کراچی سے دبئی   پہلا حصہ

دبئی کی فلک بوس عمارتوں اور مشہور چیزوں کے بارے میں سنا تھا، دیکھا نہیں تھا۔


Naseem Anjum August 12, 2018
[email protected]

یہ 31 دسمبر 2016 ہے، میرا چھوٹا سا کنبہ کراچی ایئرپورٹ پر جانے کے لیے سفر میں ہے، اس وقت میرے اندر اور باہر کا موسم بے حد خوشگوار ہے، ٹھنڈی ہوائیں ہماری زلفوں اور رخساروں کو چھوتی ہوئی گزر رہی ہیں، آسمان ہلکے نارنجی اور سرمئی بادلوں کے ٹکڑوں سے سج گیا ہے، بھاگتے دوڑتے اور عرش پر تیرتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے پکڑم پکڑائی کا کھیل جاری ہو، ویسے غور کیا جائے تو یہ بدلیاں، یہ موسم اور موسموں کی سنگینیاں اور رنگینیاں قدرت کی کاریگری کا نمونہ، پل بھر میں وہ موسم بدل دیتا ہے۔ اللہ کی رضا کے بغیر کائنات کا کوئی کام ممکن نہیں ہے، ہر چیز اللہ کی فرمانبردار ہے، سوائے انسان کے۔

دبئی کی فلک بوس عمارتوں اور مشہور چیزوں کے بارے میں سنا تھا، دیکھا نہیں تھا، انشا اللہ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد سرزمین عرب پر قدم ہوں گے۔ دبئی کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ عرب امارات کا سب سے بڑا شہر ہے، یہ شہر اپنی صنعتوں، تعمیرات و رہائش کے عظیم منصوبوں اور ان پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے اپنی منفرد خصوصیت رکھتا ہے، سب سے قابل فخر یہ بات بھی ہے کھیلوں کے شاندار ایونٹس اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اندراج کے باعث اسے شہرت اور وقار حاصل ہے۔

16 جولائی 2018 کے حساب سے اس کی آبادی 3.098 ملین ہے اور اس کی بنیاد 1833 میں 9 جون کو رکھی گئی، اس بڑے اور مسلم آبادی کے شہر کے بارے میں مزید گفتگو چلتی رہے گی، اس کی وجہ داخلی دنیا کو خیرباد اس لیے کہنا پڑا ہے کہ بھیگی بھیگی ہواؤں نے سوچوں کے لامتناہی سلسلے کو منقطع کردیا ہے اور اب میں اپنے اطراف میں دوبارہ لوٹ آئی ہوں۔ دھند کی اجلی اور شفاف ردا نے راستوں کو ڈھانپ دیا ہے، ان حالات میں ڈرائیور نے محتاط انداز اختیار کیا ہے اور گاڑی دھیمی رفتار میں منزل کی طرف رواں دواں ہے۔

سڑک کے کنارے لگے ہوئے درخت اور پودے کہر کی زد میں آگئے ہیں۔ دسمبر کی بھیگی بھیگی رت برف میں بھیگی ہوئی محسوس ہورہی تھی اور پورا ماحول خوابیدہ سا نظر آرہا تھا، اس کی وجہ موسم کا رنگین مزاج تھا، جس نے تقریباً ہر دل والے کو سرور بخش دیا تھا، اس منظر کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا، جیسے نیند کا خمار ہو اور جس نے ہر ذی نفس کو سحر میں مبتلا کردیا ہے لیکن ہمارا دل و دماغ مکمل طور پر نہ کہ جاگ رہا تھا بلکہ ایک سرشاری کی کیفیت بھی طاری تھی۔

بالکل اچانک ہی پروگرام بنا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کا موقع میسر آگیا تھا۔ میرے ساتھ میری بہن ناہید بھی تھیں، جن کی سنگت میں محفل اور سفر کا ماحول دوبالا ہوجاتا ہے۔ ان کے مزاج میں مزاح کا عنصر زیادہ غالب ہے جب کہ میری طبیعت میں اداسی کے کئی رنگ پنہاں ہیں لیکن ہر وقت نہیں، میرے دونوں بچے بھی مکمل طور پر سفر میں تھے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر قہقہوں کی جلترنگ اور خوشیوں کی بارات ساتھ تھی، لیکن میرا حال یہ تھا کہ موجود بھی تھی اور غیر حاضر بھی، بہت سے تفکرات، ملکی حالات، غیر ملکوں میں ہونے والی جنگیں، مسلمانوں کا استحصال اور زبوں حالی خون کے آنسو رلانے اس سہانے موسم میں بھی چلی آئی تھی۔

شامیوں کے بے گور و کفن لاشے، سرحد پر پڑوسی ملکوں بھارت کی اشتعال انگیز فائرنگ اور روہنگیا کے مسلمانوں کا نوحہ، اپنے ملک میں ہونے والی انارکی کی فضا اور نوجوانوں کا قتل عام سر راہ بھی اور زنداں میں بھی، آخر ہمارے ملک کا قانون کہاں کھو گیا تھا، پردیس سے آنیوالے پرندوں اور سائبیریا کی ہواؤں کی طرح دور بہت دور چلا گیا تھا ، اب کب واپسی ہوگی، میں نے دکھ سے سوچا شاید جب ضمیر جاگے، دینی حمیت بیدار ہو، ایسے رویوں کی تبدیلی کے آثار تو نظر نہیں آتے شاید حکومت بدلے تب، لیکن عوام کو بھی بدلنا ہوگا۔

خیالات کی رو بہت تیز سفر کرتی ہے، سالوں اور صدیوں کی روداد اور یادیں پل میں دماغ میں روشن ہو جاتی ہیں۔ سفر ہو یا حضر خیال و افکار کے اجالے اور اندھیرے ساتھ چلتے ہیں، جب دل روتا ہے تو چہرہ ہنستا ہے جب، اور جب چہرہ ہنستا ہے تو دل چپکے سے آنسو بہاتا ہے کہ ہمارے غموں کے اندھیروں کو کوئی دیکھ نہ سکے، یہ کیسی تضاد بھری زندگی ہے، مصلحت کے خوش رنگ نقابوں کو ہر شخص اپنے چہروں پر ڈالنے پر مجبور ہے مگر سوچوں کی وادیوں سے نکلی ہوں تو ایئرپورٹ کے اندر سامان لے جاتی ہوئی ٹرالیاں حرکت میں آگئی ہیں، ہم سب اتر گئے ہیں اور لاؤنج میں داخل ہوگئے ہیں۔

کراچی ایئرپورٹ پر پہلی بار نہیں، گزشتہ پندرہ بیس سال میں دو چار چکر لگ جاتے ہیں، کبھی گھر والوں کو الوداع اور کبھی خوش آمدید کہنے کے لیے ایئرپورٹ کی خوبصورت بلڈنگ میں قدم رکھنا ہی پڑتا ہے، جو اچھا لگتا ہے ۔سب کی نگاہیں بے اختیار بورڈ پر چلی گئی ہیں، جہاز کے آنے میں تاخیر تھی، ہماری فلائٹ کا نام فلائی دبئی ہے اور ایک طویل انتظار کے بعد بھی جہاز کا کوئی اتا پتا نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کراچی میں Fog کا راج ہے تو دبئی میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے کہ وہاں بھی ماہ دسمبر ہے، پوری دنیا دسمبر کو انجوائے کرنے کے لیے دور دور کا سفر کرکے زندگی میں آنے والی تھکن اور بوریت کا دور کرنے کا سامان کرلیتی ہے، یکسانیت اکثر مایوسی اور بیماری کا سبب بنتی ہے، لہٰذا تبدیلی آب و ہوا کی ضرورت ضروریات زندگی میں شامل ہوجاتی ہے۔

زندہ دل لوگ سفر کے یادگار لمحوں کو دل و دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ کرلیتے ہیں، پھر یہ خوبصورت شامیں اور رات کی سحر انگیزی سرمایہ حیات بن جاتی ہیں، بار بار ان نظاروں کو سامنے لانا اور دلکش جگہوں، ریسٹورنٹ کی ہلکی روشنی میں کینڈل ڈنر کرنا، برف سے کھیلنا اور من پسند چیزیں بنانا اچھا لگتا ہے۔ اور یادوں کے جگنو وقتی طور پر ہی سہی قلب و نظر کو روشن کردیتے ہیں اور روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور ہر دکھ اور تفکرات سے پل بھر کے لیے دوری ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ اچھا لگتا ہے۔ اکثر ہم نے آج جیسی صورتحال کو ٹی وی کے مختلف چینلز پر اور مسافروں کو جہاز کے انتظار میں سیٹوں اور فرش پر لیٹا ہوا دیکھا تھا، انھیں دیکھ کر ریلوے اسٹیشن یاد آجاتا ہے، یا سرکاری اسپتال جہاں دور دراز سے آئے ہوئے مریض بیڈ ملنے اور اسپتال میں داخل ہونے کا انتظار کرتے برآمدے یا سبزے پر مریض کے ساتھ لیٹ جایا کرتے تھے کہ کوئی پرسان حال نہ تھا۔

بالکل ایسا ہی حال ایئرپورٹ پر اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، کچھ مسافر سیٹوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں، اور کچھ لاؤنج سے باہر آکر کہر اور سرد ہواؤں کے مزے لوٹ رہے ہیں، کوئی بھی مسافر کراچی یا دبئی ایئرپورٹ کے عملے کو برا بھلا کہنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہوا ہے، یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان کی بکنگ ہے، موسم صحیح ہوگا، دھوپ نکلے گی تب جہاز بھی اپنی منزل کی سمت پرواز کرنے لگے گا، انتظار کی تکلیف دہ کیفیت میں کئی گھنٹے گزر گئے ہیں، لہٰذا بھوک نے کینٹین کا راستہ دکھادیا ہے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں