شب ِ نُزول قرآن

قرآن حکیم دنیا کی واحد آسمانی کتاب ہے جس میں خطاب ساری کائنات سے.

’’جو شخص شب قدر میں عبادت کے لیے کھڑا رہا، اس کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔‘‘ (الحدیث) فوٹو فائل

یوںتو پورے رمضان المبارک میں ہر شب و روز رحمت خداوندی کا نزول ہوتا ہے، مگر ان مقدس راتوں میں اہم ترین رات شب قدر ہے جس کے متعلق خود اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:''بے شک! ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں اتارا ہے، آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں روح (امین) اور فرشتے اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں، شب قدر کی شب فجر ہونے تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔''

یوں تو آسمانی صحائف و کتب کا نزول قرآن سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے، مگر قرآن حکیم دنیا کی واحد آسمانی کتاب ہے جس میں خطاب ساری کائنات سے ہے۔

٭قرآن ایک معجزہ:
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں اپنے بندوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے اپنے پیغمبر بھیجے اور ان کی رسالت و نبوت کے لیے بطور دلائل ان کو معجزات عطا فرمائے، کوئی پیغمبر ایسا نہیں جسے معجزہ عطا نہ ہوا ہو، مگر حضور ﷺ کے معجزات کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان کا احاطہ انسانی طاقت سے خارج ہے۔ قرآن ایک معجزہ ہے، مگر اس کے اندر ہزارہا معجزے ہیں۔

حضور ﷺ سے پہلے دیگر انبیائے کرام نے اپنے اپنے زمانے میں معجزات دکھائے مگر ان معجزات کا وجود صرف ان کے حیات دنیاوی تک رہا، انہیں اس وقت کے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مثلاً عصائے موسیٰ کو صرف ان کی قوم نے دیکھا۔ حضرت صالح کی اونٹنی کو صرف ان کی قوم نے دیکھا، اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کا معجزہ بھی ان کے زمانے کے لوگوں نے دیکھا، مگر حضور ﷺ کی شریعت قیامت تک کے لیے ہے اور ہر زمانے میں ہر صاحب عقل اس کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ سکے گا۔ قرآن کریم ہر مکان و ہر زمان میں پڑھا جائے گا، لہٰذا یہ معجزہ قیامت تک ساتھ رہے گا انشاء اﷲ۔

٭افضل عبادت:
حضرت نعمانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:''میری امت کی سب سے بہتر عبادت قرآن کریم کی تلاوت ہے۔''
عبادت کی مختلف قسمیں ہیں، مگر تمام اقسام میں تلاوت قرآن کو افضل بتایا گیا ہے۔ جس نے قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کیا، اس نے تخلیق کا مقصد پورا کیا۔

٭اﷲ کے حضور رسائی:
اﷲ تعالیٰ کے حضور رسائی اور اس کے قرب کا بہترین ذریعہ اس کا کلام ہے اور تمام عبادات و اطاعت کا مقصد قرب الٰہی اور اس کی رضا و خوش نودی ہے اور یہ سب قرآن سے شغف، اس سے غیر معمولی دل چسپی اور اس کے احکام پر عمل کرنے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو حضور ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:''اے لوگو! تم پر ایک نہایت عظمتوں اور برکتوں والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے، اس مبارک مہینے کی ایک رات لیلۃ القدر، ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ تم اس عظیم اور مقدس رات میں اﷲ رب العزت سے اپنے گناہوں کی توبہ کرو اور اس سے اپنی مغفرت اور بخشش طلب کرو۔''


حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''اس مبارک رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو، کیوں کہ اس رات کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل ہے۔''

ابن ابی عباسؓ و ابیؓ ابن کعب فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان کی ستائیسویں رات کو شب قدر ہوتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام احمد بن خلیل ابن عمر سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ وہ آخری رمضان کی دس راتوں میں اپنے خواب حضور ﷺ کی خدمت میں بیان کرتے تھے۔ چناں چہ آپؐ نے ایک بار ارشاد فرمایا کہ تمہیں یہ خواب کہ ستائیسویں شب لیلۃ القدر ہے تواتر سے دکھائی دیتے ہیں تو میں نے اس امر پر غور کیا کہ واقعی سات کا عدد بہت سی جگہ مشترک اور اہمیت کا حامل نظر آتا ہے، کیوں کہ آسمان بھی سات ہیں، کرۂ ارض بھی سات ہی ہیں، کرۂ ارض کے طبقات بھی سات ہی ہیں۔

ہفتہ میں سات دن اور سات راتیں ہیں۔ صفا و مروہ میں بھی سات بار دوڑنے کا حکم ہے، کعبہ کا طواف بھی سات بار کیا جاتا ہے اور شیطان کو بھی سات کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ سورۃ الفاتحہ کی آیات بھی سات ہی ہیں، دوزخ کے طبقات بھی سات اور اس کے دروازے بھی سات ہی ہیں۔ اصحاب کہف کی تعداد بھی سات پر مشتمل ہے۔ حضرت یوسفؑ سات سال قید میں رہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ حج کے بعد سات روزے رکھو۔ ان تمام حوالہ جات سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ لیلۃ القدر بھی ستائیسویں شب میں ہی ہوتی ہے۔

اس رات کی فضیلت اور عظمت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی قدر و منزلت قرآن حکیم کی ایک الگ سورت میں بیان کی گئی ہے۔ پھر اسی مبارک رات میں قرآن کریم کا نزول ہوا جو تمام علوم کا سرچشمہ، مخزن حکمت اور آخری صحیفۂ آسمانی ہے اور اس کو نازل کرنے والی وہ ذات عظیم ہے جو وحدہ لاشریک ہے، جس کا کوئی شریک اور کوئی ساتھی نہیں، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پھر جس ہستی پر اس کا نزول ہوا، وہ افضل الانبیاء اور خالق کائنات کا محبوبﷺ ہے۔ جس شہر میں نازل ہوا، وہ شہر دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ مقدس ہے۔ جس قوم پر اتارا گیا، وہ قوم عظیم ہی نہیں بلکہ قیامت تک رہنے والی ہے۔

غار حرا میں جب قرآن کریم کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ لیلۃ القدر تھی اور جس رات آخری وحی نازل ہوئی، وہ بھی شب قدر کی رات تھی۔ لہٰذا پروردگار نے اس رات کو وہ فضیلت اور برتری عطا کی کہ اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ اس رات کے افضل اور برتر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس رات کی عبادت کا اجر و ثواب دوسری راتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ چوں کہ قرآن کریم کا نزول شب قدر میں ہوا ہے، اس لیے تلاوت قرآن کریم اس رات میں خصوصی درجہ رکھتی ہے۔ نوافل، استغفار اور درود شریف کی کثرت سبھی عبادت میں شامل ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جو شخص شب قدر میں عبادت کے لیے کھڑا رہا، اس کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔''

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا ذکر ہوا جس نے ہزار ماہ راہ خدا میں اپنے کندھے پر ہتھیار اٹھائے رکھے۔ اس پر حضور ﷺ کو تعجب ہوا۔ آپؐ نے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی امت کے لیے بھی ایسی نیکی کی تمنا فرمائی تو اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو شب قدر سے نوازا جو ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا:''جس نے لیلۃ القدر کو شب بیداری کی اور اس رات میں دو رکعت نماز پڑھی اور اﷲ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کی تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرمائے گا، اس نے گویا اﷲ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگالیا، حضرت جبرئیلؑ اس کو اپنا پر لگائیں گے، وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا انشاء اﷲ۔''

٭نجات کا سامان:
قرآن کریم بے شک نجات کا ذریعہ ہے، نفع بخش علاج ہے، آخرت میں بچائو کا سامان ہے، نور ہدایت ہے۔ جس نے اس کی پیروی کی، اس کے لیے نجات ہے۔ یہ تمام مصائب و مشکلات سے نجات کی ضمانت ہے۔ قرآن سے شغف اور پوری وابستگی ان سب الجھنوں سے بچائے گی جن میں آج ساری دنیا گرفتار ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس رات کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
Load Next Story