکھا جائے بلکہ اس بات میں ہے کہ وقت سے پہلے تاریخ سے سیکھ لیا جائے۔ آنے والے وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں سے گزار ش ہے کہ اصل کمالات عہدوں کو حاصل کرنے میں نہیں ہے بلکہ ابو سعید ابو الخیرکے کہے گئے کمالات میں ہے جن کی وجہ سے آپ کوکبھی پچھتا نا نہیں پڑتا ہے۔
کبھی اپنے آپ سے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی ہے کبھی بدعاؤں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھیے گا آپ جب ایک مرتبہ کرسی سے نیچے اتر جاتے ہیں تو آپ کا اپنے ورثے، شہرت اور نیک نامی پر اختیار ختم ہو جاتا ہے آپ کے کردار کی سندیں عموماً دوسرے تحریر کرتے ہیں اقتدار کے وقت تو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے پھر گھٹا کر پیش کیا جاتاہے۔
افسانہ نگار سمرسیٹ ماہم نے لکھا ہے کہ ''کرسی چھوڑنے کے بعد وزیر اعظم بس ایک شاندار مقرر رہ جاتا ہے اور فوج کے بغیر جنرل کی حیثیت قصبے کے ایک مسکین سے ہیرو سے زیاد ہ کی نہیں ہوتی۔''
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی جنہیں ہم خوش نصیب سمجھے بیٹھے ہیں، وہ واقعی خوش نصیب ہیں یا صرف ہماری آنکھوں کا دھوکا ہے، ہماری کم عقلی اور ناسمجھی ہے اور ہمیں اپنی آنکھوں کا چشمہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ہم جس طرح دیکھ رہے ہیں اس طرح ہم اصل منظر کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ ابو سعید ابو الخیر سے کسی نے کہا کہ کمال کا انسان ہو گا وہ جو ہوا میں اڑ سکے۔ ابو سعید نے جواب دیا ''یہ کونسی بڑی بات ہے یہ کام تو مکھی بھی کر سکتی ہے'' پھر اس شخص نے کہا اور اگرکوئی شخص پانی میں چل سکے اس کے بارے میں آپ کا کیا فرمانا ہے۔
آپ نے جواب دیا ''یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ہے کیونکہ لکڑی کا ٹکڑا بھی سطح آب پر تیر سکتا ہے تو پھر آپ کے خیال میں کمال کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا ''میری نظر میں کمال یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رہو اورکسی کو تمہاری زبان سے تکلیف نہ پہنچے۔ جھوٹ کبھی نہ کہو،کسی کا تمسخر مٹ اڑاؤ ۔کسی کی ذات سے کوئی ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ یہ کمال ہے'' اگر ہم پاکستان میں وزرات عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والوں اور وزیر اور مشیرکے عہدوں کا منصب رکھنے والوں کی مکمل فہرست ترتیب دے کر اور ابو سعید ابوالخیرکے کہے گئے کمالات کو سامنے رکھ کر ان کی مکمل زندگی،ان کے اقدامات،ان کے کرتوت، ان کے اعمال کو پرکھیں تو ایک آدھ کو چھوڑکر ان میں کوئی شخص خوش نصیب نہیں نکلے گا اور ایک آدھ کو چھوڑ کر ایک بھی قسمت کا دھنی ثابت نہیں ہو گا۔
جب کہ ہم دوسری طرف اپنے ارد گرد یا اپنے آپ پر نظر دوڑائیں گے تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خوش نصیب انسان برآمد ہو جائیں گے، جو کہ اصل میں خوش نصیب ہیں اصل میں قسمت کے دھنی ہیں خوش نصیب یا قسمت کا دھنی ہونے کا فیصلہ ہمیشہ زندگی کے کھیل کے آخر میں ہوتا ہے ناکہ اس وقت جب کہ کھیل جاری ہو۔ آپ ایک اورکام بھی کر سکتے ہیں ان حضرات کی مکمل فہرست ترتیب دے کر جوان عہدوں اور منصبوں پر فائز رہ چکے ہیں اور اپنی زندگی کا کھیل کھیل چکے ہیں اور آج کل آرام کر رہے ہیں۔ ان سے ملاقات کر کے ان کی گزری ہوئی زندگی اور اس میں کیے گئے فیصلوں، اعمال کے بارے میں بس صرف ایک یہ سوال پوچھ لیں کہ اگر خدا آپ کو دوبارہ سے زندگی شروع کرنے کا ایک اور موقع دے دے تو آپ کیا دوبارہ دی گئی زندگی کو بھی پرانے انداز، اقدامات اور اعمال کے مطابق گزاریں گے یا اسے بالکل مختلف انداز اور ابو سعید ابو الخیر کے کہے گئے کمالات کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے۔
یقین جانیے کہ سب کے سب متفقہ طور پر کہیں گے کہ ہم اپنی گزری ہوئی زندگی اور اقدامات اور اعمال پر بے انتہا شرمندہ ہیں اور شرمندگی کبھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اور خدا اگر ہمیں دوبارہ زندگی اور وہ عہدے اور منصب عطا فرمائے تو ہم اس زندگی کو اس زندگی سے بالکل اور یکسر مختلف زندگی بسرکریں گے۔ فرعون، یزید، ہٹلر، مسولینی، شاہ ایران، فرانس کے شاہ اور دیگر بڑے بڑے عہدوں اورمنصبوں پر قابض تھے۔ ان کی مرضی کے خلاف پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا لیکن آج کوئی بھی ان جیسا بننے کے لیے تیار نہیں ہے جب کہ یہ سب اپنے اپنے دورکے انتہائی خوش نصیب انسان مانے جاتے تھے، اس وقت ہر شخص کی خواہش ان جیسا بننے کی تھی۔ عظیم سیاسی مفکر میکس ویبر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سیاست میں صرف دو ہی بڑے گناہ ہیں۔
حقیقت پسندی کا فقدان اور فیصلوں کے نتائج کی ذمے داری قبول کرنے کا فقدان۔ جب کہ ہابزکا موقف ہے کہ ـ''انسان میں طاقت واقتدارکی خواہش باقی سب خواہشات سے بڑھ کر ہوتی ہے اقتدار در اقتدار کی ایک مستقل اور مضطرب خواہش ہمیں اس وقت تک دوڑائے لیے جاتی ہے جبتک کہ ہمیں موت نہیں آن لیتی'' اصل سمجھداری اور دانش مندی اس بات میں نہیں ہے کہ تجربے کے بعد سیکھا جائے بلکہ اس بات میں ہے کہ وقت سے پہلے تاریخ سے سیکھ لیا جائے۔ آنے والے وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں سے گزار ش ہے کہ اصل کمالات عہدوں کو حاصل کرنے میں نہیں ہے بلکہ ابو سعید ابو الخیرکے کہے گئے کمالات میں ہے جن کی وجہ سے آپ کوکبھی پچھتا نا نہیں پڑتا ہے۔
کبھی اپنے آپ سے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی ہے کبھی بدعاؤں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھیے گا آپ جب ایک مرتبہ کرسی سے نیچے اتر جاتے ہیں تو آپ کا اپنے ورثے، شہرت اور نیک نامی پر اختیار ختم ہو جاتا ہے آپ کے کردار کی سندیں عموماً دوسرے تحریر کرتے ہیں اقتدار کے وقت تو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے پھر گھٹا کر پیش کیا جاتاہے۔
افسانہ نگار سمرسیٹ ماہم نے لکھا ہے کہ ''کرسی چھوڑنے کے بعد وزیر اعظم بس ایک شاندار مقرر رہ جاتا ہے اور فوج کے بغیر جنرل کی حیثیت قصبے کے ایک مسکین سے ہیرو سے زیاد ہ کی نہیں ہوتی۔''