عوام جاگ اٹھے
نپولین کے بقول مذہب نے غریبوں کو امیروں کا قتل عام کرنے سے باز رکھا ہے۔..
نپولین کے بقول مذہب نے غریبوں کو امیروں کا قتل عام کرنے سے باز رکھا ہے۔ تاریخ معاشیات کے روبہ عمل ہونے سے پیدا ہوتی ہے یعنی افراد،گروہوں،طبقات اور ریاستوں کے درمیان خوراک،ایندھن،مادی وسائل اور معاشی طاقت کے لیے مقابلے کے حالات وواقعات اور نتائج کا نام تاریخ ہے۔ قدیم یونان میں اشرافیہ کے افراد یہ حلف اٹھایا کرتے تھے کہ '' میں عوام کا دشمن رہوں گا اور ان کی مخالفت میں جو کچھ بھی کر سکا کروں گا ''آئسو کریٹس نے 366ق م میں یہ لکھاہے '' امرا کا رویہ اس قدر غیرانسانی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی اشیا ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انہیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور غربا کا یہ حال ہے کہ انہیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوگی جتنی کہ کسی امیر کے مال اسباب پر قبضہ کرنے سے ہوگی ۔''
تاریخ کو قدیم، متوسط اورجدید زمانوں میں تقسیم نہیں کیاجاسکتا تاریخ کی یہ تقسیم عہد وسطی کے مفکروں کی پیدا کی ہوئی ہے۔ مارکس کے مطابق انسانی تاریخ کو شکاری اور شبانی،زرعی اوردستکاری وصنعتی اور مشینی عہد میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ انسانی تاریخ میں جتنے عظیم واقعات پیش آئے ہیں وہ سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہیں وہ میرا تھون کی جنگ، سیزرکے قتل اور انقلاب فرانس کو نہیں بلکہ زرعی انقلاب اور صنعتی انقلاب کو تاریخ کے اہم اور عظیم واقعات سمجھتا ہے اس لیے ان میں سے ایک نے زندگی کے نظام کو شکاری سے زرعی بنایا اور دوسرے نے گھریلو صنعتوں کی جگہ کارخانہ کی صنعتوں کو رائج کیا۔ اقتصادی حالات سلطنتوں کے عروج و زوال کا سبب ہوتے ہیں سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی حالات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بداخلاقی ،کرپشن ، تعیش پرستی یہ اسباب نہیں بلکہ نتائج ہیں ہر چیز کی تہہ میں زمین کا فرق اور اس کی نوعیت اپنا کام کرتی ہے۔
مصر اپنے لوہے کی وجہ سے مشہور ہوا قدیم برطانیہ اپنے ٹین کی وجہ سے اور جدید برطانیہ اپنے لوہے اور کو ئلے کی وجہ سے ۔ ایتھنز کی چاندی کی کانیں جب خالی ہوگئیں تو ایتھنز کی قوت ختم ہوگئی مقدونیہ کے سو نے نے فلپ اور سکندر کے ہاتھ مضبوط کیے۔ روما نے ہسپانیہ کی چاندی کی کانوں کے لیے کارتھیج سے جنگ لڑی اور جب اس کی زمین بنجر ہوگئی تو وہ زوال پذیر ہوگئی ۔ قبل مسیح ایتھنز میں چرائے ہوئے سونے کی بدولت شاندار صنم خانے تعمیر کیے گئے فن کے اکثر زریں عہد دولت سمیٹنے کے بعد وجود میں آئے لیکن ایتھنز غذا کے لیے درآمد کا محتاج تھا ۔ اسپارٹا نے جونہی اس کا محاصرہ کیا ایتھنز کے عوام بھوکے مرنے لگے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے اس کے بعد یہ عظیم شہر پھر نہ سنبھل سکا۔
یونان میں مزدوروں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے سے صنعتی جدت اور ترقی رک گئی عورتوں کی غلامی سے صحت مند محبت کے امکانات ختم ہوگئے اور مرد پرستی پیدا ہوئی اور اس نے یونانی صنم تراشی کو متاثر کیا۔ مادی چیزوں کی پیداوار کے طریقے زندگی کے اجتماعی سیاسی اور روحانی وظائف کو متاثر کرتے ہیں لوگوں کا شعور ان کے وجود کا باعث نہیں بنتا بلکہ ان کے اجتماعی وجود سے ان کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ فرد یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے خیالات اپنا نظام فلسفہ اپنے اخلاقی تصورات اور مذہبی عقائد اپنا فنی شعور، منطق، غیر جانب دار استدلال سے حاصل کیے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی زندگی کے اقتصادی حالات نے اس کے افکار کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ ماضی میں کلیسا کی طاقت ان مظلوم لوگوں کے افلاس اور تباہی پر مبنی تھی جو روحانی سکون اور امید کے بھوکے تھے اس کا انحصار لوگوں کی جہالت اور توہم پرستی پر تھا جو افلاس کا لازمی نتیجہ ہے ۔
سیاسی طاقت اقتصادی طاقت کے بعد ضرور حاصل ہوتی ہے کامیاب انقلاب اقتصادی فتوحات پر محض سیاسی دستخطوں کاکام کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ہیر نگٹن نے کہا تھا کہ حکومت کی ہئیت کا انحصار زمین کی تقسیم پر ہے اگر ملک کی بیشتر زمین ایک شخص کے ہاتھوں میں ہے تو نظام حکومت بادشاہت ہوگا اور چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے تو رئیسیت اور اگر عوام کے ہاتھوں میں ہے تو جمہوریت۔ تاریخ میں اخلاقی قوتوں اور قدروں کی کوئی جگہ نہیں ۔ مارکس کے مطابق دنیا میں مرد یا مر د مجاہد کا وجود نہیں فکر آرزوئوں کا سرچشمہ ہے اور قوموں اور گروہوں کی آرزوئوں کی بنیاد ہمیشہ معاشی ہوتی ہے جیسا کہ بسمارک نے کہا تھا کہ قوموں کے باہمی روابط میں اخلاق کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور مرد مجاہد اور مرد کی حیثیت محض ایک آلہ کی ہے اورعظیم شخصیتیں عوامی تحریکوں یا غیر ذاتی قوتوں کے اظہار کا ایک وسیلہ ہیں جس کا ضروری نہیں کہ فرد کو شعور و احساس ہو حقیقت میں کسی خاص زمانے کے مخصوص تمدن کا اقتصادی زندگی کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو خیال کا جسم کے ساتھ ہے ۔
افکار ہر عہد کی روح ہوتے ہیں یعنی ہر عہد کے فکر اور احساس کا ایک منفرد انداز ہوتاہے اورتاریخ اسی انداز کا نتیجہ ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سر مایہ دارانہ نظام کے موجو دہ بحران کے بعد زیادہ سے زیادہ لوگ یہ سو چ رہے ہیں کہ کار ل مارکس صحیح تھا۔ انیسویں صدی کے اسی عظیم فلسفی معیشت دان اور انقلابی نے قرار دیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام انتہائی غیر مستحکم ہے وہ سمجھتا تھا کہ سر مایہ دارانہ نظام کے اپنے اندر یہ خامی موجود ہے کہ یہ مسلسل بڑے پیما نے پر معاشی اتار چڑھائو پیدا کر تاہے اور آخرکار خود کو ختم کر لے گا انہیں اسی بات پر اعتماد تھا کہ ایک عوامی انقلا ب آکر رہے گا جو زیادہ پیداوارکرنے والا اور زیادہ انسان دوست نظام ہو گا۔
بی بی سی کے بقول مارکس کے کمیونسٹ نظریات غلط ہوسکتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے متعلق وہ بڑی حد تک صحیح تھا اسے اس بات کی پوری طرح سمجھ تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کا طرز زندگی کو تباہ کردیتا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ایک انقلاب تو ضرور بر پاکیا لیکن یہ ویسا انقلاب نہیں تھا جس کی مارکس کو توقع تھی ۔ یہ ایک روز کا قصہ نہیں ہے بلکہ موجودہ حالت میں پہنچنے کے لیے ہمیں 64سال لگے ہیں تب جاکر ہم بر باد اور ذلیل و خوار ہوئے ہیں ان 64سالوں میں عوام کی جو درگت بنائی گئی اللہ کی پناہ ۔ پاکستان کے 18کروڑ عوام کو لاحق بیماریاں جیسے انتہا پسندی ، دہشت گردی ، افلاس ، بھوک ان سب کی ذمے دار آمریت اور اس کے پیداوار ہیں ہمارا نظام بالکل گل سڑ چکا ہے اور اس میں سے شدید بدبو آرہی ہے اور اس استحصالی نظام کو بچانے والوں میں سے بھی شدید بدبو آرہی ہے یہ ٹولہ انتہائی بدبودار ہو چکاہے اور ذہنی طور پر مکمل دیوالیہ ۔
ہمارا موجودہ نظام نو چ کھسوٹ کا نظام ہے۔ چند ہزار امیر و کبیر گدھ 18کروڑ عوام کو دن رات نوچ رہے ہیں ان کا گوشت کھا رہے ہیں ان کا خون پی رہے ہیں یہ طبقاتی جنگ ہے اور دونوں جانب انتہا ہے ایک طرف بھوک ،غربت ،بیماریاں ، جہالت ، بربادیوں اور ذلت کی انتہا ہے تو دوسری جانب عیش و آرام ، عیاشیوں ، روپے پیسے کی انتہا ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ بھی نہیں ہے بس خلاہے ایک طرف آنسو ، سسکیاں، فریادیں اور ماتم ہے تو دوسری جانب قہقہے ، جشن ہیں ایک طرف امیدوں ، آرزئوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں تو دوسری جانب عیاشیاں ہی عیاشیاں ہیں۔ بس اب بہت ہوچکا جبر اور ظلم سہنے کی ایک انتہا ہوتی ہے پاکستان کے عوام اب ا س نو چ کھسوٹ کے نظام کو تبدیل کرکے دم لیں گے ۔ وہ جاگ اٹھے ہیں یاد رہے کہ نظام کی تبدیلی صرف جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔
تاریخ کو قدیم، متوسط اورجدید زمانوں میں تقسیم نہیں کیاجاسکتا تاریخ کی یہ تقسیم عہد وسطی کے مفکروں کی پیدا کی ہوئی ہے۔ مارکس کے مطابق انسانی تاریخ کو شکاری اور شبانی،زرعی اوردستکاری وصنعتی اور مشینی عہد میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ انسانی تاریخ میں جتنے عظیم واقعات پیش آئے ہیں وہ سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہیں وہ میرا تھون کی جنگ، سیزرکے قتل اور انقلاب فرانس کو نہیں بلکہ زرعی انقلاب اور صنعتی انقلاب کو تاریخ کے اہم اور عظیم واقعات سمجھتا ہے اس لیے ان میں سے ایک نے زندگی کے نظام کو شکاری سے زرعی بنایا اور دوسرے نے گھریلو صنعتوں کی جگہ کارخانہ کی صنعتوں کو رائج کیا۔ اقتصادی حالات سلطنتوں کے عروج و زوال کا سبب ہوتے ہیں سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی حالات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بداخلاقی ،کرپشن ، تعیش پرستی یہ اسباب نہیں بلکہ نتائج ہیں ہر چیز کی تہہ میں زمین کا فرق اور اس کی نوعیت اپنا کام کرتی ہے۔
مصر اپنے لوہے کی وجہ سے مشہور ہوا قدیم برطانیہ اپنے ٹین کی وجہ سے اور جدید برطانیہ اپنے لوہے اور کو ئلے کی وجہ سے ۔ ایتھنز کی چاندی کی کانیں جب خالی ہوگئیں تو ایتھنز کی قوت ختم ہوگئی مقدونیہ کے سو نے نے فلپ اور سکندر کے ہاتھ مضبوط کیے۔ روما نے ہسپانیہ کی چاندی کی کانوں کے لیے کارتھیج سے جنگ لڑی اور جب اس کی زمین بنجر ہوگئی تو وہ زوال پذیر ہوگئی ۔ قبل مسیح ایتھنز میں چرائے ہوئے سونے کی بدولت شاندار صنم خانے تعمیر کیے گئے فن کے اکثر زریں عہد دولت سمیٹنے کے بعد وجود میں آئے لیکن ایتھنز غذا کے لیے درآمد کا محتاج تھا ۔ اسپارٹا نے جونہی اس کا محاصرہ کیا ایتھنز کے عوام بھوکے مرنے لگے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے اس کے بعد یہ عظیم شہر پھر نہ سنبھل سکا۔
یونان میں مزدوروں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے سے صنعتی جدت اور ترقی رک گئی عورتوں کی غلامی سے صحت مند محبت کے امکانات ختم ہوگئے اور مرد پرستی پیدا ہوئی اور اس نے یونانی صنم تراشی کو متاثر کیا۔ مادی چیزوں کی پیداوار کے طریقے زندگی کے اجتماعی سیاسی اور روحانی وظائف کو متاثر کرتے ہیں لوگوں کا شعور ان کے وجود کا باعث نہیں بنتا بلکہ ان کے اجتماعی وجود سے ان کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ فرد یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے خیالات اپنا نظام فلسفہ اپنے اخلاقی تصورات اور مذہبی عقائد اپنا فنی شعور، منطق، غیر جانب دار استدلال سے حاصل کیے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی زندگی کے اقتصادی حالات نے اس کے افکار کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ ماضی میں کلیسا کی طاقت ان مظلوم لوگوں کے افلاس اور تباہی پر مبنی تھی جو روحانی سکون اور امید کے بھوکے تھے اس کا انحصار لوگوں کی جہالت اور توہم پرستی پر تھا جو افلاس کا لازمی نتیجہ ہے ۔
سیاسی طاقت اقتصادی طاقت کے بعد ضرور حاصل ہوتی ہے کامیاب انقلاب اقتصادی فتوحات پر محض سیاسی دستخطوں کاکام کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ہیر نگٹن نے کہا تھا کہ حکومت کی ہئیت کا انحصار زمین کی تقسیم پر ہے اگر ملک کی بیشتر زمین ایک شخص کے ہاتھوں میں ہے تو نظام حکومت بادشاہت ہوگا اور چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے تو رئیسیت اور اگر عوام کے ہاتھوں میں ہے تو جمہوریت۔ تاریخ میں اخلاقی قوتوں اور قدروں کی کوئی جگہ نہیں ۔ مارکس کے مطابق دنیا میں مرد یا مر د مجاہد کا وجود نہیں فکر آرزوئوں کا سرچشمہ ہے اور قوموں اور گروہوں کی آرزوئوں کی بنیاد ہمیشہ معاشی ہوتی ہے جیسا کہ بسمارک نے کہا تھا کہ قوموں کے باہمی روابط میں اخلاق کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور مرد مجاہد اور مرد کی حیثیت محض ایک آلہ کی ہے اورعظیم شخصیتیں عوامی تحریکوں یا غیر ذاتی قوتوں کے اظہار کا ایک وسیلہ ہیں جس کا ضروری نہیں کہ فرد کو شعور و احساس ہو حقیقت میں کسی خاص زمانے کے مخصوص تمدن کا اقتصادی زندگی کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو خیال کا جسم کے ساتھ ہے ۔
افکار ہر عہد کی روح ہوتے ہیں یعنی ہر عہد کے فکر اور احساس کا ایک منفرد انداز ہوتاہے اورتاریخ اسی انداز کا نتیجہ ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سر مایہ دارانہ نظام کے موجو دہ بحران کے بعد زیادہ سے زیادہ لوگ یہ سو چ رہے ہیں کہ کار ل مارکس صحیح تھا۔ انیسویں صدی کے اسی عظیم فلسفی معیشت دان اور انقلابی نے قرار دیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام انتہائی غیر مستحکم ہے وہ سمجھتا تھا کہ سر مایہ دارانہ نظام کے اپنے اندر یہ خامی موجود ہے کہ یہ مسلسل بڑے پیما نے پر معاشی اتار چڑھائو پیدا کر تاہے اور آخرکار خود کو ختم کر لے گا انہیں اسی بات پر اعتماد تھا کہ ایک عوامی انقلا ب آکر رہے گا جو زیادہ پیداوارکرنے والا اور زیادہ انسان دوست نظام ہو گا۔
بی بی سی کے بقول مارکس کے کمیونسٹ نظریات غلط ہوسکتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے متعلق وہ بڑی حد تک صحیح تھا اسے اس بات کی پوری طرح سمجھ تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کا طرز زندگی کو تباہ کردیتا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ایک انقلاب تو ضرور بر پاکیا لیکن یہ ویسا انقلاب نہیں تھا جس کی مارکس کو توقع تھی ۔ یہ ایک روز کا قصہ نہیں ہے بلکہ موجودہ حالت میں پہنچنے کے لیے ہمیں 64سال لگے ہیں تب جاکر ہم بر باد اور ذلیل و خوار ہوئے ہیں ان 64سالوں میں عوام کی جو درگت بنائی گئی اللہ کی پناہ ۔ پاکستان کے 18کروڑ عوام کو لاحق بیماریاں جیسے انتہا پسندی ، دہشت گردی ، افلاس ، بھوک ان سب کی ذمے دار آمریت اور اس کے پیداوار ہیں ہمارا نظام بالکل گل سڑ چکا ہے اور اس میں سے شدید بدبو آرہی ہے اور اس استحصالی نظام کو بچانے والوں میں سے بھی شدید بدبو آرہی ہے یہ ٹولہ انتہائی بدبودار ہو چکاہے اور ذہنی طور پر مکمل دیوالیہ ۔
ہمارا موجودہ نظام نو چ کھسوٹ کا نظام ہے۔ چند ہزار امیر و کبیر گدھ 18کروڑ عوام کو دن رات نوچ رہے ہیں ان کا گوشت کھا رہے ہیں ان کا خون پی رہے ہیں یہ طبقاتی جنگ ہے اور دونوں جانب انتہا ہے ایک طرف بھوک ،غربت ،بیماریاں ، جہالت ، بربادیوں اور ذلت کی انتہا ہے تو دوسری جانب عیش و آرام ، عیاشیوں ، روپے پیسے کی انتہا ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ بھی نہیں ہے بس خلاہے ایک طرف آنسو ، سسکیاں، فریادیں اور ماتم ہے تو دوسری جانب قہقہے ، جشن ہیں ایک طرف امیدوں ، آرزئوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں تو دوسری جانب عیاشیاں ہی عیاشیاں ہیں۔ بس اب بہت ہوچکا جبر اور ظلم سہنے کی ایک انتہا ہوتی ہے پاکستان کے عوام اب ا س نو چ کھسوٹ کے نظام کو تبدیل کرکے دم لیں گے ۔ وہ جاگ اٹھے ہیں یاد رہے کہ نظام کی تبدیلی صرف جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔