کل کا پاکستان
ایک وقت میں اور ایک چھت تلے ان سب بہت مصروف لوگوں کو جمع کرنا اپنی جگہ پر ایک مرحلہ تھا۔
14 اگست کی آمد آمد ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی ہر سطح پر زوروں پر ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اس بار صرف جھنڈیوں اور روشنیوں کا اہتمام ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ ذہنی جذباتی اور تاریخی رویوں کے حوالے سے بھی اس کے مختلف پہلوئوں پر بات ہو رہی ہے اور اس میں ملک کی پہچان بننے والے بڑے بڑے اداروں کے سی ای اوز سے لے کر نوجوان نسل کے نمائندوں اور مستقبل کے نگہبانوں تک سب ہی ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔
اس حوالے سے مجھے بھی بہت سے پروگراموں کو دیکھنے، سننے اور ان میں حصہ لینے کا موقع ملا ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت عرصے کے بعد اس بار یوم آزادی کی زیادہ اور نئے عزم و ارادے کے ساتھ منایا جا رہا ہے اور یہ ایک بہت خوش آئند اور مبارک خبر ہے کہ ہمارے قومی تہوار بوجوہ ایک مخصوص قسم کی یکسانیت اور ٹھہرائو کا شکار ہوتے چلے جا رہے تھے۔
عزیزی اعجاز نثار گزشتہ 18 برس سے وطن عزیز کے اہم اور دور رس اثرات کے حامل اداروں کے سی ای اوز کو کسی نہ کسی حوالے سے اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ اس بار کی گفتگو کا موضوع ہی انھوں نے پاکستان کے آئندہ پانچ سال رکھا تھا۔
ایک وقت میں اور ایک چھت تلے ان سب بہت مصروف لوگوں کو جمع کرنا اپنی جگہ پر ایک مرحلہ تھا۔ مگر جس اعلیٰ اور معیاری سطح کی باتیں اس محفل میں سننے کو ملیں وہ اپنی جگہ پر ایک بھر پور تجربہ تھا کہ فی زمانہ انڈسٹری، معیشت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انرجی اور پانی کے مسائل ایک مسلسل لمحہ فکریہ بنتے چلے جا رہے ہیں اور ان کے حل کے لیے مربوط اور ہمہ گیر ایسی پالیسی سازی جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام متعلقہ شعبوں کے ماہرین اور عوام کے نمائندے بھی شامل ہوں ایک بھولی ہوئی داستان بنتی چلی جارہی ہے۔
مجھے یاد ہے ساٹھ کی دہائی میں جب ہم لوگ تعلیمی مدارج طے کر رہے تھے ملکی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایک پنچ سالہ منصوبہ بنا کرتا تھا اور روایت ہے کہ دنیا بھر کے بہت سے ترقی پذیر ممالک بشمول کوریا ان کو بطور ماڈل استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد یا تو یہ سال بہ سال بجٹ کے مالیاتی خساروں کی نذر ہو گئے یا ان کا دائرہ آئندہ بیس برسوں کی ایک تصوراتی ترقی کے پیچ و خم میں کھو گیا کہ نہ تو کسی حکومت کو تسلسل سے اس پر عمل کرنے کا موقع ملا اور نہ ہی اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی گئی۔
اس پس منظر میں اس سی ای او کانفرنس کے تجویز کردہ عنوان میں آئندہ پانچ سالوں کا ذکر اور بھی اچھا لگا کہ شاید اب ہم قومی مسائل میں حصہ داری کے اس اہم اور ضروری موڈ کی طرف پھر سے مڑ رہے ہیں کہ جس کے آگے ہمارا روشن مستقبل کب سے ہمارے انتظار میں کھڑا ہے۔
اسی طرح ایک ٹی وی چینل کی طرف سے دو گھنٹے دورانیے کے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جس کی ریکارڈنگ واہگہ بارڈر پر کی گئی اور جس میں کی گئی گفتگو کا مقصد نوجوان نسل کے ساتھ ایک مکالمہ تھا کہ بدلتے ہوئے حالات میں انھیں کس طرح سے اس پیارے ملک، اس کے نظریے اور خواب کو آگے لے کر چلنا ہے۔ نوجوانوں کے سوالات بہت اچھے سنجیدہ اور خیال افروز تھے اور ان کا رخ تربیت، حوصلے اور امید کی طرف تھا کہ ہر شخص اپنے اندر موجود لیڈر شپ کی صلاحیتوں کو تلاش کرے اور جان لے کہ شکست گرنے کا نام نہیں بلکہ اس ذہنی کیفیت کا نام ہے جب آپ گرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کے حوصلے اور ہمت سے محروم ہو جاتے ہیں اور اجتماعی حوالے سے اس حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھیں، اپنے اور دوسروں کے حقوق کو پہچانیں اور ان کی عزت کریں اور مل جل کر رہنا سیکھیں کہ ٹیم ورک اچھا ہو تو کھیل اور کھلاڑی دونوں کا معیار خود بخود بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔
اسی تسلسل کو آگے بڑھانے کے لیے ابھی مجھے 13 اگست کو ایک ایسی تقریب میں شریک ہونا ہے جس میں نوجوان نسل کو اس کی ایک عملی شکل مہیا کی گئی ہے اور جو میرے دل سے بہت قریب ہے۔
چند برس قبل میرے ہمسائے اور محترم دوست میجر ریٹائرڈ رفیق حسرت نے مجھے بتایا کہ وہ لاہور کے نواحی علاقے میں کچھ احباب اور اداروں سے مل کر بچوں کے لیے ایک مثالی ہوسٹل نما تعلیمی ادارہ بنا رہے ہیں جہاں سارے صوبوں سے تیس تیس منتخب غریب اور لائق طلبہ کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔ ان کے تمام تر رہائش اور تعلیم کے اخراجات ادارے کے ذمہ ہوں گے جو ان کی مزید اعلیٰ تعلیم کا بندوبست بھی کرے گا مگر اس کا اصل مقصد نوجوان نسل میں رنگ، نسل، عقیدے اور علاقے کی پہچان سے اوپر اٹھ کر سب کو ایک پاکستان کے شہری بنانا ہے۔ اس کے لیے غزالی ایجوکیشن سسٹم کے تعاون سے دور دراز کے علاقوں سے بچوں کا انتخاب کیا گیا۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ اس برس 24 بچے میٹرک کے امتحان میں شامل ہوئے جن میں سے 22 نے اے پلس اور 2 نے اے گریڈ کے ساتھ میں کامیابی حاصل کی ہے اور یوں 13 اگست کی شام ان کی اس کامیابی کا رشتہ یوم آزادی سے جوڑنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک خصوصی تقریب بھی منعقد کی جائے گی جس کا ایک ایک لمحہ پاکستان کے نام ہوگا۔ میری ذاتی رائے میں اس طرح کی سوچ کی ہر ممکن حوصلہ افزائی اور سرپرستی واجب ہے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔
اس حوالے سے مجھے بھی بہت سے پروگراموں کو دیکھنے، سننے اور ان میں حصہ لینے کا موقع ملا ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت عرصے کے بعد اس بار یوم آزادی کی زیادہ اور نئے عزم و ارادے کے ساتھ منایا جا رہا ہے اور یہ ایک بہت خوش آئند اور مبارک خبر ہے کہ ہمارے قومی تہوار بوجوہ ایک مخصوص قسم کی یکسانیت اور ٹھہرائو کا شکار ہوتے چلے جا رہے تھے۔
عزیزی اعجاز نثار گزشتہ 18 برس سے وطن عزیز کے اہم اور دور رس اثرات کے حامل اداروں کے سی ای اوز کو کسی نہ کسی حوالے سے اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ اس بار کی گفتگو کا موضوع ہی انھوں نے پاکستان کے آئندہ پانچ سال رکھا تھا۔
ایک وقت میں اور ایک چھت تلے ان سب بہت مصروف لوگوں کو جمع کرنا اپنی جگہ پر ایک مرحلہ تھا۔ مگر جس اعلیٰ اور معیاری سطح کی باتیں اس محفل میں سننے کو ملیں وہ اپنی جگہ پر ایک بھر پور تجربہ تھا کہ فی زمانہ انڈسٹری، معیشت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انرجی اور پانی کے مسائل ایک مسلسل لمحہ فکریہ بنتے چلے جا رہے ہیں اور ان کے حل کے لیے مربوط اور ہمہ گیر ایسی پالیسی سازی جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام متعلقہ شعبوں کے ماہرین اور عوام کے نمائندے بھی شامل ہوں ایک بھولی ہوئی داستان بنتی چلی جارہی ہے۔
مجھے یاد ہے ساٹھ کی دہائی میں جب ہم لوگ تعلیمی مدارج طے کر رہے تھے ملکی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایک پنچ سالہ منصوبہ بنا کرتا تھا اور روایت ہے کہ دنیا بھر کے بہت سے ترقی پذیر ممالک بشمول کوریا ان کو بطور ماڈل استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد یا تو یہ سال بہ سال بجٹ کے مالیاتی خساروں کی نذر ہو گئے یا ان کا دائرہ آئندہ بیس برسوں کی ایک تصوراتی ترقی کے پیچ و خم میں کھو گیا کہ نہ تو کسی حکومت کو تسلسل سے اس پر عمل کرنے کا موقع ملا اور نہ ہی اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی گئی۔
اس پس منظر میں اس سی ای او کانفرنس کے تجویز کردہ عنوان میں آئندہ پانچ سالوں کا ذکر اور بھی اچھا لگا کہ شاید اب ہم قومی مسائل میں حصہ داری کے اس اہم اور ضروری موڈ کی طرف پھر سے مڑ رہے ہیں کہ جس کے آگے ہمارا روشن مستقبل کب سے ہمارے انتظار میں کھڑا ہے۔
اسی طرح ایک ٹی وی چینل کی طرف سے دو گھنٹے دورانیے کے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جس کی ریکارڈنگ واہگہ بارڈر پر کی گئی اور جس میں کی گئی گفتگو کا مقصد نوجوان نسل کے ساتھ ایک مکالمہ تھا کہ بدلتے ہوئے حالات میں انھیں کس طرح سے اس پیارے ملک، اس کے نظریے اور خواب کو آگے لے کر چلنا ہے۔ نوجوانوں کے سوالات بہت اچھے سنجیدہ اور خیال افروز تھے اور ان کا رخ تربیت، حوصلے اور امید کی طرف تھا کہ ہر شخص اپنے اندر موجود لیڈر شپ کی صلاحیتوں کو تلاش کرے اور جان لے کہ شکست گرنے کا نام نہیں بلکہ اس ذہنی کیفیت کا نام ہے جب آپ گرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کے حوصلے اور ہمت سے محروم ہو جاتے ہیں اور اجتماعی حوالے سے اس حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھیں، اپنے اور دوسروں کے حقوق کو پہچانیں اور ان کی عزت کریں اور مل جل کر رہنا سیکھیں کہ ٹیم ورک اچھا ہو تو کھیل اور کھلاڑی دونوں کا معیار خود بخود بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔
اسی تسلسل کو آگے بڑھانے کے لیے ابھی مجھے 13 اگست کو ایک ایسی تقریب میں شریک ہونا ہے جس میں نوجوان نسل کو اس کی ایک عملی شکل مہیا کی گئی ہے اور جو میرے دل سے بہت قریب ہے۔
چند برس قبل میرے ہمسائے اور محترم دوست میجر ریٹائرڈ رفیق حسرت نے مجھے بتایا کہ وہ لاہور کے نواحی علاقے میں کچھ احباب اور اداروں سے مل کر بچوں کے لیے ایک مثالی ہوسٹل نما تعلیمی ادارہ بنا رہے ہیں جہاں سارے صوبوں سے تیس تیس منتخب غریب اور لائق طلبہ کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔ ان کے تمام تر رہائش اور تعلیم کے اخراجات ادارے کے ذمہ ہوں گے جو ان کی مزید اعلیٰ تعلیم کا بندوبست بھی کرے گا مگر اس کا اصل مقصد نوجوان نسل میں رنگ، نسل، عقیدے اور علاقے کی پہچان سے اوپر اٹھ کر سب کو ایک پاکستان کے شہری بنانا ہے۔ اس کے لیے غزالی ایجوکیشن سسٹم کے تعاون سے دور دراز کے علاقوں سے بچوں کا انتخاب کیا گیا۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ اس برس 24 بچے میٹرک کے امتحان میں شامل ہوئے جن میں سے 22 نے اے پلس اور 2 نے اے گریڈ کے ساتھ میں کامیابی حاصل کی ہے اور یوں 13 اگست کی شام ان کی اس کامیابی کا رشتہ یوم آزادی سے جوڑنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک خصوصی تقریب بھی منعقد کی جائے گی جس کا ایک ایک لمحہ پاکستان کے نام ہوگا۔ میری ذاتی رائے میں اس طرح کی سوچ کی ہر ممکن حوصلہ افزائی اور سرپرستی واجب ہے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔