ملکی ترقی امن و امان کی مرہون منت ہے
مالاکنڈ پروٹیکٹڈ ایریا کے پہاڑی علاقے بازدرہ بالا کی 2 مختلف مساجد میں یکے بعد دیگرے بم دھماکوں کے نتیجے میں...
مالاکنڈ پروٹیکٹڈ ایریا کے پہاڑی علاقے بازدرہ بالا کی 2 مختلف مساجد میں یکے بعد دیگرے بم دھماکوں کے نتیجے میں 20 نمازی شہید اور50 زخمی ہو گئے جن میں کئی شدید زخمی ہیں۔ انتخابات کے بعد دہشت گردی کا یہ پہلا الم ناک واقعہ ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتہا پسندی کی لہر تھمی نہیں بلکہ اس کا نئے سرے سے آغاز ہو گیا ہے جو سکیورٹی پر مامور ہمارے حکام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ حقیقت میں دہشت گردی کی داخلی صورتحال سخت تشویش ناک ہے، مساجد اور عبادات کے دیگر مقدس مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے ایسے سفاک لوگ بلاشبہ انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ تاہم ضرورت ان اندوہ ناک واقعات کے تسلسل کے یقینی خاتمہ کی ہے جو ہر محب وطن پاکستان کو لہو رلاتا ہے۔
فاٹا اور بلوچستان کے بعد کراچی ملک کا وہ بد نصیب شہر ہے جہاں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، گزشتہ روز مختلف علاقوں میں بلا جواز فائرنگ سے دو خواتین سمیت 8 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے پیدا شدہ بد امنی کی صورتحال اب بہر حال ایک چیلنج بننی چاہیے۔ مجرموں کی فوری شناخت ہونی چاہیے اور انھیں گرفتار کر کے عبرت ناک سزا دلانے کی ہر ممکن تدبیر وقت کا تقاضہ ہے۔ مقام حیرت ہے کہ دہشت گردی رکنے کا نام نہیں لے رہی، ادھر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کی رہائش گاہ پر دوسری بار فائرنگ کی گئی۔ نبیل گبول نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں اور ان کے بنگلے کو دوسری بار نشانہ بنایا گیا ہے۔
اگرچہ پولیس اور رینجرز کا نام نہاد ٹارگٹڈ آپریشن بھی جاری ہے اور رینجرز نے شہر کے مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران کالعدم تنظیم کے کارندوں سمیت6 ملزمان کو حراست میں بھی لے لیا، مگر قتل و غارت اور بد امنی رک نہیں سکی۔ چنانچہ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیر عالم نے یہ صائب تجویز پیش کی ہے کہ کراچی میں امن و امان کی ذمے داری کسی ایک ادارے کو دے دینی چاہیے، ایک سے زیادہ اداروں کو ذمے داری دی تو اس کا مطلب ہے کوئی ذمہ دار نہیں۔ دہشت گردی کے ملک گیر اجمالی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ صورتحال خاصی سنگین ہے۔ کوئٹہ میں سریاب روڈ پر عوامی پیڑول پمپ کے قریب سے ایک شخص خیر محمد کی لاش برآمد ہوئی جب کہ لیویز نے دشت کے علاقے سے ایک لاش برآمد کی جسے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا، پشاور کے نواحی علاقے متنی میں شرپسندوں کے دو حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے دو اہلکار شہید جب کہ چار پولیس جوان زخمی ہو گئے۔
بتایا جاتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کا قافلہ کوہاٹ سے پشاور آ رہا تھا کہ متنی کے علاقے سرہ خاورہ میں پہلے سے موجود شرپسندوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں دو سیکیورٹی فورسز اہلکار شہید ہو گئے، واضح رہے کہ انتخابات کے بعد پشاور میں پولیس پر بھی یہ پہلا حملہ ہے۔ متنی میں ایک اور واقعہ میں شرپسندوں کی فائرنگ سے گشت پر مامور 4 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ ادھر خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں افغانستان سے آنیوالے کنٹینرز پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک ڈرائیور جاں بحق ہو گیا جب کہ دو گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ مینگورہ کے گرین چوک میں دن دیہاڑے مسلح افراد نے امن کمیٹی دمغار کے سربراہ شاہ دوران خان اور ان کے محافظ کو قتل کر دیا۔
بتایا جاتاہے کہ شاہ دوران خان کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ ن سے تھی، کچھ عرصہ قبل ان کے بھتیجے افضل خان کو بھی گھر کے قریب نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ بلاشبہ ایسے مخدوش حالات میں امن و امان برقرار رکھنا اہم انتظامی فریضہ ہے۔ دہشت گردی کے عفریت کو روکنے کے لیے انتہا پسندی، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز اور بدامنی کے سارے دروازے بند کرنے پڑیں گے۔ اس مقصد کے لیے سکیورٹی فورسز کو ہر دم چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ملکی ترقی امن و امان کی مرہون منت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے حکام ایسا لائحہ عمل اختیار کریں گے کہ دہشت گردی ہمیشہ کے لیے دفن ہو اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر بالاخر قانون کی گرفت میں آ سکیں۔
فاٹا اور بلوچستان کے بعد کراچی ملک کا وہ بد نصیب شہر ہے جہاں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، گزشتہ روز مختلف علاقوں میں بلا جواز فائرنگ سے دو خواتین سمیت 8 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے پیدا شدہ بد امنی کی صورتحال اب بہر حال ایک چیلنج بننی چاہیے۔ مجرموں کی فوری شناخت ہونی چاہیے اور انھیں گرفتار کر کے عبرت ناک سزا دلانے کی ہر ممکن تدبیر وقت کا تقاضہ ہے۔ مقام حیرت ہے کہ دہشت گردی رکنے کا نام نہیں لے رہی، ادھر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کی رہائش گاہ پر دوسری بار فائرنگ کی گئی۔ نبیل گبول نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں اور ان کے بنگلے کو دوسری بار نشانہ بنایا گیا ہے۔
اگرچہ پولیس اور رینجرز کا نام نہاد ٹارگٹڈ آپریشن بھی جاری ہے اور رینجرز نے شہر کے مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران کالعدم تنظیم کے کارندوں سمیت6 ملزمان کو حراست میں بھی لے لیا، مگر قتل و غارت اور بد امنی رک نہیں سکی۔ چنانچہ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیر عالم نے یہ صائب تجویز پیش کی ہے کہ کراچی میں امن و امان کی ذمے داری کسی ایک ادارے کو دے دینی چاہیے، ایک سے زیادہ اداروں کو ذمے داری دی تو اس کا مطلب ہے کوئی ذمہ دار نہیں۔ دہشت گردی کے ملک گیر اجمالی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ صورتحال خاصی سنگین ہے۔ کوئٹہ میں سریاب روڈ پر عوامی پیڑول پمپ کے قریب سے ایک شخص خیر محمد کی لاش برآمد ہوئی جب کہ لیویز نے دشت کے علاقے سے ایک لاش برآمد کی جسے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا، پشاور کے نواحی علاقے متنی میں شرپسندوں کے دو حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے دو اہلکار شہید جب کہ چار پولیس جوان زخمی ہو گئے۔
بتایا جاتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کا قافلہ کوہاٹ سے پشاور آ رہا تھا کہ متنی کے علاقے سرہ خاورہ میں پہلے سے موجود شرپسندوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں دو سیکیورٹی فورسز اہلکار شہید ہو گئے، واضح رہے کہ انتخابات کے بعد پشاور میں پولیس پر بھی یہ پہلا حملہ ہے۔ متنی میں ایک اور واقعہ میں شرپسندوں کی فائرنگ سے گشت پر مامور 4 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ ادھر خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں افغانستان سے آنیوالے کنٹینرز پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک ڈرائیور جاں بحق ہو گیا جب کہ دو گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ مینگورہ کے گرین چوک میں دن دیہاڑے مسلح افراد نے امن کمیٹی دمغار کے سربراہ شاہ دوران خان اور ان کے محافظ کو قتل کر دیا۔
بتایا جاتاہے کہ شاہ دوران خان کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ ن سے تھی، کچھ عرصہ قبل ان کے بھتیجے افضل خان کو بھی گھر کے قریب نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ بلاشبہ ایسے مخدوش حالات میں امن و امان برقرار رکھنا اہم انتظامی فریضہ ہے۔ دہشت گردی کے عفریت کو روکنے کے لیے انتہا پسندی، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز اور بدامنی کے سارے دروازے بند کرنے پڑیں گے۔ اس مقصد کے لیے سکیورٹی فورسز کو ہر دم چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ملکی ترقی امن و امان کی مرہون منت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے حکام ایسا لائحہ عمل اختیار کریں گے کہ دہشت گردی ہمیشہ کے لیے دفن ہو اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر بالاخر قانون کی گرفت میں آ سکیں۔