نئی حکومت کا داخلی و خارجی امتحان
ملک کی معاشی صورت حال جن حالات سے گزر رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرض کی اپیل کی گئی تھی۔
جیت سے قبل الیکشن کے دوران عوام کے ذہنوں میں نئی حکومت کی قبولیت کے لیے وہ تمام آزمودہ ٹوٹکے ایک دفعہ پھر آزمائے گئے جو لگ بھگ پون صدی سے آزمائے جاتے رہے مگر ان ٹوٹکوں میں نے نہ تو پہلے جیسے اثرات دکھائی دیے اور نہ ہی انھیں تجویز کرنے والے مستند حکیموں کو اس عزت سے نوازا گیا جس کی توقع لیے وہ اپنے اپنے مطب میں تشریف فرما ہیں۔
ماضی میں ہونے والے ایک کے علاوہ تقریباً ہر الیکشن پر دھاندلی کے الزامات عائد ہوتے رہے مگر موجودہ الیکشن اپنے انعقاد سے قبل ہی دھاندلی کے نرغے میں آگیا تھا۔ ایک دن کے بجائے کئی دنوں پر محیط اس الیکشن کو اب دو ہفتے ہو چکے ہیں لیکن اس سے پیدا ہونے والا سیاسی تنازعہ ابتدائی دن کی طرح برقرار دکھائی دیتا ہے، جس کے پیش نظر اقتدار سنبھالنے سے قبل حزب اختلاف نے آنے والی حکومت کے ساتھ جس سلوک کی ابتدا کر دی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے جو پچھلی حکومت کے ساتھ ایک سال گزرنے کے بعد کیا گیا تھا۔
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے تو حزب اختلاف پر تنقید کرتے ہوئے یہ شکوہ کر دیا کہ ہم نے تو ایک سال بعد احتجاج شروع کیا تھا مگر موجودہ حزب اختلاف حکومت کی تشکیل سے قبل ہی میدان میں آگئی ہے لیکن ان کے الفاظ میں وہ گھن گرج نہیں تھی جو دھرنے کے دوران کی جانے والی تقریر وںمیں سنائی دیتی تھی، البتہ اس کو ایسی معصومانہ التجا ضرور کہا جا سکتا ہے جس میں یہ پیغام پوشیدہ ہو کہ ''بھائی ہمیں کم از کم ایک سال تو پورا کر لینے دو۔''
سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں دھرنوں کے دوران حکومت کو داخلی اور خارجی سطح پر جس طرح بے دست و پا کیا گیا اس کی نہ تو کوئی مضبوط سیاسی توجیہہ بیان کی جا سکتی ہے اور نہ ہی موجودہ حزب اختلاف سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ طفل تسلیوں میں آکر وہ دن بھول جائے گی جب اسلام آباد کے مضافات سے نوجوانوں کو ٹرکوں میں بھر بھر کر اسلام آباد کی سڑکوں پر جمع کرنے کے بعد بے بس شہریوں کو دفتروں، اسپتالوں اور روزگار کے مقامات پر پہنچنے سے زبردستی روکا گیا، پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا اور پی ٹی وی کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
موجودہ حزب اختلاف احتجاج کرتے ہوئے شاید اس سطح پر نہ جائے مگر ایسا ہوتا بھی ہے تو نئی حکومت کے پاس تنقید کا کوئی جواز اس لیے نہیں کہ ملک میں دھرنوں کے ذریعے اس نرالے احتجاج کا کلچر خود پی ٹی آئی نے ہی متعارف کروایا تھا۔
موجودہ حزب اختلاف نے اگر پی ٹی آئی جیسے دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو اس میں مولانا طاہرالقادری کی کمی بھی محسوس کی جائے گی، جنھوں نے اپنے خطاب کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو گرما کر عمران خان کو کمک پہنچائی تھی مگر حزب اختلاف میں متحدہ مجلس عمل، جے آئی ٹی اور جماعت اسلامی جیسی اہم مذہبی جماعتوں کی موجودگی کے باوجود اگر ماضی جیسے دھرنے کی ضرورت پڑہی جاتی ہے تو اس میں تحریک لبیک مولانا طاہر القادری کا نعم البدل ضرور ثابت ہوسکتی ہے جس نے کسی اتحاد میں شامل ہوئے بغیر دو دن قبل کراچی سے دھاندلی کے خلاف احتجاجی سلسلہ شروع کردیا تھا۔
داخلی محاذ پر حزب اختلاف کی مزاحمت کے ساتھ حکومت کو بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور ملک کی روایتی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی کے ساتھ آزادانہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی فیصلے بھی کرنے ہوں گے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس خطے میں امریکی ترجیحات تبدیل ضرور ہوئی ہیں مگر امریکا نے افغانستان میں اپنی موجودگی کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ بھارت کے ساتھ اقتصادی اور دفاعی معاہدوں میں سرعت کے ساتھ اضافہ بھی کیا ہے۔
امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں نہ پہلے جیسی سرگرمی ہے اور نہ ہی وہ نام نہاد اعتبار باقی ہے جو آزادی کے فوراً بعد دونوں ممالک ایک دوسرے پر کرتے چلے آرہے تھے۔ بدلتی ہوئی صورت حال کے دوران 2016 میں پاک روس تعلقات میں بہتری کے نئے دور کا آغاز ہوا جو مشترکہ فوجی مشقوں اور دوسرے معاہدوں کے بعد آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ کچھ دن قبل مضبوط تجارتی اور فوجی تعاون کے معاہدوں کے بعد اس قربت میں اضافہ بھی ہوا اور ثقافتی تعلقات کے ساتھ دونوں ملکوںنے انفرادی عوامی رابطے پر بھی بات کی۔ اس کے باوجود سفارتی سطح پر امریکا سے تعلقات کو یکسر ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر کسی ردعمل کا اظہار کرنا مناسب ہوگا۔
ہاں خطے کے دوسرے ممالک کی طرح بھارت سے بہتر تعلقات کو ترجیح دے کر ہی آنے والی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے، جس کا عندیہ اقتدار میں آنے سے قبل نئے وزیراعظم اپنی تقریر میں دے چکے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے سے قبل عمران خان سے ایران، امریکا اور روس کے سفیروں نے ملاقات کی جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ممالک مستقبل میں پاکستان سے بہتر اور مضبوط تعلقات کے خواہاں ہیں۔
الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت کے بعد بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے ممکنہ وزیراعظم کو ٹیلی فون کیا تھا جس کے بعد بھارتی سفیر نے بھی ان سے ملاقات کی تھی، جس سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی منجمد برف پگھلنے کے امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں اور حلف برداری کی تقریب میں بھارتی کرکٹ کے اہم کھلاڑیوں کی شمولیت سے مستقبل میں دونوں ممالک کے عوام کی آمد ورفت پر لگی پابندیوں اور ویزے میں نرمی کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں، لیکن کشمیر کا مسئلہ اور اس میں بڑھتا ہوا تشدد ان تمام باتوں کے باوجود اپنی جگہ برقرار ہے جس پر بات چیت کی راہ ہموار کرنا بھی نئی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوسکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے علاوہ ایران، ترکی، افغانستان اور سعودی عرب کے ساتھ تجارت اور بہتر تعلقات میں توازن رکھنا بھی خارجہ پالیسی کے ماہرین کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔
ملک کی معاشی صورت حال جن حالات سے گزر رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرض کی اپیل کی گئی تھی، مگر امریکا نے ان قرضوں پر اعتراض کیا جس کے بعد چین اور سعودی عرب سے فوری قرضے کی امید باندھی گئی مگر یہ قرضے ملنے کے بعد بھی ہماری معاشی صورت حال تب تک درست نہیں ہوسکتی جب تک برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت دوبارہ اپنی سطح پر واپس نہیں آتی۔