وہی موڑ۔ ایک بار پھر

انتخابات تو ہو گئے مگر ان کا ہنگامہ ایک اور شکل میں اب تک جار ی ہے اور شائد ابھی کچھ دیر تک چلتا بھی رہے کہ ...

Amjadislam@gmail.com

KARACHI:
انتخابات تو ہو گئے مگر ان کا ہنگامہ ایک اور شکل میں اب تک جار ی ہے اور شائد ابھی کچھ دیر تک چلتا بھی رہے کہ نیوٹن کے بقول ہر عمل کا ردّعمل بھی اس کی نسبت سے متعین ہوتا ہے ایک دوست سے انتخابات کے دوران ہونے والی مبیّنہ دھاندلیوں اور الزامات کی بات ہو رہی تھی کہ جس طرح چند گندی مچھلیاں سارے دریا کے پانی کو آلودہ کر دیتی ہیں اس طرح تقریباََ 10% یعنی 27 کے قریب سیٹوں سے متعلق گوناگوں الزامات نے باقی کی تقریبا 245 سیٹوں کی حرمت کو بھی داغدار کر دیا ہے یعنی اگر تمام الزامات کو جمع بھی کرلیا جائے تو مبیّنہ دھاندلی زدہ یا مشکوک ووٹوں کی کل تعداد دس بارہ لاکھ سے زیادہ نہیں ہو گی جب کہ گزشتہ انتخابات میں ایک اطلاع کے مطابق ساڑھے تین کروڑ جعلی ووٹرز کے نام انتخابی فہرستوں میں ہی موجود تھے ایک اور صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ تو ایک برائی کو دوسری برائی کے ذریعے جائز قرار دینے والی بات ہوئی۔ دھاندلی چاہے زیادہ ہو یا کم، ہوتی تو دھاندلی ہی ہے یعنی بقول سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈگری چاہے جعلی ہو مگر ڈگری تو ہوتی ہے۔

اب یہ ایسی بحث ہے کہ جس کو شروع کرنا جس قدر آسان ہے ختم کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ اخلاقیات، قانون اور عدل کے حوالے سے تو بلاشبہ ایک بھی جعلی ووٹ اصلی ووٹوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے مگر یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ ہر انسانی معاشرے میں کم یا زیادہ یہ معاملہ ضرور ہوتا ہے۔ سو عقل اور ہوشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس مسئلے کو مثبت اندازِ فکر کے ساتھ حل کیا جائے کیونکہ منفی اندازِ فکر بقول شخصے گاڑی کے پنکچر ٹائر کی طرح ہوتا ہے کہ جب تک اسے بدلا یا اس کی مرمت نہ کی جائے گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔ میرا اپنا ووٹ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 125 میں تھا جہاں کے دونوں مرکزی امیدوار پارٹیوں اور نظریات سے ہٹ کر میرے ذاتی دوست اور عزیز بھی ہیں کہ عزیزی خواجہ سعد رفیق ایم اے او کالج میں میرے شاگرد رہ چکے ہیں جب کہ ان کے ماموں خواجہ محمد ذکریا کا میں شاگرد رہا ہوں۔

سعد رفیق پر لگائے جانے والے الزامات اپنی جگہ مگر ذاتی طور پر میں نے اسے استادوں کی عزت کرنے والا پایا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ تحریکِ انصاف کی تمام تر اور غیر معمولی مقبولیت کے باوجود اُس کے ووٹرز کا ایک بہت بڑا حلقہ اُس علاقے میں موجود ہے جہاں اُس نے بہت کام کیا ہے اور لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُسے پسند بھی کرتی ہے جب کہ برادرم حامد خاں کے ساتھ بھی 40 برس کے قریبی تعلقات ہیں۔ یونیورسٹی کے دنوں سے لے کر اب تک ان کے ساتھ مراسم کی گرمجوشی میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ ڈیفنس کے علاقے کی حد تک تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف مسلم لیگ ن سے کہیں بلند تھا۔

اب اگر ووٹنگ کے عمل میں کہیں دھاندلی یا بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کا فیصلہ ''مقبولیت'' کے پیمانے سے کرنا شائد درست نہ ہو کہ عمومی طور پر اپنی اپنی جگہ پر دونوں پارٹیوں کو مقبولیت حاصل تھی سو اس کا بہترین حل اور طریقہ وہی ہے جو عمران خان سمیت بہت سے لیڈروں کی طرف سے سامنے آیا ہے کہ اس طرح کے متنازعہ حلقوں میں نادرا کی مدد سے دونوں طرف سے پڑنے والے ''صحیح'' ووٹوں کی مصدقہ گنتی کرالی جائے اور یہی طریقہ کار سائنٹیفک انداز میں ان تمام حلقوں میں اختیار کیا جائے جن کے بارے میں متعلقہ فریق واضح اور ٹھوس ثبوت پیش کر سکیں۔ ممکن ہے اس کا پروسیجر کچھ لمبا اور پیچیدہ ہو لیکن اگر ایک بار دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے تو وطنِ عزیز میں جمہوری کلچر کو اس سے بے پناہ فائدہ ہو گا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام شکایات درست ہی نکلیں کہ بہرحال اپنی شکست کو تو خوش دلی سے تسلیم نہ کرنا بوجوہ ہمارے کلچر کا ایک حصہ رہا ہے اس امر میں ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ تو سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں اور ان کے فول پروف سسٹمز کے باوجود بھی ہوتی ہے۔ ہمارے جیسے پسماندہ یا نیم ترقی پذیر معاشروں میں تو ظاہر ہے اس کے امکانات اور زیادہ ہونگے ۔

اب کچھ باتیں میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کی غیر معمولی کامیابی اور عمران خان اور ان کی پارٹی کی توقع سے قدرے کم کامیابی کی کہ پیپلز پارٹی کے انجام کے بارے میں تو غالبا خود اس کے بڑے لیڈروں کے اپنے دل بھی اندر سے کوئی بہت زیادہ ''پر اُمید'' نہیں تھے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ انتخابات سے تین دن پہلے عمران خان کے زخمی ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ ن نے اپنے اگلے دن کے انتخابی جلسے ملتوی کر دیے اور انتخابات جیتنے کے بعد میاں نواز شریف تمام بد مزگیوں اور مخالفتوں کو بھلا کر عمران خان کی نہ صرف عیادت کو گئے بلکہ دونوں رہنمائوں نے بہت اچھی فضا میں تبادلہ خیال بھی کیا اسی طرح غلام احمد بلور بھی تعریف کے مستحق ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے اور بہت کھلے دل سے اپنی شکست کو تسلیم کیا اور عمران خان کو مبارکباد دی۔ دعا ہے کہ مولا کریم برداشت، رواداری اور حقیقت پسندی کے ان روّیوں میں مزید برکت ڈالے اور وطنِ عزیز کے ہر صُوبے کے لوگ صُوبوں، زبانوں اور مقامی حوالوں کے بجائے بھائیوں کی طرح آپس میں مل جل کر رہنا سیکھ جائیں کہ اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔

غالباً کوئی پچیس برس پہلے ترکی میں طیب اردگان استنبول کے میئر مقرر ہوئے تھے اور وہاں سے انھوں نے اپنے عوام کے سامنے گڈ گورننس کا ایک ایسا ماڈل پیش کیا جس کے باعث اب نہ صرف ان کی پارٹی قومی سطح پر مسلسل جیت رہی ہے بلکہ اس نے معاشی سطح پر ملک کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ ان بہت سی خرابیوں کا قلع قمع بھی کر دیا ہے جو اتا ترک اور اس کے بعد کے دور میں بوجوہ ترکی کے کلچر کا حصہ بن گئی تھیں بلاشبہ اس کی ایک وجہ ''بادشاہت'' کے دور کی خرابیوں کے خلاف وہ شدید ردِعمل بھی تھا جو بعض اوقات احتجاج کرنے والوں کو دوسری حد تک دھکیل دیتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک خیبر پختونخوا میں قدرت نے عمران خان کو بھی ایک ایسا ہی موقع عطا کیا ہے کہ وہ اس صوبے میں حکومت کے اس ماڈل کو پیش کرے جسے وہ سارے ملک میں رائج کرنا چاہتا ہے اس صوبے کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر یہ کام بہت مشکل ہے لیکن بڑے لیڈروں کی صلاحیتوں کا صحیح پتہ بھی بڑے مسائل کو کامیابی سے حل کرنے سے ہی چلتا ہے ۔

اس طرح میاں نواز شریف کو بھی جو تاج مل رہا ہے اس میں کانٹے زیادہ اور پھول بہت کم ہیں البتہ ان کو یہ آسانی ضرور حاصل ہے کہ وہ اس میدان کے نہ صرف خاصے تجربہ کار کھلاڑی بن چکے ہیں بلکہ ان کی ٹیم بھی نسبتا بہتر اور با صلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل ہے 1990ء میں جب وہ بغیر ایک آزمودہ کار ٹیم کے پہلی بار وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے تھے تو میں نے ''یہ اب جو موڑ آیا ہے'' کے عنوان سے ان کے لیے ایک نظم لکھی تھی۔ یہ ان کی نظر سے گزری یا نہیں اس کا مجھے پتہ نہیں اور اس بار بھی ان کا کوئی مشیر اسے خود پڑھتا اور ان کو پڑھواتا ہے یا نہیں یہ بھی میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا لیکن پاکستان کے ایک دردمند شہری اور سوچنے والے انسان کے طور پر میں اپنے اس مشورے اور وارننگ کو دوبارہ درج کر رہا ہوں ۔ پرانے وقتوں میں ایسے موقعوں پر وما علینا الا البلاغ کے الفاظ لکھے جاتے تھے سو میں نے وہ بھی لکھ دیے ہیں۔ پیرو مرشد مرزا غالبؔ کا کیا کمال کا شعر ہے کہ

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی ، نہ سہی

.........

نظم کچھ اس طرح سے ہے

یہ اب جو موڑ آیا ہے


یہاں رک کر کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے

کہ یہ اس راستے کا ایک حصہ ہی نہیں، سارے

سفر کو جانچنے کا، دیکھنے کا، تولنے کا

ایک پیمانہ بھی ہے، یعنی، یہ ایسا آئینہ ہے

جس میں عکسِ حال و ماضی اور مستقبل

یہ یک لمحہ نمایاں ہے

یہ اس کا استعارہ ہے جو اپنی منزلِ جاں ہے

سُنا ہے ریگ صحرا کے سفر میں

راستے سے دو قدم بھٹکیں

تو منزل تک پہنچنے میں کئی فرسنگ کی دُوری نکلتی ہے

سو اب جو موڑ آیا ہے

یہاں رک کر کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story