سنگ دلی کی انتہا

صلح نہ کرنے پر مقتول کے بیٹے اور نواسہ بھی مار دیا

تین نوجوانوں کی خون میں لت پت لاشوں کو اٹھانے والے متاثرہ خاندان کی بربادی 28 مئی 2011ء کی رات اس وقت شروع ہوئی۔ فوٹو: فائل

ڈیڑھ سال تک آزاد گھومنے والے سنگدل قاتل نے صلح نہ کرنے پر مقدمہ قتل کے مدعی مقتول کے حقیقی بیٹوں اور نواسے کو دن دیہاڑے سرعام فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

متاثرہ خاندان ایک بار پھر خون میں لت پت لاشوں پر بین کرتا رہا اور پولیس قاتلوں کو گرفتار نہ کرسکی' مقتولین ڈیڑھ سال تک دنیا کے قانون اور ان کے رکھوالوں سے انصاف کی خاطر لڑتے لڑتے ایک بار پھر ظلم کا شکار ہوکر بالآخر حقیقی منصف اور کل کائنات کے مالک اور خالق کے پاس انصاف لینے پہنچ گئے۔ تین نوجوانوں کی خون میں لت پت لاشوں کو اٹھانے والے متاثرہ خاندان کی بربادی 28 مئی 2011ء کی رات اس وقت شروع ہوئی۔

جب مبینہ طور پر سنگدل قاتل غلام محمد عرف گبی لاڑ اپنے پانچ ساتھیوں کے ہم راہ بستی ڈھاک لاڑ کے سرپنچ جام منیر احمد لاڑ کے گھر آدھی رات کو دیوار پھلانگ کر داخل ہوا اور ٹوکے کے پے درپے وار کرتے ہوئے گھر کے صحن میں سوئے ہوئے جام منیر احمد کو قتل اور ان کی اہلیہ کو زخمی کرکے فرار ہوگیا جس پر تھانہ ظاہر پیر نے قتل کا مقدمہ درج کرکے ملزمان صفدر عباس' حضور بخش اور فقیر بخش کو گرفتار کرکے جیل بھجوادیا تاہم مرکزی ملزم گبی لاڑ پولیس کے ہاتھ نہ آیا' ملزم مقتول کے بیٹوں اور مقدمہ کے مدعی زاہد منیر اور طاہر منیر کو مقدمہ کی پیروی سے باز رکھنے کیلئے متاثرہ خاندان کو حراساں کرتا رہا' متعدد مرتبہ مقتول کے گھر گھس کر فائرنگ بھی کی اور مقدمہ خارج نہ کرانے پر قتل کی دھمکیاں بھی دیں اور فائرنگ کرکے مقتول منیر لاڑ کے قریبی عزیزوں شملہ اور محمد صابر کو زخمی بھی کردیا۔

اس بار تھانہ ظاہر پیر نے قاتل کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرکے متاثرہ خاندان کو تحفظ فراہم اور قاتل کو گرفتار کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ پولیس اپنے فرض سے غافل ہوگئی انہوں نے پلٹ کر بھی خوفزدہ متاثرہ خاندان کی خبر نہ لی' مقدمہ قتل کی سماعت عدالت میں ہوئی تو متاثرین کو اس کی پیروی کے لیے مجبوراً گھر سے نکل کر عدالت تک جانا پڑتا' متاثرین قاتلانہ حملے کے خدشہ کے پیش نظر کبھی دس اور کبھی پندرہ افراد کی ٹولیوں میں پیشی پر جاتے لیکن آہستہ آہستہ قریبی عزیزوں نے بھی متاثرین کے ساتھ پیشی پر جانا چھوڑ دیا۔


16مارچ 2013ء کی صبح مقتول کے بیٹے19 سالہ زاہد منیر اور 16طاہر منیر اپنے بھانجے مجاہد حسین کے ہم راہ پیشی پر جانے کے لیے گھر سے نکلے تو تاک میں بیٹھے سنگ دل قاتل اور اس کے ساتھیوں نے ایک بار بھر بستی ڈھاک لاڑ کے اندر ہی سرعام اندھا دھند فائرنگ کرکے تینوں کو خون میں نہلا دیا' تین قتل کرنے کے بعد قاتل ایک بار پھر موٹر سائیکلوں پر باآسانی فرار ہوگئے اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاشوں کو دفنانے کی صلاح دیتے ہوئے مقدمہ درج اور ملزمان کو گرفتار کرنے کا ایک بار پھر اعلان کردیا۔

مگر مشتعل اہل علاقہ نے تینوں لاشوں کو قومی شاہ راہ پر رکھ کر ملزمان کی گرفتاری تک پولیس کے خلاف احتجاج شروع کردیا' تاہم ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ' پی ٹی آئی کے رہنما چوہدری محمد سلیم بھلر' راشد سعید گھلیجہ' پیپلز پارٹی کے میاں شفیع محمد' ن لیگ خان پور تحصیل کے سینئر نائب صدر محمد شہباز شریف' انجمن تاجران کے رہنما سردار جلیل خان دشتی' سماجی کارکن تاج محمد جاوید و دیگر افراد کی استدعا پر مظاہرین نے احتجاج ختم کردیا۔ اس موقع پر ملزمان کے خلاف تیسرا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا لیکن پولیس تاحال بھی ملزم گبی لاڑ کو گرفتار نہ کرسکی ۔

تاہم پولیس نے گبی لاڑ سے روابط رکھنے والوں کو حراست میں لیا اور متعدد جگہوں پر چھاپے بھی مارے لیکن کام یابی نہ ہوسکی جب کہ ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ اور ڈی ایس پی چوہدری محمود الحسن گجر نے ملزمان کو جلد گرفتار کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے لیکن ڈیڑھ سال قبل سہاگن سے بیوہ اور پھر بے اولاد ہونے والی دکھیاری ماں کی آنکھوں سے آج بھی آنسو جاری ہیں جنہیں باپ اور بھائیوں کی لاشیں دیکھنے والی بیٹیاں خشک کرنے اور دلاسہ دینے میں لگی رہتی ہیں' اہل علاقہ کا کہنا تھا کہ غلام محمد عرف گبی لاڑ چھ سال قبل بکری چور تھا۔

جس نے بکری چوری کی واردات کے دوران مزاحمت پر مقامی چرواہے اللہ رکھیہ کو بھی قتل کردیا تھا۔ مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ معمولی چور سے سنگ دل قاتل تک کا سفر گبی لاڑ کا ذاتی فعل سہی مگر اس میں کہیں نہ کہیں اس کے حلقہ احباب' اہل علاقہ اور پولیس کی کوتاہیاں بھی شامل ہیں۔ گبی لاڑ جو اب دہشت کی علامت بن چکا ہے' مظلوم خاندان آر پی او بہاول پور غلام رسول زاہد اور ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ سے آس لگائے بیٹھا ہے کہ پولیس اسے کب گرفتار کرتی ہے' اس کا فیصلہ میں نے اور آپ نے نہیں' پولیس نے کرنا ہے۔

مگر یہاں فکر انگیز یہ بات ہے کہ قاتل اسی تھانے کی حدود میں گھومتا رہے جس میں اس کے خلاف دو مقدمات درج ہیں اور اس بستی میں آ کر غنڈہ گردی اور قتل کی واردات کر جائے جس میں پہلے بھی قتل کر چکا ہو' پولیس کے لئے لمحہ فکریہ اور پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی ہیٹ ٹرک کرنے والے ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کے لئے چیلنج ہے۔ ملزم کا گرفتار ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ غم سے نڈھال ایک عورت شوہر اور بیٹوں کے قاتل کو مرنے سے قبل تختہ دار یا خون میں لت پت دیکھنا چاہتی ہے اور یقیناً اسی سے ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔
Load Next Story