عمران خان اور ’’فیمینزم‘‘

ہمارے پارلیمانی نظام میں یہ اتنا آسان نہیں، اس نظام میں بڑی بڑی مذہبی جماعتیں اپنے نظریات پر ’’سمجھوتہ‘‘ کرچکی ہیں۔


Dr Naveed Iqbal Ansari August 13, 2018
[email protected]

حال ہی میں ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے ''نیا پاکستان خواتین کے لیے کیسا ہوگا؟'' کے عنوان سے پاکستانی خواتین کی آرا نشر کیں۔ ان خواتین نے عمران خان کی بننے والی حکومت میں خواتین کے مسائل حل ہونے سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان خواتین میں سے ایک کا کہنا تھا کہ پچاس فیصد خواتین کو اسمبلی میں لانا چاہیے اور خواتین میں تعلیم کی شرح بڑھانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

ایک دوسری خاتون کا کہنا تھا کہ خواتین کے ساتھ مساوات ہوگی تو معاملات درست ہوں گے، ایک اور خاتون کا کہنا تھا کہ ملک میں خواتین کے حقوق اور انھیں 'بااختیار' بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کے کروڑوں عوام تو وہی ہیں، ایک عمران کے آنے سے تبدیلی کی زیادہ توقع نہیں ہے۔

اس خبر میں عمران خان کے ایک انٹرویو کا کچھ حصہ بھی شامل ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ مغرب کے ''فیمینزم'' کے تصور کو قطعی رد کرتے ہیں، اس تحریک نے ماں کے کردار کو ختم کردیا ہے۔ عمران خان کی جماعت کوئی مذہبی جماعت نہیں ہے، عام طور پر اسے لبرل یا روشن خیال جماعت ہی سمجھا جاتا ہے، چنانچہ ایک ایسی جماعت کے سربراہ کا یہ موقف بڑا عجیب سا محسوس ہوتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی قدامت پسند جماعت کے رہنما ہوں یا پہلے کبھی کسی مذہبی جماعت سے وابستہ رہے ہوں، حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے، بات بالکل سیدھی سی ہے کہ انھوں نے اپنی جوانی کا بہت سا وقت کرکٹ کھیلتے ہوئے پاکستان سے باہر گزارا ہے اور مغربی معاشرے کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک مغربی خاتون کو اپنا شریک حیات بنا کر خود مغربی معاشرے کا کسی حد تک حصہ بن کر بھی تجربہ حاصل کیا ہے، لہٰذا اب ان کے خواتین سے متعلق خیالات میں مشاہدات ہی نہیں تجربات بھی شامل ہیں۔ لہٰذا راقم کے خیال میں یہ بات خوش آیند ہے کہ اس ملک کے ہونے والے نئے وزیراعظم کی سوچ ''فیمینزم'' کے حوالے سے بہت حد تک حقیقی ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ ''فیمینزم'' کیا ہے؟ آسان لفظوں میں ''فیمینزم'' سے مراد ایک عورت کو گھر سے باہر کے معاملات میں مرد کی طرح حصہ لینے کے مواقع ملنے کا نام ہے، مثلاً گھر سے باہر شوہر کی طرح خود بھی ملازمت کرنے کا حق۔ بہرحال خود مغرب میں جب اس تحریک کے نقصانات سامنے آئے تو پھر نئے رجحانا ت کے تحت اب ''فیمینزم'' مخالف نظریات سامنے آگئے ہیں، اور یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ ایک عورت آزادی اور مساوات کے نام پر گھر سے باہر نکلتی ہے، دن بھر ملازمت کرتی ہے اور جب تھک ہار کر گھر آتی ہے تو پھر اس کو بچے کی پرورش اور گھر کے کام کاج بھی کرنے پڑتے ہیں، جب کہ اس تحریک سے قبل وہ صرف گھر کے کام اور اپنے بچوں کی پرورش کی ذمے داریاں سنبھالتی تھی۔

دوسری طرف مرد کو اس تحریک سے فائدہ پہنچا، کیونکہ پہلے اس کو پورے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اکیلے ہی ملازمت یا مزدوری کرنا پڑتی تھی، ''فیمینزم'' کی تحریک سے مردوں کے ساتھ عورت بھی کمانے آگئی، یوں ایک شوہر یعنی مرد کو 'کمانے' کے ضمن میں ایک سہارا مل گیا۔ یوں مغرب میں اس تحریک کو خواتین کے حقوق کے خلاف سمجھنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایک عورت پر مرد کے مقابلے میں دہری ذمے داری کیوں؟

اس ''فیمینزم'' کی تحریک سے جو سب سے بڑا نقصان پہنچا وہ ایک ماں کا کردار تھا، کیونکہ گھر سے باہر وقت گزارنے یعنی مردوں کی برابری کرنے کے لیے مردوں کی طرح ملازمت وغیرہ کے لیے جب گھر سے باہر خواتین نے وقت دینا شروع کیا تو وہ وقت جو ایک ماں اپنے بچوں کو دیتی تھی، مغربی ماں اپنے بچوں کو نہیں دے سکتی تھی، لہٰذا ماں کا روایتی کردار ختم ہوکر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے کہا کہ ''فیمینزم'' نے ماں کے کردار کو مسترد یا ختم کردیا ہے اور وہ اس کے بالکل خلاف ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے عمران خان کا یہ کتنا پرانا انٹرویو نشر کیا ہے اور یہ کہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی یہی سوچ رکھتے ہیں یا کہ بیرونی دبائو کے آگے اپنی سوچ کے برعکس پروگرام لاتے ہیں، لیکن ان کی یہ سوچ حقیقت کے قریب تر ہے اور انھیں اس پرقائم رہنا چاہیے۔ گو کہ ہمارے پارلیمانی نظام میں یہ اتنا آسان نہیں، اس نظام میں بڑی بڑی مذہبی جماعتیں اپنے نظریات پر ''سمجھوتہ'' کرچکی ہیں، خاص کر قانون سازی کے وقت۔

واضح رہے کہ اس ضمن میں بات صرف مذہبی یا لبرل سوچ کی نہیں بلکہ زمینی حقائق کی ہے اور زمینی حقائق یہی ہیں کہ مغرب میں اس تجربے کے معاشرتی اعتبار سے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں اور آج وہاں خود اس پر تنقید شروع ہوچکی ہے۔

دوسری زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ مغربی نہیں مشرقی ہے اور اس قسم کے تجربات کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا۔ مثلاً یہ کہ مغرب میں جب خواتین بھی گھروں سے باہر نکلیں تو پھر بچوں کی دیکھ بھال کے لیے 'ڈے کیئر سینٹر' اور بزرگ ماں باپ کے لیے 'اولڈ ہائوسز' کا کلچر شروع ہوا، کیونکہ جب مرد بھی گھر سے باہر اور عورت بھی گھر سے باہر ملازمت وغیرہ کے لیے وقت گزارنے لگے تو لامحالہ انھیں اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کے لیے صبح سے شام تک ڈے کیئر سینٹر کی ضرورت پڑی اور بوڑھے ماں باپ کی دیکھ بھال اور دوا وغیرہ دینے کی ذمے داری ادا کرنے کے لیے انھیں اولڈ ہائوسز میں داخل کرانا پڑا۔

جب کہ ہمارے ہاں یہ کلچر نہیں ہے، کیونکہ ہم اپنے ان ماں باپ کو کسی ایدھی ہوم میں ڈالنے کا تصور نہیں رکھتے کہ جنھوں نے راتوں کو جاگ جاگ کر ہماری پرورش کی ہو، خود گیلے میں سوئے اور ہمیں سوکھے میں سکوں سے سلایا، خود بھوکے رہے، روکھی سوکھی کھائی اور ہمارے لیے اچھے سے اچھا کھانا رکھا۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی لوگ اپنے بزرگ والدین کو اپنے ہی ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، ان کی خدمت کرکے جنت کمانا چاہتے ہیں اور ہمارے بزرگ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیل کر ان کی پرورش کرنا چاہتے ہیں، اب اگر گھر کے مرد اور خواتین سب صبح سے شام مغرب کی طرح باہر وقت گزاریں گے تو پھر ہمیں بھی اپنے بچوں اور بزرگوں کو کسی سینٹر میں بھیجنا پڑے گا، جو ظاہر ہے کہ ہمارے مشرقی کلچر کا حصہ قطعی نہیں ہے۔

ہمارا کلچر تو یہ ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے باہر والدین اپنی بچیوں کو لینے کے لیے چھٹی کا انتظار کرتے ہیں یا پھر وین لگا کر دیتے ہیں۔ غور کریں کل اگر سب کو آزاد چھوڑ دیا تو کیا ہوگا؟ آئیے غور کریں اور مغرب کے تجربات سے کوئی سبق سیکھیں۔ ہماری دعا ہے کہ عمران خان اپنے نظریات پر قائم و دائم رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔