افغانستان اور پاکستان کے سرحدی محافظوں کی گولہ باری افغان حکام

افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ان کی ایک سرحدی چوکی پاکستان سے...


AFP August 14, 2012
کہ پاکستانی فوج صرف عسکریت پسندوں سے ہونے والے حملوں کا جواب دیتی ہیں۔ فوٹو: آئی ایس پی آر

KARACHI:

افغان حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کہ ان کے ایک سرحدی چوکی پاکستان سے گولہ باری کی زد میں آئی، اس جھڑپ کے بدلے میں افغانیوں نے فائرنگ کی جو دو گھنٹے سے زائد تک جاری رہی۔


اس واقع میں کوئی بھی ہلاکتیں نہیں ہوئی ہیں، کابل نے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز نے افغانستان پر حالیہ مہینوں میں فائرنگ کی سینکڑوں راؤنڈ کی ہے، یہ ہمسایہ ممالک کےساتھ طویل سرحدی کشیدگی کو بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔


پاکستانی حکام فوری طور پر تبصرے کے لئے موجود نہیں تھے، لیکن اسلام آباد نے ایسے ہی الزم کو پچھلے دنوں یہ کہہ کےمسترد کیا تھا کہ پاکستانی فوج صرف عسکریت پسندوں سے ہونے والے حملوں کا جواب دیتی ہیں۔


افغانستان اور پاکستان عام طور پر طالبان عسکریت پسندوں کا سرحد ( ڈیورنڈ لائن) کے دونوں اطراف پر تشدد کے لئے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھراتیں ہیں۔


افغانستان کی وزارت داخلہ نے کہا کہ افغان سرحد کی پولیس اور پاکستانی سیکورٹی فورسز نے مشرقی صوبہ کنار ضلع ڈنگم میں دونوں ممالک درمیانی فرنٹ لائن سے ایک دوسرے پرتوپ سے گولہ باری کی لیکن کوئی ہلاکتیں نہیں ہوئی۔


وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب نکاد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''ہماری ایک سرحدی چوکی آج صبح سرحد پار سے کی گئی گولہ باری کی نذر ہو گئی، ہماری سرحد کے پولیس نے جوابی کاروائی کی جوتقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا۔''


اس نے مزید کہا کہ نہ ہماری طرف کوئی زخمی ہوا ہےاور نہ ہی سرحد پار سے ہلاکتوں کی خبر آئی ہے۔''


انھوں نے کہا کہ پاکستانی اہلکاروں نےعنقریب 50 فائرنگ کی راونڈ کی، 20 توپ کی اور 27 راونڈ گد مالہ کی شیلنگ کی۔


افغانستان پارلیمنٹ نے اس ماہ کےشروع میں مبینہ طور پر سیکورٹی کی ناکامی پر ملک کے دفاع اور داخلہ کے وزراء کو مسترد کر دیا جس میں افغان سرزمین پاکستان پر گولہ باری کرنے والے بھی شامل ہیں۔


کابل نے خبردار کیا ہے کہ اس کھینچا تانی سے پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کو نمایاں نقصان پہنچ سکتا ہے،کابل کے خبردار کرنے کے بعد نیٹو فوجی اہلکار نے افغانستان میں گزشتہ ماہ پاکستان سے سرحد پار گولہ باری کی مذمت کی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں