آگ کا دریا ہے
ملک انتخابات کے ذریعے ابھی ایک نوزائیدہ جمہوری عمل سے گزر رہا ہے جس کی قسمت میں جیت تھی وہ باوجود اپنی نااہلیوں کے...
ملک انتخابات کے ذریعے ابھی ایک نوزائیدہ جمہوری عمل سے گزر رہا ہے جس کی قسمت میں جیت تھی وہ باوجود اپنی نااہلیوں کے جیت گیا اور جس کی قسمت میں ہار تھی وہ باوجود پاکستان کی آبادی کا 65% حصے کو اپنے دام میں لاکر بھی ہار گیا اور اس کے بعد دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج دیکھنے میں آرہا ہے، ایسا پہلی بار نہیں ہورہا، ہمیشہ سے دیکھتے ہوئے آئے ہیں کہ ہر الیکشن کے بعد ایک سیاسی جماعت دوسری مخالف سیاسی جماعت پر دھاندلیوں کے الزامات لگاتی ہے، لیکن ماضی بعید میں میڈیا کا کردار اتنا زور آور، اس قدرمنجھا ہوا نہیں تھا جس کے باعث ہم دیکھ سکتے کہ کہاں کیا ہورہا ہے۔ لیکن سلام ہے پاکستان بھر کے میڈیا کو جنھوں نے پاکستان کی سوئی ہوئی عوام کو دکھایا کہ پاکستان بھر میں کب، کہاں، کیا ہورہا ہے۔
انتخابات کو انتخابات ہی ہونا چاہیے لیکن 61% ٹرن آئوٹ کے باوجود بھی انتخابات، انتخابات نہ رہے بلکہ نااہلیوں کی ایک جامع جیت ہوئی، پیپلزپارٹی کے ساتھ وہی ہوا جس کی وہ مستحق تھی، آصف علی زرداری نے انتخابات کو بھی ڈرائنگ روم کا معاملہ سمجھ رکھا تھا،ان کا خیال تھا پچھلے 5 سال کے مختلف مراحل کی طرح اس مرحلے پر بھی وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور عوام کو باآسانی بے وقوف بنادیں گے، انھوں نے سارا تکیہ تحریک انصاف پر کرلیا تھا۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے بجائے اس نے ان کی جماعت اور اے این پی کے ساتھ انصاف کردیا، تبدیلی تو نہیں آئی البتہ تبادلہ ہوگیا، وہ جو کہا جارہا تھا کہ ان دو جماعتوں کو باریاں نہیں لینے دیں گے، جو بار بار حکومتیں بنارہی ہیں، انہی میں سے ایک جماعت کو پھر باری مل گئی ہے۔
البتہ اتنی تبدیلی تو ضرور آئی ہے کہ اب تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی جماعت بن گئی ہے اگر سونامی نے پورے پاکستان یا کم سے کم پنجاب کو اپنی لپیٹ میں نہ لیا تو یہ نوجوان صرف مایوسی کا شکار ہی نہیں ہوں گے بلکہ ڈپریشن میں چلے جائیں گے، ان کی امیدیں، امنگیں اور توقعات اتنی بڑھادی گئی ہیں کہ وہ کسی حالت میں بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ہو بھی یہی رہا ہے۔ آج اگر اس ملک میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ صرف نوجوان قیادت ہی ملک میں انقلاب لائے گی تو یہ اچھبنے کی تو بات نہیں، تحریک پاکستان میں نوجوانوں کی قیادت کس نے کی تھی؟
قائداعظمؒ اور علامہ اقبال جنھوں نے اپنی تقریروں اور اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی، اگر لیڈر اور کپتان اچھا ہو تو قوم اور کھلاڑی اچھا کھیلتے ہیں، ان انتخابات میں سب سے زیادہ جوش اور ولولہ عمران خان اور شہباز شریف نے پیدا کیا، عمران خان نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے کر ثابت کیا کہ عوام کسی خوش گوار ہوا کے جھونکے کے منتظر تھے۔ لیکن اب بعد از الیکشن ان دونوں پارٹیوں یعنی پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ اب بیان بازیوں سے باہر کھل کر اپنے اپنے منشور کے تحت کام کریں، ان دونوں جماعتوں نے پی پی پی اور اے این پی کا حشر دیکھ لیا ہے، ان دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کرلینا چاہیے اور سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائے، ناکہ سڑکوں پر، چوراہوں پر دھرنے دے کر ایک دوسرے کی تضحیک کی جائے۔ ایک پختہ ذہن
اور جمہوری سوچ کے لیڈر کا ردعمل وہ ہوتا ہے جس کا اظہار الیکشن ہار کر غلام احمد بلور نے کیا اور جن کے الفاظ واقعی ایک جمہوری سوچ سے پروئے ہوئے تھے۔ اے این پی سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنی ہے، ایسا کون سا اے این پی کا لیڈر ہوگا جس نے دہشت گردی کے خلاف مزاحمت پر اپنا بیٹا، بھائی اور باپ نہ کھویا ہو۔ ہم بھول جانے والی قوم ہیں، ہم بھول جاتے ہیں، یہ الیکشن خون میں ڈوبے ہوئے ووٹوں کے الیکشن ہیں۔ لگتا ہے سندھ کا ووٹ سیلاب کے پانی سے زیادہ اب تک بے نظیر کے قتل پر آنسوئوں میں ڈوبا ہوا ہے، نواز شریف نے الیکشن کی تقریروں میں جو ارشاد فرمایا ہے اب وہ ان کو پورا کرنا ہے، نوجوانوں کو ان سے کئی توقعات ہیں، جن پر ان کو لازماً پورا اترنا ہے۔ پنجاب میں بھی ان کی حکومت ہوگی اور وہ یہ الیکشن محض شہباز شریف کے پنجاب میں کیے گئے کاموں کی وجہ سے ہی جیتے ہیں، عوا م کا جو اعتماد ان پر ہے وہ قائم رہنا چاہیے۔ ہم دکھوں کی ماری قوم ہیں، اگر کوئی پیار ومحبت سے ہم کو ایک پائی کی چیز بھی دے دیتاہے تو ہم خوش ہوجاتے ہیں۔
میاں نواز شریف کے لیے آنے والی یہ حکومت کوئی پھولوں کی سیج نہ ہوگی، ملکی خزانہ خالی ہے، معیشت کا بٹھہ بیٹھا ہوا ہے، زراعت نام کو ہی باقی ہے، بے روزگاری، غربت، دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ جیسے عفریتوں سے ان کا مقابلہ ہے، ایسے میں قوم کو اعتماد میں لے کر ہی وہ کچھ کر پائیںگے۔ جون میں ممکنہ بجٹ بھی آنا ہے، یعنی سر منڈھاتے ہی اولے پڑنے والی بات لاگو ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں صوبوں کے درمیان ساری شکایات اور تضادات کا ایک مستقل حل تلاش کرنے کے لیے اب پاکستان کو ایک نئے سوشل کانٹریکٹ کی ضرورت ہے، اس کے لیے (ن) لیگ کو سارے
صوبوں سے مذاکرات کرنے پڑیںگے اور کسی نئے سوشل کانٹریکٹ پر اتفاق ہونے کے بعد اس معاہدے کی روشنی میں آئین میں مطلوبہ ترامیم بھی کرنی پڑیںگی اور خاص طورپر سندھ کو شکایات ہیں اور رہی ہیں، شکایات یہ ہیں کہ 1991 میں نواز شریف کی حکومت کی طرف سے لائے گئے پانی کے معاہدے میں سندھ کے تاریخی موقف کو تو تسلیم نہیں کیا گیا تھا مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر بھی عمل نہیں کیا جارہا ہے، لہٰذا سندھ پانی میں شدید کمی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ توانائی بحران کے بھرپور خاتمے کے لیے کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کرسکے۔
اس حوالے سے واپڈا کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز کو کم کرکے 10 فیصد تک لایا جائے اور تمام واجبات کی وصولی وفاقی اور صوبائی اداروں اور نجی شعبہ میں تمام بااثر طبقوں سے کی جائے۔ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بڑے محتاط طریقے سے تمام اداروں کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھنے کی ضرورت ہے، ان کی طرف سے کوئی نیا ٹکرائو نہیں ہونا چاہیے، اس سے غیر جمہوری سوچ رکھنے والے سیاسی اور انتظامی عناصر پھر اکٹھے ہوکر جمہوریت کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہایت ہی غور طلب بات یہ ہے کہ نواز شریف کی حکومت کو پاک فوج سے اپنے تعلقات کو بہت باریک بینی سے دیکھنا ہوگا، کیونکہ فوج کے ساتھ رہنا ہی ان کے لیے بڑا چیلنج ہوگا، جو معاملات بری طرح بگڑچکے ہیں وہ بھی اپنے فوری حل کے متقاضی ہیں۔
1990-93 میں میاں محمد نواز شریف کی پہلی حکومت اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے جھگڑے کے بعد آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی جانب سے کرائی گئی ڈیل کے نتیجے میں گئی اور 1997-99 میں نواز شریف کی دوسری حکومت کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے رخصت کردیا تھا، اس وقت وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ براہ راست تصادم کو کارگل کے واقعے نے بھی ہوا دی، اس سے قبل آئی ایس پی آر کے ذریعے بیان جاری کرنے پر نواز شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو معزول کردیا تھا، لہٰذا ان ساری باتوں کو نواز شریف نے ہوشمندی سے لینا ہے اور کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے کنی کتراتے ہوئے بچ کر نکلنا ہے۔ صرف اور صرف پاکستان اور اس کے عوام کے لیے بہتر سے بہتر کام کرنے ہیں، تاکہ عوام کے دلوں میں ان کا وقار بلند ہو۔
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
انتخابات کو انتخابات ہی ہونا چاہیے لیکن 61% ٹرن آئوٹ کے باوجود بھی انتخابات، انتخابات نہ رہے بلکہ نااہلیوں کی ایک جامع جیت ہوئی، پیپلزپارٹی کے ساتھ وہی ہوا جس کی وہ مستحق تھی، آصف علی زرداری نے انتخابات کو بھی ڈرائنگ روم کا معاملہ سمجھ رکھا تھا،ان کا خیال تھا پچھلے 5 سال کے مختلف مراحل کی طرح اس مرحلے پر بھی وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور عوام کو باآسانی بے وقوف بنادیں گے، انھوں نے سارا تکیہ تحریک انصاف پر کرلیا تھا۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے بجائے اس نے ان کی جماعت اور اے این پی کے ساتھ انصاف کردیا، تبدیلی تو نہیں آئی البتہ تبادلہ ہوگیا، وہ جو کہا جارہا تھا کہ ان دو جماعتوں کو باریاں نہیں لینے دیں گے، جو بار بار حکومتیں بنارہی ہیں، انہی میں سے ایک جماعت کو پھر باری مل گئی ہے۔
البتہ اتنی تبدیلی تو ضرور آئی ہے کہ اب تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی جماعت بن گئی ہے اگر سونامی نے پورے پاکستان یا کم سے کم پنجاب کو اپنی لپیٹ میں نہ لیا تو یہ نوجوان صرف مایوسی کا شکار ہی نہیں ہوں گے بلکہ ڈپریشن میں چلے جائیں گے، ان کی امیدیں، امنگیں اور توقعات اتنی بڑھادی گئی ہیں کہ وہ کسی حالت میں بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ہو بھی یہی رہا ہے۔ آج اگر اس ملک میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ صرف نوجوان قیادت ہی ملک میں انقلاب لائے گی تو یہ اچھبنے کی تو بات نہیں، تحریک پاکستان میں نوجوانوں کی قیادت کس نے کی تھی؟
قائداعظمؒ اور علامہ اقبال جنھوں نے اپنی تقریروں اور اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی، اگر لیڈر اور کپتان اچھا ہو تو قوم اور کھلاڑی اچھا کھیلتے ہیں، ان انتخابات میں سب سے زیادہ جوش اور ولولہ عمران خان اور شہباز شریف نے پیدا کیا، عمران خان نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے کر ثابت کیا کہ عوام کسی خوش گوار ہوا کے جھونکے کے منتظر تھے۔ لیکن اب بعد از الیکشن ان دونوں پارٹیوں یعنی پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ اب بیان بازیوں سے باہر کھل کر اپنے اپنے منشور کے تحت کام کریں، ان دونوں جماعتوں نے پی پی پی اور اے این پی کا حشر دیکھ لیا ہے، ان دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کرلینا چاہیے اور سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائے، ناکہ سڑکوں پر، چوراہوں پر دھرنے دے کر ایک دوسرے کی تضحیک کی جائے۔ ایک پختہ ذہن
اور جمہوری سوچ کے لیڈر کا ردعمل وہ ہوتا ہے جس کا اظہار الیکشن ہار کر غلام احمد بلور نے کیا اور جن کے الفاظ واقعی ایک جمہوری سوچ سے پروئے ہوئے تھے۔ اے این پی سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنی ہے، ایسا کون سا اے این پی کا لیڈر ہوگا جس نے دہشت گردی کے خلاف مزاحمت پر اپنا بیٹا، بھائی اور باپ نہ کھویا ہو۔ ہم بھول جانے والی قوم ہیں، ہم بھول جاتے ہیں، یہ الیکشن خون میں ڈوبے ہوئے ووٹوں کے الیکشن ہیں۔ لگتا ہے سندھ کا ووٹ سیلاب کے پانی سے زیادہ اب تک بے نظیر کے قتل پر آنسوئوں میں ڈوبا ہوا ہے، نواز شریف نے الیکشن کی تقریروں میں جو ارشاد فرمایا ہے اب وہ ان کو پورا کرنا ہے، نوجوانوں کو ان سے کئی توقعات ہیں، جن پر ان کو لازماً پورا اترنا ہے۔ پنجاب میں بھی ان کی حکومت ہوگی اور وہ یہ الیکشن محض شہباز شریف کے پنجاب میں کیے گئے کاموں کی وجہ سے ہی جیتے ہیں، عوا م کا جو اعتماد ان پر ہے وہ قائم رہنا چاہیے۔ ہم دکھوں کی ماری قوم ہیں، اگر کوئی پیار ومحبت سے ہم کو ایک پائی کی چیز بھی دے دیتاہے تو ہم خوش ہوجاتے ہیں۔
میاں نواز شریف کے لیے آنے والی یہ حکومت کوئی پھولوں کی سیج نہ ہوگی، ملکی خزانہ خالی ہے، معیشت کا بٹھہ بیٹھا ہوا ہے، زراعت نام کو ہی باقی ہے، بے روزگاری، غربت، دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ جیسے عفریتوں سے ان کا مقابلہ ہے، ایسے میں قوم کو اعتماد میں لے کر ہی وہ کچھ کر پائیںگے۔ جون میں ممکنہ بجٹ بھی آنا ہے، یعنی سر منڈھاتے ہی اولے پڑنے والی بات لاگو ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں صوبوں کے درمیان ساری شکایات اور تضادات کا ایک مستقل حل تلاش کرنے کے لیے اب پاکستان کو ایک نئے سوشل کانٹریکٹ کی ضرورت ہے، اس کے لیے (ن) لیگ کو سارے
صوبوں سے مذاکرات کرنے پڑیںگے اور کسی نئے سوشل کانٹریکٹ پر اتفاق ہونے کے بعد اس معاہدے کی روشنی میں آئین میں مطلوبہ ترامیم بھی کرنی پڑیںگی اور خاص طورپر سندھ کو شکایات ہیں اور رہی ہیں، شکایات یہ ہیں کہ 1991 میں نواز شریف کی حکومت کی طرف سے لائے گئے پانی کے معاہدے میں سندھ کے تاریخی موقف کو تو تسلیم نہیں کیا گیا تھا مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر بھی عمل نہیں کیا جارہا ہے، لہٰذا سندھ پانی میں شدید کمی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ توانائی بحران کے بھرپور خاتمے کے لیے کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کرسکے۔
اس حوالے سے واپڈا کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز کو کم کرکے 10 فیصد تک لایا جائے اور تمام واجبات کی وصولی وفاقی اور صوبائی اداروں اور نجی شعبہ میں تمام بااثر طبقوں سے کی جائے۔ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بڑے محتاط طریقے سے تمام اداروں کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھنے کی ضرورت ہے، ان کی طرف سے کوئی نیا ٹکرائو نہیں ہونا چاہیے، اس سے غیر جمہوری سوچ رکھنے والے سیاسی اور انتظامی عناصر پھر اکٹھے ہوکر جمہوریت کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہایت ہی غور طلب بات یہ ہے کہ نواز شریف کی حکومت کو پاک فوج سے اپنے تعلقات کو بہت باریک بینی سے دیکھنا ہوگا، کیونکہ فوج کے ساتھ رہنا ہی ان کے لیے بڑا چیلنج ہوگا، جو معاملات بری طرح بگڑچکے ہیں وہ بھی اپنے فوری حل کے متقاضی ہیں۔
1990-93 میں میاں محمد نواز شریف کی پہلی حکومت اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے جھگڑے کے بعد آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی جانب سے کرائی گئی ڈیل کے نتیجے میں گئی اور 1997-99 میں نواز شریف کی دوسری حکومت کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے رخصت کردیا تھا، اس وقت وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ براہ راست تصادم کو کارگل کے واقعے نے بھی ہوا دی، اس سے قبل آئی ایس پی آر کے ذریعے بیان جاری کرنے پر نواز شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو معزول کردیا تھا، لہٰذا ان ساری باتوں کو نواز شریف نے ہوشمندی سے لینا ہے اور کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے کنی کتراتے ہوئے بچ کر نکلنا ہے۔ صرف اور صرف پاکستان اور اس کے عوام کے لیے بہتر سے بہتر کام کرنے ہیں، تاکہ عوام کے دلوں میں ان کا وقار بلند ہو۔
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا