بڑائی
ہم لوگ بڑا ہونا سے اکثر بڑا افسر ہونا، بڑا کاروباری ہونا، بڑا لیڈر ہونا، بڑا ڈاکٹر ہونا...
ہم لوگ بڑا ہونا سے اکثر بڑا افسر ہونا، بڑا کاروباری ہونا، بڑا لیڈر ہونا، بڑا ڈاکٹر ہونا، بڑا انجینئر ہونا اور اسی طرح کا کچھ اور بڑا ہونا مراد لیتے ہیں۔ پہلے بچپن میں اور پھر عمر رسیدہ ہونے پر بھی بہت ساری چیزوں کے بارے میں ہم کوئی واضح اور حتمی رائے قائم کرنے کے قابل نہیںہو پاتے۔ بڑائی کے خیال سے کئی قسم کی چیزیں ذہین میں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ مثلاً بڑی گاڑی بڑی کوٹھی بڑا جہاز بڑا شہر وغیرہ۔ اسی طرح چھوٹا ہونے سے بھی ہماری مراد اکثر چھوٹا قد، چھوٹا گھر، چھوٹی گاڑی ہوتا ہے اور اسی نوعیت کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ذہن میں آتی ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری سوچوں کے دھارے کیا ہیں۔ سوچیں آدمی کی پہچان ہوا کرتی ہیں اور اس طرح کی پہچان رکھنے پر شرمندہ ہی ہوا جا سکتا ہے۔
اس قسم کی باتوں میں الجھنے کے بجائے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ باتوں کو سمجھا جائے کیونکہ سمجھے بغیر جب باتیں ہوتی ہیں تو غلطی کا امکان بڑھ جاتاہے۔ یہ بھی اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ غلط باتیں جب زیادہ اور تواتر سے ہوتی جائیں تو انھیں صحیح باتوں کے طور پر مان لیا جاتا ہے اور پھر انھیں غلط ثابت کرنا اسی قدر مشکل ہوتا ہے جس قدر سچ کو چھپانا مشکل ہوتا ہے۔
ہم بات کررہے تھے بڑائی کے بارے میں اور بہت ساری ان دیکھی چیزوں کی طرح بڑائی کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکی۔ لیکن کوشِش کرنے میں کیا حرج ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آدمی جس حیثیت سے بھی زندگی گذارے اسے کچھ باتوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے یا نظریہ قائم کرنا پڑتا ہے، اس رائے اور نظریے کے بارے میں ضروری نہیں کہ وہ اس کے بارے میں باقاعدہ شعور بھی رکھتا ہو۔ آدمی کسی چیزکے بارے میں جو بھی رائے رکھتا ہے وہ جدید تحقیق کے مطابق اپنے پیدائشی جینز اور ماحول جس کے اندر وہ پرورش پاتا ہے کے باعث رکھتا ہے اور یہ کہ وہ مخصوص نظریہ یا خیال اسی پس منظر کا عکاس ہوتا ہے یعنی یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جسے ہم اپنی سوچ یا اپنا خیال کہتے ہیں وہ بھی کئی اور عوامل کے کارفرما ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مثلاً مسلمان کے گھر پیدا ہونے والا بچہ مسلمان ہوجاتا ہے۔ عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والا عیسائی اور ہندو گھرانے والا ہندو۔ اس بنیادی خدوخال کو بچپن کا زمانہ تعلیمی ماحول اور گھریلو تجربات واضح اور مستقل نقوش عطا کرتے ہیں۔
اب جب پتہ چل گیا کہ ہمارا نظریہ، ہمارے خیالات اور زندگی کے بارے میں ہماری رائے دراصل کئی لحاظ سے ہماری اپنی کاوشوں، تحقیق یا جستجو کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اُن بے شمار عوامل کے باعث ہوتی ہے جن کے اندر ہم حادثاتی طور پر گھرے ہوتے ہیں۔ ہمارے نظریات یا خیالات اکثر لوہے کی مانند سخت ہوتے ہیں جو لوگ اپنے خیالات اور نظریات کو بھٹی کے اندر سلگاتے ہیں وہ انھیں پگھلا کر بے شمار نئی نئی چیزیں بنا دیتے ہیں جنھیں اُن کے نام سے منسوب کیا جانے لگتا ہے اور ہم جیسے لوگ جب اپنی اپنی بھٹیاں سلگانے کی کوشش کرتے ہیں تو پگھلائے ہوئے لوہے سے بنی بے شمار مثال کے طور پر سامنے آتی ہیں جنھیں سامنے رکھ کر اپنے پگھلے ہوئے لوہے کے اندر کی طاقت اور بھر پور حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پس ہمیں صرف اپنے اندر بھٹی کو سلگانا ہے اس سے سخت ترین لوہا بھی پگھل کر وہ کچھ بن جائے گا جو ہم بنانا چاہیں گے۔ بھٹی کیسے سلگائی جائے؟ بھٹی سلگنے سے ہی ہم جان سکیں گے کہ دنیا میں صرف ہم ہی نہیں رہتے اور لوگ بھی رہتے ہیں دنیا کا غالباً ہر پانچواں آدمی مسلمان ہے۔ پانچ میں چار مسلمان نہیں ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو نہ صرف صدق دل سے قبول کرنا چاہیے بلکہ اُس کے مندرجات، توجیحا ت، واجبات اور امکانات کو ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہیے جس سے ہماری مشکلات بڑی حد تک کم ہوسکتی ہیں۔
دوسری بات جس کا بھٹی کے سلگانے سے براہ راست تعلق ہے وہ یہ کہ ہم دوسروں کی فکر کرنا چھوڑ کر اگر اپنے بارے میں زیادہ سوچ بچار کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم انسانیت کے زیادہ قریب ہو سکتے ہیں۔ بڑائی کو صرف اپنے اندر ہی دیکھنے کی عادت طریقہ ابلیس ہے جسے ہم نے لاشعوری طور پر اپنے اوپر طاری کر رکھا ہے۔ اپنے لیے تعریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ تمام تعریفیں اُس پروردگار کے لیے ہیں جو ایک ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں اور جس نے جناب رسالت مآبؐ کو ہمارے درمیان مبعوث فرمایا تاکہ ہمیں ہدایت مل سکے خود بینی اور خود ستائشی اُس قوت ایمان کی بھر پور نفی ہے جس کے ہم دلدادہ بھی ہیں اور پرستار بھی، اپنی بھٹی کی آگ کو اس لیے اور زیادہ بھڑ کانا ہو گا۔
تیسری بات جس کے لیے بھٹی سلگانے کی شدید ضرورت ہے وہ دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھنا ہے۔ ہم بڑائی کا تعلق پیشے اور منصب کے ساتھ منسلک کیے بیٹھے ہیں۔ ہم افسر کو اُستاد پر فوقیت دیتے ہیں اور اس طرح علم کی توہین کرتے ہیں نہ صرف علم کی توہین کرتے ہیں بلکہ ہر اس معتبر بات کی توہین کرتے ہیں جس کا تعلق ہماری دنیاوی ترقی اور اُخروی بقا سے ہے جن ملکوں کے سفر پر جانے کے لیے ہم سب کچھ فراموش کردیتے ہیں وہ صرف اس لیے ہے کہ وہاں اُستاد کی قدر دوسرے مناصب سے بہت زیادہ ہے کہتے ہیں کہ برطانیہ میں پروفیسر بننے کی نسبت وزیراعظم بننا زیادہ آسان ہے۔ ہمارے دین کی پہلی بنیاد علم ہے اور ہمارے نبیؐ علم کا شہر ہیں اس کے باوجود اگر ہم غافل ہیں تو پھر ہم کس کی پیروی کر رہے ہیں؟ مجھے اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ میرے نماز پڑھ لینے سے دوسرے لوگ گناہ گار نہیں ہوسکتے۔ اگر میں اس قسم کی سوچ رکھتا ہوں تو میری نماز میرے منُہ پر ماردی جائے گی۔ صرف اللہ کو معلوم ہے کہ کون ریا کار عبادت گذار ہے اور کون بظاہر گناہ گار اس کی بخشش کا زیادہ حق دار ہے کیونکہ وہی سب کا خالق ہے۔
ہماری بھٹی جب سلگے گی تو ہمیں پتہ چلے گا کہ بڑائی کا مطلب کیا ہوتا ہے اور چھوٹا ہونے سے آخر کیا مراد ہے حقیقت یہی ہے کہ بہت سارے چھوٹے لوگ جب کسی بہت بڑے کام کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں تو وہ بڑے ہوجاتے ہیں۔
ابھی ابھی ہمارے ملک میں تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات ہوئے ہیں پہلی مرتبہ اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ ان لوگوں نے بھی حق رائے دہی استعمال کیا ہے جو اس سے پہلے کبھی گھروں سے باہر نہیں نکلے۔ اس سارے عمل کے نتیجے کے طور پر پاکستان میں ایک منتخب حکومت سامنے آئے گی جو لوگوں کی امنگوں خواہشوں اور مطالبوں سے پوری طرح آگاہ ہو گی اور جس نے ان تمام لوگوں کی امیدوں پر پورا اُترنا ہوگا۔ جو اس سارے انتخابی عمل میں شامل رہے۔ جو لوگ اس سارے انتخابی عمل میں شامل رہے وہ چھوٹے لوگ نہیں بلکہ بہت بڑے لوگ تھے۔ وہ اس لیے بڑے لوگ تھے کیونکہ انھوں نے ایک بہت ہی عظیم اور تاریخ ساز فیصلہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ سب لو گ بظاہر چھوٹے ہوتے ہوئے بھی بڑے بن گئے ہیں۔
اسی لیے ضروری ہے کہ اندر کی بھٹی سلگائی جائے اس سے سخت لوہا بھی پگھل جاتا ہے اور پھر اس سے کچھ بھی بن سکتا ہے پھر پتہ چل جاتا ہے کہ بڑائی کا مطلب بڑا افسر بڑا شہر بڑی گاڑی اور بڑا بنگلہ نہیں بلکہ بڑے بڑے کاموں میں حصہ ڈالنے سے آدمی بڑا بن جاتا ہے۔
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین