بڑا شور سنتے تھے
’’بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا‘‘ لیکن جناب! الٹ معاملہ ہوگیا اور ووٹرز کی امیدوں پر پانی پھر گیا...
''بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا'' لیکن جناب! الٹ معاملہ ہوگیا اور ووٹرز کی امیدوں پر پانی پھر گیا، اس کی وجہ پولنگ اسٹیشنوں پر نہ فوج تعینات کی گئی تھی اور نہ رینجرز نظر آئی، اسی وجہ سے وہ کچھ ہوا جس کی توقع نہیں تھی۔ ٹی وی چینلز نے دھاندلی کے مناظر بار بار دکھائے، الیکشن کمیشن نے فوری طور پر اس کا نوٹس نہیں لیا، جس کا اظہار الیکشن کمیشن کی طرف سے بھی کیا گیا اور انھیں اپنی خامی کا اعتراف کرنا پڑا۔ بے شک الیکشن ہوگئے اور سلیکشن کا کام مزید باقی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ الیکشن والے دن بھی پولنگ اسٹیشنوں میں دہشت گردوں کے حملے جاری رہے، قائد آباد کے پولنگ اسٹیشن پر حملے کے نتیجے میں ایک ساتھ 11 افراد دم توڑگئے اور ان کے گھروں میں موت کے بھیانک سائے لہرانے لگے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ فوج پولنگ اسٹیشنوں پر موجود ہوتی، لوگ ان کی موجودگی میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے تو نہ صرف حالات کچھ اور ہوتے بلکہ اس قدر اموات بھی نہیں ہوتیں، نہ لڑائی جھگڑے اور نہ نفرت و تعصب کی ہوائیں رقص کرتیں۔ اب پاکستانی عوام دھرنے دینے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اپنا حق طلب کررہے ہیں ، کئی دن سے سڑکوں پر براجمان ہیں ، انہی حالات میں نواز شریف کو دوسرے ملکوں کے سربراہان مبارکباد پیش کر رہے ہیں، نواز شریف نے عمران خان سے بھی ملاقات کی، پھولوں کا تحفہ پیش کیا اور نیک خیالات کا اظہار کیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ نواز شریف بحیثیت وزیراعظم (جب وہ اس عہدے کا حلف لے لیں) سب کو ساتھ لے کر چلیں، ماضی کو بھول جائیں، دشمنوں کو معاف کردیں، جس طرح وہ پنجاب کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لیتے ہیں بالکل اسی طرح کراچی اور دوسرے شہروں کی ترقی اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری کو انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نبھائیں۔
ماضی میں بہت سارے لوگوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا ۔ بہت سارے لوگ بے روزگار ہوگئے تھے ۔ انٹرنیشنل روٹس کی تبدیلی سے کراچی ایئرپورٹ پر بین الاقوامی پروازوں کی آمد قصہ پارینہ بن گئی۔ کراچی ایئرپورٹ کو پورے ایشیا میں اہمیت حاصل تھی، جو اب نہیں ہے، جو بھی شخصیات اقتدار اعلیٰ کا حلف اٹھائیں ان کا اولین فرض ہے کہ وہ ماضی کو بھلادیں، ویسے بھی ماضی کو یاد کرنا ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ازسرنو پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے اور پاکستانی عوام جو دکھ تکلیف میں مبتلا ہیں، جنھیں مہنگائی کا غم جینے نہیں دیتا اور جان کا خوف سکھ کا سانس لینے میں رکاوٹ بنتا ہے، خوف و ہراس کی پرچھائیاں اس کے اطراف میں بلکہ قدم سے قدم ملاکر چلتی ہیں، فائرنگ کی آوازیں دل دہلانے کا باعث بنی ہوئی ہیں، رعایا غیر محفوظ ہے، اس قوم کے ننھے بچے، خواتین ہر روز مارے جاتے ہیں، ان کی داد رسی کی سخت ضرورت ہے۔ نواز شریف نے اپنے نیک جذبات کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انھوں نے امریکا کے ساتھ دوسرے ممالک سے بھی اچھے اور خوشگوار تعلقات رکھنے کی بات کی ہے۔
پاکستانی عوام نے حکومت بدلنے کی دعائیں اور عملی کوششیں اسی لیے کی تھیں کہ وہ جہالت کے اندھیروں سے نکلنا چاہتے تھے اور امن کا سورج دیکھنے کے متمنی تھے۔ ماضی میں انھیں دکھوں کے سوا کچھ نہیں ملا، تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت نے اپنا ہی بھلا سوچا، ذاتی مفاد کی سیاست کی، جس کے نتیجے میں ہر روز پابندی سے لوگ قتل کیے جانے لگے، ان معصوم لوگوں نے بھلا کس کا کیا بگاڑا تھا؟ اگر بگاڑا بھی تھا تو قانون کا سہارا لیں، لیکن میں بھی بھلا کس قانون کی بات کر رہی ہوں؟ قانون تو کسی گمشدہ پرندے کا نام ہے جو اپنے گھر کی راہ بھول چکا ہے۔ ہمارے سامنے بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ وہ لوگ بھی مارے گئے اور مارے جارہے ہیں جو بے قصور و بے خطا اور اپنے گھر کے واحد کفیل تھے۔
اب دیکھیے نا! ایک طرف انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی بات ہورہی ہے اور دوسری طرف کامیابیوں کے جشن منائے جارہے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں، دھمال ڈالا جارہا ہے، خوشیاں ہی خوشیاں ہیں، لگتا ہے اس ملک میں اب کوئی غم نہیں رہا، لیکن غم تو اب بھی ہے، ہلاکتیں اب بھی ہورہی ہیں، الیکشن کے تین دن بعد، کراچی میں فائرنگ کے نتیجے میں دو کارکن بھائیوں سمیت آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے۔ ایک اور سیاسی کارکن کو بھی مارا گیا، ہاتھ پاؤں بندھی لاشوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ملزمان نے عدنان احمد اور اس کے چھوٹے بھائی شعیب کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیا اور لاشوں کو سرعام پھینک دیا گیا، ان کے والدین پر کیا گزری ہوگی، ایک ساتھ دونوں بھائی ملک عدم روانہ ہوگئے۔
افسوس رینجرز اور پولیس کی موجودگی میں آج بھی عقوبت خانوں میں مغویوں کے ساتھ بدترین اور بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے، ان عقوبت خانوں کو بند کرنے اور قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے فورسز بھی بے بس نظر آتی ہے، آخر کیوں؟
پی ٹی آئی کو اﷲ نے سرخرو کیا اور خیبرپختونخوا میں نمایاں اور شاندار کامیابی نصیب ہوئی، ہر کام میں اﷲ کی حکمت پوشیدہ ہے کہ عمران خان کا اس خاص موقع پر زخمی ہونا اور اسپتال میں علاج کے لیے منتقل ہونا، یقیناً ان کے لیے بہتری ہی ہوگی، عمران خان کی کوششیں رنگ لائیں، ان کے چاہنے والے دھرنا دیے بیٹھے رہے ، انھیں انصاف چاہیے کہ پاکستانی قوم آمریت جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے، سے تنگ آچکی ہے۔ پاکستانیوں کو کھلی فضاؤں اور خوشگوار ماحول کی ضرورت ہے، گھٹن اور حبس، مایوسی اور بداعتمادی پیدا کرتی ہے، ڈیفنس کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ ہیں، اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ اگر یہ وقت گنوا دیا تو پھر گزرا ہوا زمانہ لوٹ کر نہیں آتا ہے اور ہر دکھ، ہر ناکامی، قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ شاید انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 43 پولنگ اسٹیشنز پر 19 مئی کو بحکم الیکشن کمیشن دوبارہ ووٹنگ ہورہی ہے، متحدہ نے بائیکاٹ کردیا ہے۔لیکن اس بار الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے اپنا کردار ضرور ادا کریں تاکہ مزید خون خرابہ نہ ہو اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ جیت، ہار کو ثانوی درجے پر رکھنا چاہیے، اصل مقصد صرف ملک میں امن اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو ناگزیر قرار دینے کی ضرورت ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ فوج پولنگ اسٹیشنوں پر موجود ہوتی، لوگ ان کی موجودگی میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے تو نہ صرف حالات کچھ اور ہوتے بلکہ اس قدر اموات بھی نہیں ہوتیں، نہ لڑائی جھگڑے اور نہ نفرت و تعصب کی ہوائیں رقص کرتیں۔ اب پاکستانی عوام دھرنے دینے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اپنا حق طلب کررہے ہیں ، کئی دن سے سڑکوں پر براجمان ہیں ، انہی حالات میں نواز شریف کو دوسرے ملکوں کے سربراہان مبارکباد پیش کر رہے ہیں، نواز شریف نے عمران خان سے بھی ملاقات کی، پھولوں کا تحفہ پیش کیا اور نیک خیالات کا اظہار کیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ نواز شریف بحیثیت وزیراعظم (جب وہ اس عہدے کا حلف لے لیں) سب کو ساتھ لے کر چلیں، ماضی کو بھول جائیں، دشمنوں کو معاف کردیں، جس طرح وہ پنجاب کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لیتے ہیں بالکل اسی طرح کراچی اور دوسرے شہروں کی ترقی اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری کو انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نبھائیں۔
ماضی میں بہت سارے لوگوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا ۔ بہت سارے لوگ بے روزگار ہوگئے تھے ۔ انٹرنیشنل روٹس کی تبدیلی سے کراچی ایئرپورٹ پر بین الاقوامی پروازوں کی آمد قصہ پارینہ بن گئی۔ کراچی ایئرپورٹ کو پورے ایشیا میں اہمیت حاصل تھی، جو اب نہیں ہے، جو بھی شخصیات اقتدار اعلیٰ کا حلف اٹھائیں ان کا اولین فرض ہے کہ وہ ماضی کو بھلادیں، ویسے بھی ماضی کو یاد کرنا ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ازسرنو پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے اور پاکستانی عوام جو دکھ تکلیف میں مبتلا ہیں، جنھیں مہنگائی کا غم جینے نہیں دیتا اور جان کا خوف سکھ کا سانس لینے میں رکاوٹ بنتا ہے، خوف و ہراس کی پرچھائیاں اس کے اطراف میں بلکہ قدم سے قدم ملاکر چلتی ہیں، فائرنگ کی آوازیں دل دہلانے کا باعث بنی ہوئی ہیں، رعایا غیر محفوظ ہے، اس قوم کے ننھے بچے، خواتین ہر روز مارے جاتے ہیں، ان کی داد رسی کی سخت ضرورت ہے۔ نواز شریف نے اپنے نیک جذبات کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انھوں نے امریکا کے ساتھ دوسرے ممالک سے بھی اچھے اور خوشگوار تعلقات رکھنے کی بات کی ہے۔
پاکستانی عوام نے حکومت بدلنے کی دعائیں اور عملی کوششیں اسی لیے کی تھیں کہ وہ جہالت کے اندھیروں سے نکلنا چاہتے تھے اور امن کا سورج دیکھنے کے متمنی تھے۔ ماضی میں انھیں دکھوں کے سوا کچھ نہیں ملا، تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت نے اپنا ہی بھلا سوچا، ذاتی مفاد کی سیاست کی، جس کے نتیجے میں ہر روز پابندی سے لوگ قتل کیے جانے لگے، ان معصوم لوگوں نے بھلا کس کا کیا بگاڑا تھا؟ اگر بگاڑا بھی تھا تو قانون کا سہارا لیں، لیکن میں بھی بھلا کس قانون کی بات کر رہی ہوں؟ قانون تو کسی گمشدہ پرندے کا نام ہے جو اپنے گھر کی راہ بھول چکا ہے۔ ہمارے سامنے بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ وہ لوگ بھی مارے گئے اور مارے جارہے ہیں جو بے قصور و بے خطا اور اپنے گھر کے واحد کفیل تھے۔
اب دیکھیے نا! ایک طرف انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی بات ہورہی ہے اور دوسری طرف کامیابیوں کے جشن منائے جارہے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں، دھمال ڈالا جارہا ہے، خوشیاں ہی خوشیاں ہیں، لگتا ہے اس ملک میں اب کوئی غم نہیں رہا، لیکن غم تو اب بھی ہے، ہلاکتیں اب بھی ہورہی ہیں، الیکشن کے تین دن بعد، کراچی میں فائرنگ کے نتیجے میں دو کارکن بھائیوں سمیت آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے۔ ایک اور سیاسی کارکن کو بھی مارا گیا، ہاتھ پاؤں بندھی لاشوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ملزمان نے عدنان احمد اور اس کے چھوٹے بھائی شعیب کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیا اور لاشوں کو سرعام پھینک دیا گیا، ان کے والدین پر کیا گزری ہوگی، ایک ساتھ دونوں بھائی ملک عدم روانہ ہوگئے۔
افسوس رینجرز اور پولیس کی موجودگی میں آج بھی عقوبت خانوں میں مغویوں کے ساتھ بدترین اور بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے، ان عقوبت خانوں کو بند کرنے اور قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے فورسز بھی بے بس نظر آتی ہے، آخر کیوں؟
پی ٹی آئی کو اﷲ نے سرخرو کیا اور خیبرپختونخوا میں نمایاں اور شاندار کامیابی نصیب ہوئی، ہر کام میں اﷲ کی حکمت پوشیدہ ہے کہ عمران خان کا اس خاص موقع پر زخمی ہونا اور اسپتال میں علاج کے لیے منتقل ہونا، یقیناً ان کے لیے بہتری ہی ہوگی، عمران خان کی کوششیں رنگ لائیں، ان کے چاہنے والے دھرنا دیے بیٹھے رہے ، انھیں انصاف چاہیے کہ پاکستانی قوم آمریت جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے، سے تنگ آچکی ہے۔ پاکستانیوں کو کھلی فضاؤں اور خوشگوار ماحول کی ضرورت ہے، گھٹن اور حبس، مایوسی اور بداعتمادی پیدا کرتی ہے، ڈیفنس کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ ہیں، اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ اگر یہ وقت گنوا دیا تو پھر گزرا ہوا زمانہ لوٹ کر نہیں آتا ہے اور ہر دکھ، ہر ناکامی، قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ شاید انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 43 پولنگ اسٹیشنز پر 19 مئی کو بحکم الیکشن کمیشن دوبارہ ووٹنگ ہورہی ہے، متحدہ نے بائیکاٹ کردیا ہے۔لیکن اس بار الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے اپنا کردار ضرور ادا کریں تاکہ مزید خون خرابہ نہ ہو اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ جیت، ہار کو ثانوی درجے پر رکھنا چاہیے، اصل مقصد صرف ملک میں امن اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو ناگزیر قرار دینے کی ضرورت ہے۔