امریکی ڈرون حملے جاری رہیں گے

اخباری اطلاعات کے مطابق امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگون نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں سے متعلق...


Editorial May 18, 2013
پاکستان میں ڈرون حملوں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی نہیں ہو گی، پینٹاگون۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

اخباری اطلاعات کے مطابق امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگون نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی نہیں ہو گی اور جہاں ضرورت پڑی وہاں ڈرون حملے کیے جائیں گے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق خصوصی فوجی آپریشنز کے بارے میں نائب وزیر دفاع مائیکل شیہان نے امریکا کی سینیٹ کی کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ القاعدہ کے خلاف جنگ مزید 20 سال جاری رہ سکتی ہے، جب کہ امریکا دنیا کے کسی بھی حصے میں دہشت گردوں کو ہدف بنا سکتا ہے، چاہے وہ شام ہی کیوں نہ ہو۔

ڈرون حملوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں، دنیا بھر میں ان حملوں کا کنٹرول فوج کو دیے جانے کے باوجود پالیسی برقرار رہے گی۔ امریکا کے پالیسی ساز حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا کے دشمنوں کا تعین امریکی محکمہ دفاع کرے گا البتہ تمام حملوں کی حتمی منظوری کے لیے امریکا کے صدر بارک اوباما سے حکم کی توثیق کرانا لازم ہو گا۔ امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈرون حملوں سے متعلق امریکی کانگریس کے اختیارات میں تبدیلی کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دہشت گردوں کا تعاقب بوسٹن سے لے کر پاکستانی قبائلی علاقے فاٹا تک جاری رہے گا۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں خاصے عرصے سے امریکا کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ امریکا کا مؤقف ہے کہ یہ حملے ان علاقوں میں چھپے ہوئے القاعدہ کے لوگوں پر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی سبکدوش ہونے والی حکومت امریکا کے ڈرون حملوں پر احتجاج کرتی رہی مگر یہ حملے بدستور جاری رہے'اور اب بھی جاری ہیں۔ اب میڈیا میں آنے والی تازہ اطلاعات سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت امریکا کو اجازت دے نہ دے وہ اپنے ڈرون حملے بہر صورت جاری رکھے گا۔ ڈرون حملے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بعض ممالک بھی ہو رہے ہیں جہاں امریکی اطلاعات کے مطابق القاعدہ کے عناصر چھپے ہوئے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے۔

یمن' عراق' لیبیا' شام اور صومالیہ وغیرہ میں عدم استحکام موجود ہے اور وہاں آئے روز خودکش حملے اور بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کو چھوڑ کر صرف پاکستان کی بات کریں تو یہاں ڈرون حملوں کے حوالے سے خاصی جذباتی فضا موجود ہے۔ یہ جذباتی فضا بنانے میں مذہبی ودیگر سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔ یوں ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں کے مخالفین کا استدلال ہے کہ ان حملوں میں مارے جانے والے تمام افراد دہشت گرد نہیں ہوتے بلکہ بے گناہ افراد بھی مارے جاتے ہیں۔ اس استدلال میں سچائی بھی موجود ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کسی ڈرون حملے میں کئی بے گناہ افراد بھی مارے گئے۔

اس کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عوام میں امریکا کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے جس کے اثرات ملک کے دیگر حصوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ جب ڈرون حملے بند نہیں ہوتے تو عوام حکومت پاکستان کے بارے میں بھی تحفظات کا شکار ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت امریکا کے ساتھ مل کر ڈرون حملے کرا رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں خودکش حملے اور بم دھماکے ہو رہے ہیں ۔معاملات خواہ کچھ بھی ہوں یہ حقیقت ہے کہ اس صورت حال کا فائدہ وہ عناصر اٹھا رہے ہیں جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا ایک مقصد پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات خراب کرنا بھی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان حملوں میں اب تک 2 ہزار 200 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے جن میں 400 معصوم شہری بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جن کی حقانیت جاننے کا کوئی پیمانہ میڈیا کو میسّر نہیں۔

یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈرون حملوں میں خاصی تعداد میں بے گناہ افراد بھی مارے گئے ہیں۔اس وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ردعمل پیدا ہونا قدرتی بات ہے۔ پاکستان میں ایک ڈیڑھ ہفتے میں نئی حکومت اقتدار سنبھالنے والی ہے۔ متوقع وزیراعظم میاں نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کے صدر بارک اوباما سے ڈرون حملے رکوانے کے لیے بات چیت کریں گے۔ وہ پرامید ہیں کہ مسائل کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ بلاشبہ آنے والی حکومت کے لیے خارجہ سطح پر خاصے بڑے چیلنجز موجود ہیں۔ ان میں دہشت گردی اور قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے سرفہرست ہیں۔ ادھر خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے ڈرون حملوں کے بارے میں خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو آنے والے وقت میں پاکستان کی حکومت کے لیے یہ معاملہ ہاٹ ایشو بن جائے گا، اور اسے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔

پاکستان کی سیاسی قیادت کو حقائق سامنے رکھ کر کسی ایشو پر بات کرنی چاہیے، جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس وقت وہ بعض حساس اور پیچیدہ نوعیت کے ایشوز پر جذباتی انداز اختیار کرتی ہے اور جب اسے خود اقتدار ملتا ہے تو حقائق کے مطابق فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان کی مستقبل کی حکومت کو دہشت گردی اور ڈرون حملوں پر امریکی انتظامیہ سے ضرور بات کرنی چاہیے۔ امریکی انتظامیہ کو قائل کیا جانا چاہیے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ کامیابیاں نہیں مل رہی ہیں جو ملنی چاہئیں۔ اگر آئندہ حکومت امریکا کی انتظامیہ کو ڈرون حملوں کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی پر تیار کر لیتی ہے تو اس سے خارجہ سطح پر بڑی مثبت تبدیلی آئے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں