معاشرتی بے حسی سفاک قاتل نے سرعام خاتون کو موت کے گھاٹ اتار دیا

خواہش پوری نہ ہونے پر حواس کھو بیٹھنے والا قاتل خنجر کے وار کرتا چلا گیا اور راہگیر تماشہ دیکھتے رہے

خواہش پوری نہ ہونے پر حواس کھو بیٹھنے والا قاتل خنجر کے وار کرتا چلا گیا اور راہگیر تماشہ دیکھتے رہے۔ فوٹو: فائل

حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی بے حسی کا شکار ہو گئی۔

سفاک قاتل خاتون کو سرعام سڑک پر گھسیٹنے کے بعد خنجروں کے پے در پے وار کرکے فرار ہوگیا، لیکن افسوس! موقع پر موجود تمام افراد اپنی آنکھوں سے قتل کی یہ سنگین واردات دیکھتے رہے۔ کسی شخص نے قاتل کو روکنے کی کوشش کی نہ مرتی خاتون کے منہ میں دو بوند پانی ٹپکایا اور سب کی آنکھوں کے سامنے خاتون نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔

جناح پارک گلی نمبر 5 کی رہائشی شمیم بی بی سابقہ شوہر سے طلاق لے کر اپنی ضعیف والدہ اور بھائیوں کے ساتھ دس سالوں سے رہ رہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا خواب آنکھوں میں سجائے اپنا پیٹ پالنے کیلئے اس نے شیخ زید ہسپتال رحیم یارخان میں مڈ وائف کی ملازمت کر رکھی تھی۔

دوسری طرف محلہ آرائیں خان پور کے رہائشی ملزم منیر احمد ولد عبداللہ جو اس کا ماموں زاد بھی تھا، کا اس کے گھر آنا جانا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ منیر کا اپنی بیوہ پھوپھو سے ملاقات اور شمیم بی بی سے بات چیت کے بہانے آنا جانا بڑھ گیا، دلچسپی بڑھی تو ایک دن اس نے شمیم بی بی سے شادی کا اظہار کردیا جس پر اس کی پھوپھو اور شمیم بی بی کے بھائی مختیار احمد نے سوچنے کیلئے وقت مانگ لیا اور یوں شادی کے لئے بات چل نکلی۔

اس دوران منیر احمد اپنی خالہ زاد شمیم بی بی کو کبھی کبھار ہسپتال چھوڑنے اور لے جانے لگا، جس کے لئے وہ شمیم بی بی کے بھائی بلال احمد کا موٹر سائیکل بھی استعمال کرتا تھا۔ شمیم بی بی سے ملاقات اور شادی کی لگن میں منیر نے رحیم یارخان کے علاقہ گلشن اقبال کے رہائشی شخص کے ہاں ملازمت بھی کرلی تھی۔

ملزم ڈرائیور تھا اور اس کے مالکان دبئی میں رہتے ہیں، جو چھٹیوں میں ہی پاکستان آیا کرتے تھے، اس دوران ملزم ان کے گھر کی دیکھ بھال اور دیگر امور سرانجام دیتا تھا۔ شادی کی بات چلی تو ملزم نے شمیم بی بی کے بڑے بھائیوں سے شادی کی جلد تاریخ دینے کا اصرار کیا، بعدازاں ملزم نے گھر بسانے کے لئے شمیم کے بھائی بلال احمد سے پلاٹ کی خریداری اور مکان کی تیاری کے لئے چار، پانچ لاکھ روپے بھی لئے۔

9 اور 10 جولائی کی شب شمیم بی بی شیخ زید ہسپتال میں 8 بجے اپنی ڈیوٹی ختم کرکے قریبی وارڈ میں چلی گئی، جہاں اس کی بھتیجی مختیار احمد کی بیٹی زیر علاج تھی، جہاں اس نے بچی کی خیریت دریافت کرتے ہوئے کچھ دیگر کام نمٹائے۔


اس دوران ملزم منیر احمد موٹر سائیکل پر شیخ زید ہسپتال پہنچا اور شمیم بی بی کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھر لے جانے کی بجائے گلشن اقبال میں لے گیا، جہاں اس نے شمیم کو ایک خالی کوٹھی کے اندر لے جانے کی کوشش کی مگر شمیم بی بی نے اس کی نیت میں فتور کو بھانپتے ہوئے اندر جانے سے انکار کردیا اور موٹر سائیکل سے اتر کر بھاگ پڑی، مگر ملزم نے نہ صرف اسے بھاگتے ہوئے دبوچ لیا بلکہ گھسیٹتے ہوئے کوٹھی کے اندر لے جانے کی دوسری مرتبہ کوشش میں ناکامی پر ہاتھ میں چھری نکال کر شمیم بی بی پر وار کرنا چاہا تو اسی وقت وہاں اچانک دو تین موٹر سائیکل اور سائیکل سواروں کا گزر ہوا، شمیم بی بی نے ان کی پناہ اور مدد لینے کی کوشش کی مگر معاشرتی بے حسی کا گھنائونا چہرہ اس وقت سامنے آیا جب راہگیروں نے قاتل کو پکڑنے یا شمیم بی بی کو بچانے کی معمولی سی بھی کوشش نہ کی۔

سفاک قاتل نے اپنی جنسی ہوس پوری نہ ہونے اور اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی خاتون کو خنجروں کے پے در پے وار کرکے لہولہان کردیا' شمیم بی بی اپنی جان بچانے کیلئے بھاگتی رہی مگر کوئی اسے بچانے نہ آیا' رہائشی علاقہ میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے معاشرے کی بے حسی اور مقتولہ کی بے بسی کو اس انداز میں بند کیا کہ وہ مردہ ضمیروں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔

ملزم باآسانی موقع سے فرار ہوگیا مگر ماں سے بھی 70 گنا زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرنے والے رب کو اپنی بندی شمیم بی بی کی بے بسی دیکھی نہ گئی ہوگی اور اس نے اسی وقت موت کے فرشتے کو سفاک قاتل کو اپنے انجام تک پہنچانے کیلئے روانہ کردیا ہوگا، تبھی تو ملزم کے فرار کے بعد تھانہ صدر پولیس اپنی کارروائی اور مقتولہ کے ورثاء اس کی تدفین میں مصروف تھے اور عزیز واقارب ان سے غمگساری کررہے تھے کہ اطلاع ملی کہ مقتولہ کی نماز جنازہ کے چار گھنٹے بعد ہی قاتل بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

افسوس ناک واقعہ کے بعد تھانہ صدر پولیس نے نعش کو تحویل میں لے کر اس کا پوسٹ مارٹم کروانے کے بعد ورثاء کے حوالے کر دی اور ڈی پی او رانا اطہر وحید کے حکم پر ملزم کی تلاش شروع کر دی۔ پولیس مختلف جگہوں پر ناکہ بندی کر کے سرچ آپریشن کررہی تھی کہ اچانک ملزم کا پولیس سے ٹاکرہ ہوگیا۔ ملزم اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ موٹر سائیکل پر جارہا تھا، جسے پہچان کر پولیس پارٹی نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو انہوں نے پولیس پر فائرنگ کردی اور کچا صادق آباد روڈ کی طرف فرار ہوگئے، جس پر پولیس پارٹی نے ملزم کا تعاقب شروع کردیا۔

اس دوران ڈی ایس پی صدر فیاض احمد اور ڈی ایس پی سٹی سرکل سید جمشید علی شاہ بھی مختلف تھانوں کی نفری کے ہمراہ پہلے سے موجود پولیس پارٹی کی مدد کو پہنچ گئے، ایک جگہ پر پہنچ کر پولیس اور ملزم میں دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں ملزم منیر احمد مارا گیا' یوں ایک بے گناہ کو قتل کرنے والا سفاک قاتل 24 گھنٹے میں نہ صرف اپنے انجام کو پہنچ گیا بلکہ اگلے 24 گھنٹوں میں وہ بھی منوں مٹی تلے جا سویا۔

علاوہ ازیں ڈی پی او رانا اطہر وحید اور ڈی ایس پی سید جمشید علی شاہ مقتولہ شمیم بی بی کے گھر گئے' اس کی والدہ اور اس کے بھائیوں مختیار احمد اور بلال احمد سے اظہار افسوس کرتے ہوئے انہیں ہرقسم کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔

قتل کیوں ہوا اور کیوں کیا گیا؟ ان سوالوں کے جوابات دینے والے اب اس دنیا میں نہیں ' قاتل اور مقتول دونوں جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں، جہاں دنیاوی قوانین کی کوئی گنجائش نہیں اور اب ان کا فیصلہ روز محشر ہو گا۔ دوسری طرف مرنے والوں کے رشتہ دار یقیناً دونوں کی مغفرت کیلئے دعاگو ہوں گے مگر قتل کی اس سنگین واردات میں معاشرتی سفاکیت کا وہ پہلو واضح ہوا ہے، جس کی وجہ سے مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ تباہی کی جانب جا رہا ہے۔ اس واقعہ میں بے حسی کے مظاہرے نے انسان کو شائد انسانیت کی معراج سے ہی گرا دیا ہے، لہذا بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہمیں اپنے رویوں کی اصلاح کرنا ہو گی۔

 
Load Next Story