جعلی ادویات کا میگا اسکینڈل کاغذات میں دبانے کی کوششیں

کمپنی کا گودام سیل ہوا تو دوسرے نام پر لائسنس حاصل کر لیا گیا، مقدمات کے باوجود ملزمان قانون کی گرفت سے باہر

کمپنی کا گودام سیل ہوا تو دوسرے نام پر لائسنس حاصل کر لیا گیا، مقدمات کے باوجود ملزمان قانون کی گرفت سے باہر۔ فوٹو: فائل

عصر حاضر میں امیر بننے کے لئے شارٹ کٹ کے رجحان میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، جس کیلئے بعض اوقات انسان تمام حدیں پار کر جاتا ہیں اور حتی کہ دوسروں کی جان سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتا، اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کرجاتا ہے، جس کی کوئی بھی معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔

ایک طرف انسان دھماکوں ، بندوقوں، خنجروں کا سہارا لے کر اپنے انتقام کی پیاس بجھاتا ہے تو دوسری طرف اس سے بھی بھیانک کردار ادا کرنیوالے کئی لوگ سماج سدھار کی چادر اوڑھے بے دریغ جعلی ادویات کا دھندہ کرکے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے سرعام کھیلتے ہوئے انہیں سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ جعلی ادویات کے دھندہ اور گروہ در گروہ کی گجرات اور ملحقہ اضلاع میں جڑیں اتنی مضبو طی سے پھیل چکی ہیں کہ ملوث افراد قانون کی پکڑ میں آنے کے بجائے ہمیشہ باآسانی بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

3سال قبل 2 نومبر 2015ء کو گجرات میں جعلی ادویات کا وسیع پیمانے پر دھندہ کرنے والے 7ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا۔ محکمہ صحت کے ایک افسراحسان الٰہی چیمہ نے رحمن شہید روڈ پر ایک کمپنی کے گودام میں چھاپہ مار کر بھاری مقدار میں ادویات سے بھرا گودام سیل کیا اور ڈرگ ایکٹ سمیت دیگر دفعات کے تحت بااثر ملزمان حاجی ناصر محمود ، کمپنی کے ڈسٹری بیوٹرز خواجہ شفاقت حفیظ گڈو ، خواجہ بدر حفیظ گڈو ، قدیر بٹ ، لاہور کے تین ڈسٹری بیوٹرز ظفر اقبال ، سلیم وغیرہ کے خلاف تھانہ سول لائن میں مقدمہ درج کر وایا، مگر ملزمان اتنے بااثر ہیں کہ کوئی بھی آفیسر تین سال بعد بھی آج تک اس مکروہ دھندے میں ملوث افرادکو قانون کی شکنجے میں نہیں لا سکا بلکہ الٹا انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا رہا، حالانکہ محکمانہ لیبارٹری رپورٹس بھی گودام سے پکڑی جانے والی ادویات کو جعلی، سب اسٹینڈراور انسانی صحت کے لئے مضر قرار دے چکی ہیں۔

ملزمان نے کمپنی کے گودام پر چھاپہ مارنے والے محکمہ صحت کے ڈرگ انسپکٹر اور کیس کے مدعی کو ضلع بدر کرواتے ہوئے اینٹی کرپشن سمیت مختلف محکموں میں اس کے خلاف ضلع کے 450 سے زائد میڈیکل سٹوروں سے رقوم بٹورنے کے کیس دائر کر دئیے، جنہیں وہ افسر تین سال تک لگاتار بھگت کر بالآخر سرخرو ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ سابق وزیراعلیٰ نے چھاپہ مارنے پر اسے شاباش بھی دی مگر اپنی ہی جماعت کا کارندہ سامنے آنے پر اسے ہٹا دیا۔

جعلی ادویات کا دھندہ کرنے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد ابتدائی مرحلے میں اس کی تحقیقات کی گئیں تو عیاں ہوا کہ مذکورہ کمپنی کے پاس 2008ء سے ادویات سپلائی کرنے کا لائسنس ہی نہیں تھا مگر وہ ای ڈی او ہیلتھ ، ڈی ایچ اوز اور ضلع کے عوامی نمائندے کے بل بوتے پر 8سال سے نہ صرف ضلع گجرات بلکہ گوجرانوالہ ڈویثرن کے سرکاری ہسپتال ، بنیادی مراکز صحت کو کروڑوں روپے مالیت کی جعلی ادویات اب تک فروخت کرتے آ رہے ہیں۔


گودام کی انسپکشن کے دوران وہاں سے جو دوائیں برآمد کی گئیں، ان کی وارنٹی جعلی نکلی'وہ کسی بااختیار دواساز فیکٹری سے نہیں بلکہ لوہاری کے بیوپاریوں سے خریدی گئی تھیں۔ گودام پر چھاپہ مارنے، اسے سیل کرنے اور ایف آئی آر کے اندراج پر ماضی کی حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈرگ مافیا ڈسٹری بیوٹرز کی حمایت میں ساری ضلعی انتظامیہ سکتے میں آگئی اور جس جس محکمہ نے ان جعلی ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا تھی، وہ خود ہی ڈرگ مافیا کے خریدار ہے۔

محکمانہ قواعد و ضوابط کے مطابق ادویات کی خریداری سے پہلے کمپنی کا لائسنس چیک کیاجاتا ہے مگر ملزمان محکمہ کے آفیسران اور انسانیت کا مسیحا کہلوانے والوں کے ساتھ مل کر انسانی زندگیوں سے کھیلتے رہے۔

گجرات میں جعلی ادویات کے اس میگا سکینڈل پر کسی ملزم کی گرفتاری اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہ ہونے پر ڈرگ کنٹرولر نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی عدالت میں اس وقت کے افسروں کے خلاف رٹ بھی دائر کی تو جسٹس صاحب نے اسے جعلی ادویات کا میگا اسکینڈل قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے اس پر لارجر بینچ بنانے کی درخواست کر دی، تاہم اسی دوران بااثر ملزمان نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس گودام کو ازخود ڈی سیل کر کے دوبارہ گھنائونا دھندہ شروع کر دیا توکمشنر گوجرانوالہ کی ہدایت پر ڈی سی گجرات کی مدعیت میں 27ڈرگ ایکٹ 1976ء کے تحت11جنوری 2016ء کو ملزمان کے خلاف دوسرا مقدمہ درج کر لیا گیا مگر دونوں مقدمات میں کوئی ملزم گرفت میں نہ آ سکا الٹا ملزمان نے ایک سال قبل دوبارہ اپنے ملازم کے نام پر نئی کمپنی کے لئے لائسنس حاصل کرنے کے لئے اپنے من پسند افسروں کی ضلع میں تعیناتی کروالی اور محکمانہ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ناممکن کو ممکن بناتے ہوئے نیا لائسنس کا اجراء کرواکر دوبارہ ضلع کے سرکاری ہسپتالوں میں انسانی جانوں سے کھیلنے کی کھلی چھٹی حاصل کر لی۔

میگا سکینڈل کے میڈیا کی زینت بننے پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی جانب سے بھی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی مگر اپنی ہی جماعت کے جعلی ڈگری پر نااہل ہونیوالے سابق ایم پی اے حاجی ناصر اور اس کے قریبی ساتھیوں کے مقدمہ میں نامزد ہونے کی وجہ سے افسروں کی کارروائی صرف کاغذوں تک ہی محدود رہی جبکہ چند ماہ قبل محکمہ صحت کے 6سابق ای ڈی اوز ڈاکٹر اعجاز حیدر ، ڈاکٹر الطاف ،ڈاکٹر نصر ت ریاض ،ڈاکٹر طاہر بشیر ،مدعی مقدمہ ڈرگ انسپکٹر حافظ آباد احسان الٰہی چیمہ ، رانا محمد اکرم ، محمد عاامر ، فیاض کے بیانات ریکارڈ کرنے کیلئے نیب کی ٹیم نے گجرات کا دورہ کیا تو ٹیم کی آمد سے ایک روز قبل ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر عزیز بھٹی شہید ہسپتال کے ادویات کے گودام میں پراسرار طور پر آگ لگنے کا ڈرامہ رچا دیا گیا، جس کی سابق ڈی سی محمد علی رندھاوا انکوائری بھی کرتے رہے مگر اس کی رپورٹ منظر عام پر لانے سے روک دیا گیا۔ معصوم لوگوں کے پاس اب امید کی آخری کرن چیف جسٹس آف پاکستان ہیں، دیکھنا اب یہ ہے کہ انسانی جان سے متعلق اس سکینڈل پر ان کی کب نظر پڑتی ہے۔

 
Load Next Story