نوجوان ڈائریکٹر فلم انڈسٹری میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجائیں گے
سٹوڈیو ویران ہوگئے، فنکاروں کو تو اس وجہ سے زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑا کہ انہیں ٹی وی انڈسٹری کی شکل میں مضبوط...
پاکستان میں فلم انڈسٹری کی انتہائی خراب صورتحال سے نہ صرف فلم انڈسٹری سے وابستہ بے شمار ٹیکنیشنز مالی مشکلات کا شکار ہوئے۔
سٹوڈیو ویران ہوگئے، فنکاروں کو تو اس وجہ سے زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑا کہ انہیں ٹی وی انڈسٹری کی شکل میں مضبوط سہارا مل گیا جس نے انہیں پہلے سے بھی زیادہ خوشحال بنا دیا ہے ،لیکن سٹوڈیوز میں کام کرنے والے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوئے، ان کے گھروں میں فاقہ کشی تک کی نوبت آگئی، لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں وہ اب بھی اس کے منتظر ہیں کہ لاکھوں اور کروڑوں روپے کمانے والے فلم پروڈیوسرز اور فنکاروں کو ان پر ترس آجائے اور وہ ان کو ایک نئی زندگی کی خوشخبری دیں ۔
لیکن پندرہ سال کا عرصہ گزر گیا مگر ابھی تک ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آرہی کہ جنہوں نے فلم ٹریڈ سے کروڑوں کمایا اور وہ اس کی بحالی کے لئے سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔ البتہ جب کبھی بھی فلم کی بحالی کے حوالے سے ان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بیانات کا تسلسل جاری ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ اس بحران کے خاتمہ کے لئے کس قدر سنجیدہ ہیں۔
بہرحال چند ایک ایسے لوگ آج بھی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے پوری ایمانداری سے کوشاں ہیں ۔ ان چند ایک لوگوں کا کام نظر بھی آرہا ہے ۔سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ روایتی فلم میکرز کی جگہ نیا ٹیلنٹ سنبھالنے کے لئے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتر چکا ہے جو نہ صرف جدید فلم تکنیک سے پوری طرح آگاہی رکھتے ہیں بلکہ نئی سوچ کو پردہ سکرین پر دکھانے کے لئے بے تاب بھی ہیں۔گزشتہ سال ہم نے اپنے ایک مضمون میں اس بات کی نشاندہی کرچکے ہیں کہ بہت جلد فلم انڈسٹری میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔
2013ء پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے اہم ثابت ہوگا ،خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے باصلاحیت نوجوانوں نے جو ٹیلی ویژن انڈسٹری میں اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہیں، اب وہ میدان عمل میں آچکے ہیں اور ان کا عزم ہے کہ پاکستان کی وہ فلم انڈسٹری جس نے دنیا بھر میں زبردست شہرت حاصل کی، وہ فنکار کہ جنہوں نے فلم انڈسٹری کی تاریخ مرتب کی وہ ڈائریکٹر جنہوں نے انمٹ نقوش چھوڑے ان کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ اسی عزم اور حوصلے کے ساتھ فلم انڈسٹری کی بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے۔گزشتہ سال اس سلسلے میں چند پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر نے فلمیں شروع کی تھیں ۔
جو ملک کے حالات کی وجہ سے نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکیں،ان میں اداکار شمعون عباسی کی فلم ''گدھ'' تنویر جمال کی فلم ''اب پیامبر نہیں آئیں گے'' لاشاری کی فلم ''وار'' ہمایوں سعید کی فلم '' بوم بوم آفریدی'' وغیرہ قابل ذکر ہیں، یہ فلمیں مکمل ہوچکی ہیں، لیکن ان کی نمائش نہ ہوسکی،گزشتہ سال پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے اس لحاظ سے بھی بہت اچھا رہا کہ پاکستان کی پہلی فلم کو آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ جس نے دنیا بھر میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کا نام روشن کیا گو کہ یہ ایک ڈاکومنٹری فلم تھی، لیکن کسی پاکستانی ڈائریکٹر کی فلم کو آسکر ایوارڈ ملنا کسی اعزاز سے کم نہیں، پاکستان کی ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے نے ''فیس آف ''کے نام سے جو فلم بنائی وہ ایک عمدہ موضو ع کی وجہ سے پسند کی۔
2013ء میں ایک بار پھر نوجوان ڈائریکٹرز نے فلموں کا آغاز کیا ۔ان میں اداکار اور ہدایتکار انجم شہزاد کی ایک فلم ریلیز ہوچکی ہے، جس نے زبردست کامیابی حاصل کی اس فلم کے پروڈیوسر عبداﷲکادوانی ہیں جس میں ٹیلی ویژن کے نامور فنکاروں نے شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ان کے علاوہ یاسر نواز، ہمایوں شہزاد، فاروق مینگل، ثاقب ملک اور آمنہ شیخ بھی فلم انڈسٹری کا حصہ بننے جارہے ہیں۔
فاروق مینگل ان دنوں ''ہجرت'' کے نام سے فلم کی عکسبندی میں مصروف ہیں۔خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ پراجیکٹ میں نام نہاد سپرسٹارز کی بجائے نئے ٹیلنٹ کو موقع دیا جارہا ہے جبکہ مائرہ خان ، احسن خان ، ہمایوں شہزاد، ہمایوں ناز، احتشام الدین ، آمنہ شیخ، محب مرزا، عائشہ خان ، مونا لیزا، عمائمہ ملک کی صورت میں ہمارے پاس بہترین فنکار دستیاب ہیں۔
ان دنوںشہزاد رفیق کی فلم ''عشق خدا''، فاروق مینگل ''ہجرت'' ثاقب ملک اور دیگر لوگوں کی فلمیں زیر تکمیل ہیں۔آمنہ شیخ اور محب مرزا کی فلم ''جوش'' گزشتہ دنوں سنیماؤں پر ریلیز کی گئی ،جسے بہت پسند کیا گیا،جبکہ یہ فلم بھارت اور امریکا میں بھی دکھائی گئی۔ اس فلم کو فیسٹیول کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے، ٹیلی ویژن ڈائریکٹرز کی دو فلموں کی کامیابی نے اور بھی لوگوں کا حوصلہ بڑھایا اور جلد چند اور فلمیں شروع کی جارہی ہیں پاکستان کی فلم انڈسٹری کے سینئر ڈائریکٹر سید نور وہ واحد ہدایتکار ہیں جو اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
جبکہ ہدایتکار جرار رضوی، اقبال کاشمیری، سنگیتا، اداکار سعود اور دیگر ہدایتکار بھی فلمیں بنانے میں سنجیدہ ہیں اب جبکہ پاکستان میں الیکشن کا انعقاد ہوچکا ہے اور ایک نئی عوامی حکومت بننے جارہی ہے ۔فلم انڈسٹری والوں نے نئی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ گزشتہ حکومت توکلچرل پالیسی بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی اور نہ ہی گزشتہ حکومت نے فلم انڈسٹری کے لیے کوئی کام کیا، یہاں تک کہ پاکستان فلم سنسر بورڈ بھی تشکیل نہ پاسکا، لیکن نئی قیادت اور نئی حکومت فلم انڈسٹری کی بحالی اور اس کے فروغ کے لیے ضرور اہم اقدامات کرے گی۔
فلم انڈسٹری کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، خاص طور سے نوجوان فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹرز کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ فلم انڈسٹری کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے، سنیما انڈسٹری جو چند افراد کی کوششوں سے بہتری کی طرف گامزن ہے حکومت کی دلچسپی سے اس کی ترقی میں اضافہ ہوگا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ جو پاکستان میںاچھی اور معیاری فلمیں بنانا چاہتے ہیں سنیما کلچر کی وجہ سے ملک میں لوگوں کو بہتر تفریح کے ذرائع ملیں گے۔
سٹوڈیو ویران ہوگئے، فنکاروں کو تو اس وجہ سے زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑا کہ انہیں ٹی وی انڈسٹری کی شکل میں مضبوط سہارا مل گیا جس نے انہیں پہلے سے بھی زیادہ خوشحال بنا دیا ہے ،لیکن سٹوڈیوز میں کام کرنے والے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوئے، ان کے گھروں میں فاقہ کشی تک کی نوبت آگئی، لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں وہ اب بھی اس کے منتظر ہیں کہ لاکھوں اور کروڑوں روپے کمانے والے فلم پروڈیوسرز اور فنکاروں کو ان پر ترس آجائے اور وہ ان کو ایک نئی زندگی کی خوشخبری دیں ۔
لیکن پندرہ سال کا عرصہ گزر گیا مگر ابھی تک ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آرہی کہ جنہوں نے فلم ٹریڈ سے کروڑوں کمایا اور وہ اس کی بحالی کے لئے سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔ البتہ جب کبھی بھی فلم کی بحالی کے حوالے سے ان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بیانات کا تسلسل جاری ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ اس بحران کے خاتمہ کے لئے کس قدر سنجیدہ ہیں۔
بہرحال چند ایک ایسے لوگ آج بھی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے پوری ایمانداری سے کوشاں ہیں ۔ ان چند ایک لوگوں کا کام نظر بھی آرہا ہے ۔سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ روایتی فلم میکرز کی جگہ نیا ٹیلنٹ سنبھالنے کے لئے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتر چکا ہے جو نہ صرف جدید فلم تکنیک سے پوری طرح آگاہی رکھتے ہیں بلکہ نئی سوچ کو پردہ سکرین پر دکھانے کے لئے بے تاب بھی ہیں۔گزشتہ سال ہم نے اپنے ایک مضمون میں اس بات کی نشاندہی کرچکے ہیں کہ بہت جلد فلم انڈسٹری میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔
2013ء پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے اہم ثابت ہوگا ،خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے باصلاحیت نوجوانوں نے جو ٹیلی ویژن انڈسٹری میں اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہیں، اب وہ میدان عمل میں آچکے ہیں اور ان کا عزم ہے کہ پاکستان کی وہ فلم انڈسٹری جس نے دنیا بھر میں زبردست شہرت حاصل کی، وہ فنکار کہ جنہوں نے فلم انڈسٹری کی تاریخ مرتب کی وہ ڈائریکٹر جنہوں نے انمٹ نقوش چھوڑے ان کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ اسی عزم اور حوصلے کے ساتھ فلم انڈسٹری کی بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے۔گزشتہ سال اس سلسلے میں چند پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر نے فلمیں شروع کی تھیں ۔
جو ملک کے حالات کی وجہ سے نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکیں،ان میں اداکار شمعون عباسی کی فلم ''گدھ'' تنویر جمال کی فلم ''اب پیامبر نہیں آئیں گے'' لاشاری کی فلم ''وار'' ہمایوں سعید کی فلم '' بوم بوم آفریدی'' وغیرہ قابل ذکر ہیں، یہ فلمیں مکمل ہوچکی ہیں، لیکن ان کی نمائش نہ ہوسکی،گزشتہ سال پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے اس لحاظ سے بھی بہت اچھا رہا کہ پاکستان کی پہلی فلم کو آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ جس نے دنیا بھر میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کا نام روشن کیا گو کہ یہ ایک ڈاکومنٹری فلم تھی، لیکن کسی پاکستانی ڈائریکٹر کی فلم کو آسکر ایوارڈ ملنا کسی اعزاز سے کم نہیں، پاکستان کی ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے نے ''فیس آف ''کے نام سے جو فلم بنائی وہ ایک عمدہ موضو ع کی وجہ سے پسند کی۔
2013ء میں ایک بار پھر نوجوان ڈائریکٹرز نے فلموں کا آغاز کیا ۔ان میں اداکار اور ہدایتکار انجم شہزاد کی ایک فلم ریلیز ہوچکی ہے، جس نے زبردست کامیابی حاصل کی اس فلم کے پروڈیوسر عبداﷲکادوانی ہیں جس میں ٹیلی ویژن کے نامور فنکاروں نے شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ان کے علاوہ یاسر نواز، ہمایوں شہزاد، فاروق مینگل، ثاقب ملک اور آمنہ شیخ بھی فلم انڈسٹری کا حصہ بننے جارہے ہیں۔
فاروق مینگل ان دنوں ''ہجرت'' کے نام سے فلم کی عکسبندی میں مصروف ہیں۔خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ پراجیکٹ میں نام نہاد سپرسٹارز کی بجائے نئے ٹیلنٹ کو موقع دیا جارہا ہے جبکہ مائرہ خان ، احسن خان ، ہمایوں شہزاد، ہمایوں ناز، احتشام الدین ، آمنہ شیخ، محب مرزا، عائشہ خان ، مونا لیزا، عمائمہ ملک کی صورت میں ہمارے پاس بہترین فنکار دستیاب ہیں۔
ان دنوںشہزاد رفیق کی فلم ''عشق خدا''، فاروق مینگل ''ہجرت'' ثاقب ملک اور دیگر لوگوں کی فلمیں زیر تکمیل ہیں۔آمنہ شیخ اور محب مرزا کی فلم ''جوش'' گزشتہ دنوں سنیماؤں پر ریلیز کی گئی ،جسے بہت پسند کیا گیا،جبکہ یہ فلم بھارت اور امریکا میں بھی دکھائی گئی۔ اس فلم کو فیسٹیول کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے، ٹیلی ویژن ڈائریکٹرز کی دو فلموں کی کامیابی نے اور بھی لوگوں کا حوصلہ بڑھایا اور جلد چند اور فلمیں شروع کی جارہی ہیں پاکستان کی فلم انڈسٹری کے سینئر ڈائریکٹر سید نور وہ واحد ہدایتکار ہیں جو اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
جبکہ ہدایتکار جرار رضوی، اقبال کاشمیری، سنگیتا، اداکار سعود اور دیگر ہدایتکار بھی فلمیں بنانے میں سنجیدہ ہیں اب جبکہ پاکستان میں الیکشن کا انعقاد ہوچکا ہے اور ایک نئی عوامی حکومت بننے جارہی ہے ۔فلم انڈسٹری والوں نے نئی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ گزشتہ حکومت توکلچرل پالیسی بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی اور نہ ہی گزشتہ حکومت نے فلم انڈسٹری کے لیے کوئی کام کیا، یہاں تک کہ پاکستان فلم سنسر بورڈ بھی تشکیل نہ پاسکا، لیکن نئی قیادت اور نئی حکومت فلم انڈسٹری کی بحالی اور اس کے فروغ کے لیے ضرور اہم اقدامات کرے گی۔
فلم انڈسٹری کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، خاص طور سے نوجوان فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹرز کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ فلم انڈسٹری کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے، سنیما انڈسٹری جو چند افراد کی کوششوں سے بہتری کی طرف گامزن ہے حکومت کی دلچسپی سے اس کی ترقی میں اضافہ ہوگا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ جو پاکستان میںاچھی اور معیاری فلمیں بنانا چاہتے ہیں سنیما کلچر کی وجہ سے ملک میں لوگوں کو بہتر تفریح کے ذرائع ملیں گے۔