سیاست دان دخل اندازی نہ کریں
پولیس کے لیے جرائم پر قابو پانا معمولی بات ہے
ضلع چکوال کا شمار مارشل علاقوں میں پہلے نمبر پر آتا ہے، اس ضلع کی 50 فی صد آبادی کا انحصار افواج پاکستان اور ملک کے دیگر اداروں میں ملازمت پر ہے۔
جب کہ اس کی 20 فی صد آبادی بیرون ملک محنت مزدوری کر کے اربوں روپے زرمبادلہ کی شکل میں بھجوا رہی ہے، جس سے ملکی معیشت مضبوط ہو رہی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے گھر والوں کے جان و مال تک محفوظ نہیں۔
کچھ عرصہ قبل یہ ضلع پر امن کہلاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرائم کی شرح میں اس تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ اب کوئی شخص بھی اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتا اور اب تو ان جرائم پیشہ عناصر نے پورے ضلع کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ شہری نہ رات کو سکون سے سو سکتے ہیں اور نہ دن میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں ہونے والے جرائم جن میں ڈکیتی، چوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم میں ملوث 90 فی صد ملزموں کا تعلق دیگر اضلاع سے ہے جب کہ مقامی طور پر 10 فی صد ملزم ان جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ مل کر لوٹ مار کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں۔
گذشتہ پانچ سال کے دوران جرائم میں ہونے والے اضافے کی بڑی وجوہات سابق حکومتی ارباب اختیار کی طرف سے مجرموں کی پشت پناہی اور پولیس پر ناجائز دباؤ تھا۔ اگر پولیس کسی ملزم کو گرفتار بھی کرتی تھی تو ان ارباب اختیار کا ایک فون مجرموں کو چھوڑنے کے لیے کافی ہوتا تھا، یہ ہی وجہ تھی کہ مجرم نہایت دیدہ دلیری سے لوٹ مار کا بازار گرم رکھے ہوئے تھے۔
جیسے ہی حکومتوں کا خاتمہ ہوا اور ملک میں نگرانوں نے چارج سنبھالا تو صوبے کے تمام اضلاع سے ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران، جن میں تھانوں کے محرر سے لے کر ایس ایچ او ز، ڈی ایس پیز اور ڈی پی او اور ڈی آئی جی تک تمام افسران کو تبدیل کر کے ان کی جگہ غیر جانب دار پولیس افسران کو تعینات کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ انتخابات کو غیر جانب دارانہ اور منصفانہ ماحول میں کروانے کے ساتھ ساتھ عوام کے جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنائیں، نیز جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
چکوال میں متعین ہونے والے ڈی پی او احمد ارسلان کی تعیناتی چوں کہ خالص میرٹ پر کی گئی ہے اور اس میں کسی ایم پی اے کی سفارش شامل نہیں ہے، لہٰذا انہوں نے چارج سنبھالتے ہی اپنے ماتحت پولیس افسران کو حکم دیا کہ وہ مظلوموں کی دادرسی اور ظالموں کی سرکوبی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور اس ضمن میں کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ انہوں نے چکوال شہر اور دیگر علاقوں میں ہونے والی ڈکیتیوں کا سراغ لگانے کے لیے ضلع بھر میں ڈی ایس پیز کی سربراہی میں چار ٹیمیں تشکیل دے کر انہیں ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دیا جب کہ صدر سرکل چکوال میں ڈی ایس پی ریاض احمد چیمہ اور ایس ایچ او سٹی چکوال خان شبیر پر مشتمل ٹیم نے کام شروع کر دیا ہے۔
سب سے پہلے ڈی ایس پی نے گذشتہ تین ماہ کے دوران ہونے والی ڈکیتیوں کا ریکارڈ طلب کیا،جس میں ڈاکو دن دیہاڑے لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر لاکھوں روپے مالیت کے زیورات اور نقدی لے اڑے تھے، دوسرے یہ ڈاکو راہ چلتی خواتین سے بھی زیورات اور نقدی چھین لیتے تھے، اس عرصے میں چکوال شہر اور اس کے گرد و نواح میں درجنوں ڈکیتی کی وارداتیں ہوچکی تھیں، جس پر ڈی ایس پی صدر سرکل نے ڈاکووں کی گرفتاری کے لیے سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس کے جوانوں کو شہر میں گشت کرنے اور عوام سے قریبی رابطہ کر کے مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایت کی۔
گذشتہ شب 8 بجے کے قریب پولیس کو اطلاع ملی کہ میونسپل اسٹیڈیم میں پانچ مشکوک افراد بیٹھے ہوئے کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس پر ایس ایچ او نے پولیس کی بھاری نفری کے ہم راہ اسٹیڈیم کا محاصرہ کر لیا اور پولیس کمانڈو اندر داخل ہو گئے اور چار ڈاکوؤں کو گرفتار کر لیا جب کہ ایک ملزم رات کی تاریکی میں فرار ہو گیا۔ گرفتار ہونے ہونے والے ملزمان سے تین پستول، ایک پمپ ایکشن بندوق، جو ڈاکوؤں نے محلہ فاروقی چکوال کے ایک گھر میں ڈکیتی کے دوران چھینی تھی، اور ایک خنجر بھی برآمد کر لیا گیا۔
ملزمان میں محمد یونس ولد عبدالعزیز سکنہ منڈی بہاوالدین، محمد حنیف عرف بھولا ولد محمد صدیق سکنہ شیخوپورہ، ندیم سجاد ولد غلام سجاد سکنہ جبیر پور چکوال، محمد منصور ولد محمد بشیر سکنہ نیلہ چکوال شامل ہیں جب کہ فرار ہونے والا ملزم محمد ریاض ولد عبدالعزیز سکنہ منڈی بہاؤالدین ہے، جس کی گرفتاری کے لیے پولیس پارٹی روانہ کر دی گئی ہے۔ یہ ملزمان منڈی بہاؤالدین ، شیخوپورہ ، راول پنڈی کے مختلف تھانوں میں ڈکیتی کی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب ہیں جب کہ کچھ تھانوں میں اشتہاری بھی قرار دیے جا چکے ہیں۔
ملزمان نے چکوال میں کی جانے والی ڈکیتیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے قاضی ارشد محلہ قائد آباد کے گھرمیں داخل ہو کر لاکھوں روپے نقدی اور زیورات موبائل فون اسلحہ کی نوک پر لوٹ لیے تھے۔
دوسری واردات ابوبکر محلہ رحمانیہ کے گھر میں داخل ہو کر لاکھوں روپے نقدی اور زیورات موبائل فون چھین لیے تھے جب کہ تیسری واردات ظفر اقبال الخاکی ہوٹل کے مالک کے گھر میں داخل ہو کر لاکھوں روپے نقدی اور زیورات لوٹ کر فرار ہو گئے تھے، چوتھی وارادات شوکت حیات آف پیر کھارا شریف، جو محلہ فاروقی میں رہائش پذیر ہیں، کے گھر میں داخل ہو کر لاکھوں روپے نقدی اور زیورات موبائل فون اور ایک پمپ ایکشن بندوق، جو پولیس نے قبضہ میں لے لی ہے، چھین کر فرار ہو گئے تھے، پانچویں واردات انہوں نے ڈاکٹر عبداللہ کی خواتین، جو کہ رکشا میں سوار ہو کر گھر جا رہی تھیں، کو روک کر ان سے زیورات اور نقدی اور موبائل فون چھین لیا تھا جب کہ ملزمان نے بتایا کہ انہوں نے راول پنڈی کے تھانہ بنی اور تھانہ اصغر مال سکیم سے بھی ڈکیتی کی وارداتوں میں لاکھوں روپے لوٹے تھے جب کہ اس سے پہلے وہ منڈی بہاوالدین اور شیخوپورہ میں بھی ڈکیتی کی وارداتیں کر چکے ہیں ملزمان سے مزید تفتیش ہو رہی ہے جس میں اہم انکشاف کی توقع کی جارہی ہے۔
ملزمان کی گرفتار ی سے ڈکیتیوں کی وارداتوں میں تو ٹھہراؤ آ گیا لیکن چوری کی وارداتیں ابھی تک جاری ہیں جس کے لیے ڈی پی او نے پولیس کو ٹاسک دے دیا ہے کہ وہ جلد از جلد چوروں کو گرفتار کریں بہ صورت دیگر ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پولیس چاہے تو ملزمان کو نہ صرف گرفتار کیا جاسکتا ہے بلکہ شہروں میں امن وامان بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ چکوال میں ہونے والی ڈکیتیوں اور چوریوں کے ملزمان کو سابق پولیس افسران کی طرف سے گرفتا ر نہ کرنا ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے۔
کیا سابق پولیس افسران ان ڈاکوں اور چوروں کی سرپرستی تو نہیں کرتے رہے؟ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں چوریاں اور ڈکیتیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہو کر رہ گئے تھے، اس وقت کے ڈی پی او چکوال نے کیوں اپنے ماتحتوں کے خلاف ایکشن نہ لیا؟ یہ ایسے سوالات ہیں کہ جن کا شاید ان کے پاس کوئی جواب نہ ہو البتہ موجودہ ڈی پی او کو اس بات کا ضرور کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے چارچ سنبھالتے ہی اپنے ماتحت افسران کو ٹاسک دے کر ڈاکوؤں کی گرفتاری کا حکم دیا جو قابل تحسین امر ہے۔
کاش ہمارے ملک کی پولیس کو سیاست دانوں کے نرغے سے نکال کر میرٹ پر ان کی تعیناتی ہوتی رہے تو دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ جرائم کی شرح کم ترین درجے پر پہنچ جائے گی، اس کے ساتھ ڈی پی او چکوال سے معززین نے ملاقات کر کے بتایا کہ منشیات فروشوں نے نوجوان نسل کو برباد کر کے رکھ دیا ہے، جس پر انہوں نے پولیس کو منشیات فروشوں کے خلاف بھی فوری کارروائی کا حکم دیا۔ اب ضلع بھر میں پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے 50 ملزموں کو گرفتار کر کے ناجائز اسلحہ میں 18 پستول 8 ریوالور 5 بندوق 12 بور 2 رائفل 7mm جبکہ چرس 3700 گرام 36 بوتل شراب اور 100 سے زائد کارتوس برآمد کر لیے۔
سب سے زیادہ کارروائی چکوال کے سہراب گوٹھ دربار بخاری چکوال سے ایس ایچ او خان شبیر نے چھاپہ مار کر پانچ منشیات فروش عورتوں کو گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں چرس برآمد کر لی۔ پولیس کی دس روز کی اس کارروائی سے علاقہ کے عوام نے ڈی پی او چکوال کو خراج تحسین پیش کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ چکوال میں شراب فروخت کرنے والوں اور ان افسران کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے جو خود بھی شراب پیتے ہیں اور منشیات فروشوں کو تحفظ بھی فراہم کر تے ہیں۔
جب کہ اس کی 20 فی صد آبادی بیرون ملک محنت مزدوری کر کے اربوں روپے زرمبادلہ کی شکل میں بھجوا رہی ہے، جس سے ملکی معیشت مضبوط ہو رہی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے گھر والوں کے جان و مال تک محفوظ نہیں۔
کچھ عرصہ قبل یہ ضلع پر امن کہلاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرائم کی شرح میں اس تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ اب کوئی شخص بھی اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتا اور اب تو ان جرائم پیشہ عناصر نے پورے ضلع کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ شہری نہ رات کو سکون سے سو سکتے ہیں اور نہ دن میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں ہونے والے جرائم جن میں ڈکیتی، چوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم میں ملوث 90 فی صد ملزموں کا تعلق دیگر اضلاع سے ہے جب کہ مقامی طور پر 10 فی صد ملزم ان جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ مل کر لوٹ مار کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں۔
گذشتہ پانچ سال کے دوران جرائم میں ہونے والے اضافے کی بڑی وجوہات سابق حکومتی ارباب اختیار کی طرف سے مجرموں کی پشت پناہی اور پولیس پر ناجائز دباؤ تھا۔ اگر پولیس کسی ملزم کو گرفتار بھی کرتی تھی تو ان ارباب اختیار کا ایک فون مجرموں کو چھوڑنے کے لیے کافی ہوتا تھا، یہ ہی وجہ تھی کہ مجرم نہایت دیدہ دلیری سے لوٹ مار کا بازار گرم رکھے ہوئے تھے۔
جیسے ہی حکومتوں کا خاتمہ ہوا اور ملک میں نگرانوں نے چارج سنبھالا تو صوبے کے تمام اضلاع سے ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران، جن میں تھانوں کے محرر سے لے کر ایس ایچ او ز، ڈی ایس پیز اور ڈی پی او اور ڈی آئی جی تک تمام افسران کو تبدیل کر کے ان کی جگہ غیر جانب دار پولیس افسران کو تعینات کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ انتخابات کو غیر جانب دارانہ اور منصفانہ ماحول میں کروانے کے ساتھ ساتھ عوام کے جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنائیں، نیز جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
چکوال میں متعین ہونے والے ڈی پی او احمد ارسلان کی تعیناتی چوں کہ خالص میرٹ پر کی گئی ہے اور اس میں کسی ایم پی اے کی سفارش شامل نہیں ہے، لہٰذا انہوں نے چارج سنبھالتے ہی اپنے ماتحت پولیس افسران کو حکم دیا کہ وہ مظلوموں کی دادرسی اور ظالموں کی سرکوبی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور اس ضمن میں کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ انہوں نے چکوال شہر اور دیگر علاقوں میں ہونے والی ڈکیتیوں کا سراغ لگانے کے لیے ضلع بھر میں ڈی ایس پیز کی سربراہی میں چار ٹیمیں تشکیل دے کر انہیں ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دیا جب کہ صدر سرکل چکوال میں ڈی ایس پی ریاض احمد چیمہ اور ایس ایچ او سٹی چکوال خان شبیر پر مشتمل ٹیم نے کام شروع کر دیا ہے۔
سب سے پہلے ڈی ایس پی نے گذشتہ تین ماہ کے دوران ہونے والی ڈکیتیوں کا ریکارڈ طلب کیا،جس میں ڈاکو دن دیہاڑے لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر لاکھوں روپے مالیت کے زیورات اور نقدی لے اڑے تھے، دوسرے یہ ڈاکو راہ چلتی خواتین سے بھی زیورات اور نقدی چھین لیتے تھے، اس عرصے میں چکوال شہر اور اس کے گرد و نواح میں درجنوں ڈکیتی کی وارداتیں ہوچکی تھیں، جس پر ڈی ایس پی صدر سرکل نے ڈاکووں کی گرفتاری کے لیے سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس کے جوانوں کو شہر میں گشت کرنے اور عوام سے قریبی رابطہ کر کے مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایت کی۔
گذشتہ شب 8 بجے کے قریب پولیس کو اطلاع ملی کہ میونسپل اسٹیڈیم میں پانچ مشکوک افراد بیٹھے ہوئے کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس پر ایس ایچ او نے پولیس کی بھاری نفری کے ہم راہ اسٹیڈیم کا محاصرہ کر لیا اور پولیس کمانڈو اندر داخل ہو گئے اور چار ڈاکوؤں کو گرفتار کر لیا جب کہ ایک ملزم رات کی تاریکی میں فرار ہو گیا۔ گرفتار ہونے ہونے والے ملزمان سے تین پستول، ایک پمپ ایکشن بندوق، جو ڈاکوؤں نے محلہ فاروقی چکوال کے ایک گھر میں ڈکیتی کے دوران چھینی تھی، اور ایک خنجر بھی برآمد کر لیا گیا۔
ملزمان میں محمد یونس ولد عبدالعزیز سکنہ منڈی بہاوالدین، محمد حنیف عرف بھولا ولد محمد صدیق سکنہ شیخوپورہ، ندیم سجاد ولد غلام سجاد سکنہ جبیر پور چکوال، محمد منصور ولد محمد بشیر سکنہ نیلہ چکوال شامل ہیں جب کہ فرار ہونے والا ملزم محمد ریاض ولد عبدالعزیز سکنہ منڈی بہاؤالدین ہے، جس کی گرفتاری کے لیے پولیس پارٹی روانہ کر دی گئی ہے۔ یہ ملزمان منڈی بہاؤالدین ، شیخوپورہ ، راول پنڈی کے مختلف تھانوں میں ڈکیتی کی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب ہیں جب کہ کچھ تھانوں میں اشتہاری بھی قرار دیے جا چکے ہیں۔
ملزمان نے چکوال میں کی جانے والی ڈکیتیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے قاضی ارشد محلہ قائد آباد کے گھرمیں داخل ہو کر لاکھوں روپے نقدی اور زیورات موبائل فون اسلحہ کی نوک پر لوٹ لیے تھے۔
دوسری واردات ابوبکر محلہ رحمانیہ کے گھر میں داخل ہو کر لاکھوں روپے نقدی اور زیورات موبائل فون چھین لیے تھے جب کہ تیسری واردات ظفر اقبال الخاکی ہوٹل کے مالک کے گھر میں داخل ہو کر لاکھوں روپے نقدی اور زیورات لوٹ کر فرار ہو گئے تھے، چوتھی وارادات شوکت حیات آف پیر کھارا شریف، جو محلہ فاروقی میں رہائش پذیر ہیں، کے گھر میں داخل ہو کر لاکھوں روپے نقدی اور زیورات موبائل فون اور ایک پمپ ایکشن بندوق، جو پولیس نے قبضہ میں لے لی ہے، چھین کر فرار ہو گئے تھے، پانچویں واردات انہوں نے ڈاکٹر عبداللہ کی خواتین، جو کہ رکشا میں سوار ہو کر گھر جا رہی تھیں، کو روک کر ان سے زیورات اور نقدی اور موبائل فون چھین لیا تھا جب کہ ملزمان نے بتایا کہ انہوں نے راول پنڈی کے تھانہ بنی اور تھانہ اصغر مال سکیم سے بھی ڈکیتی کی وارداتوں میں لاکھوں روپے لوٹے تھے جب کہ اس سے پہلے وہ منڈی بہاوالدین اور شیخوپورہ میں بھی ڈکیتی کی وارداتیں کر چکے ہیں ملزمان سے مزید تفتیش ہو رہی ہے جس میں اہم انکشاف کی توقع کی جارہی ہے۔
ملزمان کی گرفتار ی سے ڈکیتیوں کی وارداتوں میں تو ٹھہراؤ آ گیا لیکن چوری کی وارداتیں ابھی تک جاری ہیں جس کے لیے ڈی پی او نے پولیس کو ٹاسک دے دیا ہے کہ وہ جلد از جلد چوروں کو گرفتار کریں بہ صورت دیگر ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پولیس چاہے تو ملزمان کو نہ صرف گرفتار کیا جاسکتا ہے بلکہ شہروں میں امن وامان بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ چکوال میں ہونے والی ڈکیتیوں اور چوریوں کے ملزمان کو سابق پولیس افسران کی طرف سے گرفتا ر نہ کرنا ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے۔
کیا سابق پولیس افسران ان ڈاکوں اور چوروں کی سرپرستی تو نہیں کرتے رہے؟ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں چوریاں اور ڈکیتیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہو کر رہ گئے تھے، اس وقت کے ڈی پی او چکوال نے کیوں اپنے ماتحتوں کے خلاف ایکشن نہ لیا؟ یہ ایسے سوالات ہیں کہ جن کا شاید ان کے پاس کوئی جواب نہ ہو البتہ موجودہ ڈی پی او کو اس بات کا ضرور کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے چارچ سنبھالتے ہی اپنے ماتحت افسران کو ٹاسک دے کر ڈاکوؤں کی گرفتاری کا حکم دیا جو قابل تحسین امر ہے۔
کاش ہمارے ملک کی پولیس کو سیاست دانوں کے نرغے سے نکال کر میرٹ پر ان کی تعیناتی ہوتی رہے تو دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ جرائم کی شرح کم ترین درجے پر پہنچ جائے گی، اس کے ساتھ ڈی پی او چکوال سے معززین نے ملاقات کر کے بتایا کہ منشیات فروشوں نے نوجوان نسل کو برباد کر کے رکھ دیا ہے، جس پر انہوں نے پولیس کو منشیات فروشوں کے خلاف بھی فوری کارروائی کا حکم دیا۔ اب ضلع بھر میں پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے 50 ملزموں کو گرفتار کر کے ناجائز اسلحہ میں 18 پستول 8 ریوالور 5 بندوق 12 بور 2 رائفل 7mm جبکہ چرس 3700 گرام 36 بوتل شراب اور 100 سے زائد کارتوس برآمد کر لیے۔
سب سے زیادہ کارروائی چکوال کے سہراب گوٹھ دربار بخاری چکوال سے ایس ایچ او خان شبیر نے چھاپہ مار کر پانچ منشیات فروش عورتوں کو گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں چرس برآمد کر لی۔ پولیس کی دس روز کی اس کارروائی سے علاقہ کے عوام نے ڈی پی او چکوال کو خراج تحسین پیش کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ چکوال میں شراب فروخت کرنے والوں اور ان افسران کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے جو خود بھی شراب پیتے ہیں اور منشیات فروشوں کو تحفظ بھی فراہم کر تے ہیں۔