دیکھ لیتے ہیں
یہ غریب اور متوسط درجے کے لوگ ہی ہیں جن کا وطن صرف پاکستان ہے جن کا مرنا جینا پاکستان کے ساتھ ہے ’’اونچوں‘‘ کا کیا ہے۔
لاہور:
تبدیلی کی ایک جھلک تین روز پہلے دیکھنے کو ملی۔ میں اب عرصہ ہوا رکشوں میں ہی سفر کرتا ہوں، میرے تینوں بیٹوں کے پاس اپنی اپنی گاڑی ہے، وہ اپنے دفتروں کو چلے جاتے ہیں، میرے گھر کے چوراہے پر رکشے والے کھڑے ہوتے ہیں، سبھی مجھے جانتے ہیں، میں انھی کے ساتھ آتا جاتا ہوں۔ تین روز پہلے میں رکشے میں اپنے بینک گیا۔ واپسی میں آرٹس کونسل کراچی رکا، رکشے والا باہر کھڑا رہا۔
دس منٹ بعد رکشے والا مجھے لے کر گھر کی جانب چلا۔ آرٹس کونسل کراچی کے فوارہ چوک پر سفید وردی والے ٹریفک پولیس سپاہی نے رکشے والے کو روک لیا۔ کچھ فاصلے پر کھڑا ایک پھول والا اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھی آگیا، اس نے رکشے والے سے لائسنس طلب کیا۔ رکشے والا بولا ''خدا کی قسم میرے پاس لائسنس ہے، مگر آج میں گھر بھول آیا ہوں'' میں نے حسب عادت پولیس انسپکٹر سے پوچھا ''آپ اس سے لائسنس کیوں طلب کررہے ہیں'' میں نے مزید کہا ''میں صحافی ہوں اور آرٹس کونسل کا ممبر ہوں اور یہ میرا ڈرائیور ہے''۔
''مجھے اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے''۔ پھر انسپکٹر نے مجھے یہ بھی کہا میں جانتا ہوں آپ کے اندر کیا چل رہا ہے کہ اس رکشے والے نے سگنل نہیں توڑا، ون وے کی خلاف ورزی نہیں کی، میں تو صرف لائسنس دیکھنا چاہتا ہوں اور جب پولیس انسپکٹر نے مجھے کہا دیکھیں جناب! آپ کارِ سرکار میں مداخلت کررہے ہیں۔ تو سچی بات ہے میں یہ سن کر بہت خوش ہوا، اور میں نے رکشے والے سے کہا ''دکھائو بھئی اپنا لائسنس'' رکشے والا پھر شروع ہوگیا۔ یقین کرو، انسپکٹر صاحب لائسنس گھر میں رہ گیا ہے۔ انسپکٹر نے رکشے والے سے کہا کپڑے پہن کر گھر سے نکلا ہے، کپڑے بھی نہ پہنتا اور ننگا ہی نکل آتا۔ یہ کہہ کر انسپکٹر پولیس نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا ''چل جا''۔
میں انسپکٹر پولیس کی اس بات پر خوش ہوا تھا جو اس نے بڑے رعب کے ساتھ مجھے کہی تھی۔ دیکھیں جناب آپ کار سرکار میں مداخلت کررہے ہیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ میرا انسپکٹر پولیس سے مزید کچھ کہنا خطرناک ہوسکتا تھا اور پولیس انسپکٹر کی وارننگ کے بعد بھی میں اپنی حیثیت کا مزید اظہار کرتا تو پولیس انسپکٹر وائرلیس سیٹ پر دو تین پولیس والے بلوا کر ہم دونوں یعنی رکشے والے اور مجھے پولیس چوکی لے جاتا، ہمیں حوالات میں بند کرتا اور علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرکے جیل بھجوادیتا۔ میں اس واقعے سے پہلے بھی اپنا صحافی ہونا بتاکر غریب رکشے والوں کو بچالیا کرتا تھا اور پولیس والے مجھے سلیوٹ مار کر رکشے والے کو چھوڑ دیتے تھے۔ مگر اب شاید واقعی تبدیلی آگئی ہے۔
چلو بہت اچھا ہے، میرے جیسے بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں، کوئی صحافی، کوئی وکیل، کوئی فلم ٹی وی، اداکار، کوئی کھلاڑی، اب کسی کی حیثیت کام نہیں آئے گی۔ ہم تک ہی اگر یہ تبدیلی آگئی ہے تو خدا کرے پولیس والوں کی یہ جرأت کالے شیشوں والی گاڑیوں تک بھی پہنچ جائے اور یہ بلا خوف و خطر کار سرکار پر عمل درآمد کرتے نظر آئیں۔ غریب بے چارہ تو غربت کی چکی میں پستا ہی رہا ہے۔ سارے قانون اور ان کا اطلاق غریبوں ہی پر واجب نہیں۔ دولت مندوں کے لیے کوئی آئین، کوئی قانون نہیں ہے۔ جنرل ضیا الحق نے کہاتھا ''یہ آئین کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، کاغذوں کا چیتھڑا'' صحیح کہا تھا جنرل صاحب نے۔
14 اگست آنے والی ہے، پچھلے عشرے سے پورے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں، گائوں، دیہاتوں کے بازاروں میں جشن آزادی منانے کے لیے پاکستانی پرچم کاغذ کی جھنڈیا، بیجز، سبز ہلالی لباس، سبز و سفید چوڑیاں، سبز و سفید ٹوپیاں فروخت کیے جارہے ہیں۔ شہروں شہروں، گائوں گائوں کے بازار ڈیلی ویژن پر دکھائے جارہے ہیں۔ ہر شہر، ہر قصبے، ہر گائوں میں غریب اور متوسط طبقے کے ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ پاکستانی پرچم اور دیگر سامان خریدتے نظر آ رہے ہیں۔
کوئی اونچے گھروں والے بازاروں میں نظر نہیں آرہے۔ یہ غریب اور متوسط درجے کے لوگ ہی ہیں جن کا وطن صرف پاکستان ہے جن کا مرنا جینا پاکستان کے ساتھ ہے ''اونچوں'' کا کیا ہے۔ ان کے دو دو، تین تین، چار چار وطن ہیں اور پاکستان سے کہیں بڑے دولت مند وطن ہیں جن کے یہ اونچے شہری ہیں۔ امریکا، کینیڈا، فرانس، برطانیہ ودیگر کے وطن ہیں یہ اونچے وہاں کے جشن آزادی مناتے ہیں۔ پاکستان تو غریبوں کا وطن ہے اور اسی لیے پاکستان کے بازاروں میں غریب ہی جشن آزادی کی خریداری کرتے نظر آرہے ہیں۔
56 فی صد پاکستان تو اپنی اونچوں کی حرکتوں کی وجہ سے کھوگیا۔ اور اب یہ اونچے باقی ماندہ 44 فی صد پاکستان کے بھی پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ غریب 56 فی صد پاکستان کے کھوجانے پر بڑا رویا تھا۔ کئی دن کھانا نہیں کھایا تھا، غریب ہے اور غریب آج بھی کھوجانے والے پاکستان کے لیے روتا ہے۔ کھوجانے والا پاکستان اور اس کے لوگ! وہ لوگ تھے جنھوں نے پاکستان کے قیام میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا اور ان ''اونچوں'' نے انھی ہر اول دستے والوں کو خون میں نہلادیا۔
بقول غریبوں کے شاعر جالب کے ''اے جیوندے ادھ مویا کرکے میرا پاکستان'' یعنی ''یہ زندہ ہیں میرے پاکستان کو ادھ مویا کرکے'' یہ اونچے لوگ آج بھی اپنے حرکتوں سے باز نہیں آرہے اور پاکستان کا مال لوٹ کر اپنے دوسرے وطنوں میں لے جارہے ہیں۔ ان کا رستہ کون روکے گا؟ ان کا رستہ کیسے رکے گا؟ انھی سوالوں کے تانے بانوں میں بہت سے دن رات گزر گئے اور باقی گزررہے ہیں۔ استاد امن کا شعر یاد آگیا ہے:
خون جگر دا، تلی تے دھر کے تے
دھرتی پوچدے پوچدے گزر چلے
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے
یعنی جگر کا خون ہتھیلی پر رکھ کر دھرتی کو پوچا مارتے، صاف کرتے عمر گزر گئی، یہاں زندگی کیسے گزاریں، یہی سوچنے سوچتے مرن کنارے آگئے۔
سنا ہے ایک عمران نامی شخص آیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ غاصبوں، لٹیروں کا رشتہ میں روکوںگا، میں ان کا پیچھا کروںگا، سارے کہن نقش مٹادوںگا، بلڈوزر چلوادوںگا، کسی ظالم کو نہیں چھوڑوںگا، احتساب مجھ سے اور میرے ساتھیوں سے شروع ہوکر نیچے تک جائے گا، غریبوں کو اوپر اٹھائوںگا۔
سنا ہے! لاکھوں لوگ اس کے ہم آواز ہوگئے ہیں۔ چلو دیکھتے ہیں اگر ایسا ہے تو بہت اچھا ہے۔
کام بڑا مشکل ہے، آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ کہتے ہیں عمران بھاری پتھر اٹھانے کا عادی ہے، ناممکن کو ممکن بنانا اس کا مشغلہ ہے، وہ ایسے لوگوں کو گھیرتا ہے جو کسی گھیرے میں نہیں آتے۔ چلو یہ سب کچھ ہے تو ہم دیکھ لیتے ہیں۔ ہم اپنی منزل کی جانب جارہے ہیں، چلتے چلتے یہ سب بھی دیکھے لیتے ہیں، دیکھ لینے میں کیا حرج ہے۔
تبدیلی کی ایک جھلک تین روز پہلے دیکھنے کو ملی۔ میں اب عرصہ ہوا رکشوں میں ہی سفر کرتا ہوں، میرے تینوں بیٹوں کے پاس اپنی اپنی گاڑی ہے، وہ اپنے دفتروں کو چلے جاتے ہیں، میرے گھر کے چوراہے پر رکشے والے کھڑے ہوتے ہیں، سبھی مجھے جانتے ہیں، میں انھی کے ساتھ آتا جاتا ہوں۔ تین روز پہلے میں رکشے میں اپنے بینک گیا۔ واپسی میں آرٹس کونسل کراچی رکا، رکشے والا باہر کھڑا رہا۔
دس منٹ بعد رکشے والا مجھے لے کر گھر کی جانب چلا۔ آرٹس کونسل کراچی کے فوارہ چوک پر سفید وردی والے ٹریفک پولیس سپاہی نے رکشے والے کو روک لیا۔ کچھ فاصلے پر کھڑا ایک پھول والا اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھی آگیا، اس نے رکشے والے سے لائسنس طلب کیا۔ رکشے والا بولا ''خدا کی قسم میرے پاس لائسنس ہے، مگر آج میں گھر بھول آیا ہوں'' میں نے حسب عادت پولیس انسپکٹر سے پوچھا ''آپ اس سے لائسنس کیوں طلب کررہے ہیں'' میں نے مزید کہا ''میں صحافی ہوں اور آرٹس کونسل کا ممبر ہوں اور یہ میرا ڈرائیور ہے''۔
''مجھے اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے''۔ پھر انسپکٹر نے مجھے یہ بھی کہا میں جانتا ہوں آپ کے اندر کیا چل رہا ہے کہ اس رکشے والے نے سگنل نہیں توڑا، ون وے کی خلاف ورزی نہیں کی، میں تو صرف لائسنس دیکھنا چاہتا ہوں اور جب پولیس انسپکٹر نے مجھے کہا دیکھیں جناب! آپ کارِ سرکار میں مداخلت کررہے ہیں۔ تو سچی بات ہے میں یہ سن کر بہت خوش ہوا، اور میں نے رکشے والے سے کہا ''دکھائو بھئی اپنا لائسنس'' رکشے والا پھر شروع ہوگیا۔ یقین کرو، انسپکٹر صاحب لائسنس گھر میں رہ گیا ہے۔ انسپکٹر نے رکشے والے سے کہا کپڑے پہن کر گھر سے نکلا ہے، کپڑے بھی نہ پہنتا اور ننگا ہی نکل آتا۔ یہ کہہ کر انسپکٹر پولیس نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا ''چل جا''۔
میں انسپکٹر پولیس کی اس بات پر خوش ہوا تھا جو اس نے بڑے رعب کے ساتھ مجھے کہی تھی۔ دیکھیں جناب آپ کار سرکار میں مداخلت کررہے ہیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ میرا انسپکٹر پولیس سے مزید کچھ کہنا خطرناک ہوسکتا تھا اور پولیس انسپکٹر کی وارننگ کے بعد بھی میں اپنی حیثیت کا مزید اظہار کرتا تو پولیس انسپکٹر وائرلیس سیٹ پر دو تین پولیس والے بلوا کر ہم دونوں یعنی رکشے والے اور مجھے پولیس چوکی لے جاتا، ہمیں حوالات میں بند کرتا اور علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرکے جیل بھجوادیتا۔ میں اس واقعے سے پہلے بھی اپنا صحافی ہونا بتاکر غریب رکشے والوں کو بچالیا کرتا تھا اور پولیس والے مجھے سلیوٹ مار کر رکشے والے کو چھوڑ دیتے تھے۔ مگر اب شاید واقعی تبدیلی آگئی ہے۔
چلو بہت اچھا ہے، میرے جیسے بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں، کوئی صحافی، کوئی وکیل، کوئی فلم ٹی وی، اداکار، کوئی کھلاڑی، اب کسی کی حیثیت کام نہیں آئے گی۔ ہم تک ہی اگر یہ تبدیلی آگئی ہے تو خدا کرے پولیس والوں کی یہ جرأت کالے شیشوں والی گاڑیوں تک بھی پہنچ جائے اور یہ بلا خوف و خطر کار سرکار پر عمل درآمد کرتے نظر آئیں۔ غریب بے چارہ تو غربت کی چکی میں پستا ہی رہا ہے۔ سارے قانون اور ان کا اطلاق غریبوں ہی پر واجب نہیں۔ دولت مندوں کے لیے کوئی آئین، کوئی قانون نہیں ہے۔ جنرل ضیا الحق نے کہاتھا ''یہ آئین کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، کاغذوں کا چیتھڑا'' صحیح کہا تھا جنرل صاحب نے۔
14 اگست آنے والی ہے، پچھلے عشرے سے پورے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں، گائوں، دیہاتوں کے بازاروں میں جشن آزادی منانے کے لیے پاکستانی پرچم کاغذ کی جھنڈیا، بیجز، سبز ہلالی لباس، سبز و سفید چوڑیاں، سبز و سفید ٹوپیاں فروخت کیے جارہے ہیں۔ شہروں شہروں، گائوں گائوں کے بازار ڈیلی ویژن پر دکھائے جارہے ہیں۔ ہر شہر، ہر قصبے، ہر گائوں میں غریب اور متوسط طبقے کے ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ پاکستانی پرچم اور دیگر سامان خریدتے نظر آ رہے ہیں۔
کوئی اونچے گھروں والے بازاروں میں نظر نہیں آرہے۔ یہ غریب اور متوسط درجے کے لوگ ہی ہیں جن کا وطن صرف پاکستان ہے جن کا مرنا جینا پاکستان کے ساتھ ہے ''اونچوں'' کا کیا ہے۔ ان کے دو دو، تین تین، چار چار وطن ہیں اور پاکستان سے کہیں بڑے دولت مند وطن ہیں جن کے یہ اونچے شہری ہیں۔ امریکا، کینیڈا، فرانس، برطانیہ ودیگر کے وطن ہیں یہ اونچے وہاں کے جشن آزادی مناتے ہیں۔ پاکستان تو غریبوں کا وطن ہے اور اسی لیے پاکستان کے بازاروں میں غریب ہی جشن آزادی کی خریداری کرتے نظر آرہے ہیں۔
56 فی صد پاکستان تو اپنی اونچوں کی حرکتوں کی وجہ سے کھوگیا۔ اور اب یہ اونچے باقی ماندہ 44 فی صد پاکستان کے بھی پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ غریب 56 فی صد پاکستان کے کھوجانے پر بڑا رویا تھا۔ کئی دن کھانا نہیں کھایا تھا، غریب ہے اور غریب آج بھی کھوجانے والے پاکستان کے لیے روتا ہے۔ کھوجانے والا پاکستان اور اس کے لوگ! وہ لوگ تھے جنھوں نے پاکستان کے قیام میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا اور ان ''اونچوں'' نے انھی ہر اول دستے والوں کو خون میں نہلادیا۔
بقول غریبوں کے شاعر جالب کے ''اے جیوندے ادھ مویا کرکے میرا پاکستان'' یعنی ''یہ زندہ ہیں میرے پاکستان کو ادھ مویا کرکے'' یہ اونچے لوگ آج بھی اپنے حرکتوں سے باز نہیں آرہے اور پاکستان کا مال لوٹ کر اپنے دوسرے وطنوں میں لے جارہے ہیں۔ ان کا رستہ کون روکے گا؟ ان کا رستہ کیسے رکے گا؟ انھی سوالوں کے تانے بانوں میں بہت سے دن رات گزر گئے اور باقی گزررہے ہیں۔ استاد امن کا شعر یاد آگیا ہے:
خون جگر دا، تلی تے دھر کے تے
دھرتی پوچدے پوچدے گزر چلے
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے
یعنی جگر کا خون ہتھیلی پر رکھ کر دھرتی کو پوچا مارتے، صاف کرتے عمر گزر گئی، یہاں زندگی کیسے گزاریں، یہی سوچنے سوچتے مرن کنارے آگئے۔
سنا ہے ایک عمران نامی شخص آیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ غاصبوں، لٹیروں کا رشتہ میں روکوںگا، میں ان کا پیچھا کروںگا، سارے کہن نقش مٹادوںگا، بلڈوزر چلوادوںگا، کسی ظالم کو نہیں چھوڑوںگا، احتساب مجھ سے اور میرے ساتھیوں سے شروع ہوکر نیچے تک جائے گا، غریبوں کو اوپر اٹھائوںگا۔
سنا ہے! لاکھوں لوگ اس کے ہم آواز ہوگئے ہیں۔ چلو دیکھتے ہیں اگر ایسا ہے تو بہت اچھا ہے۔
کام بڑا مشکل ہے، آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ کہتے ہیں عمران بھاری پتھر اٹھانے کا عادی ہے، ناممکن کو ممکن بنانا اس کا مشغلہ ہے، وہ ایسے لوگوں کو گھیرتا ہے جو کسی گھیرے میں نہیں آتے۔ چلو یہ سب کچھ ہے تو ہم دیکھ لیتے ہیں۔ ہم اپنی منزل کی جانب جارہے ہیں، چلتے چلتے یہ سب بھی دیکھے لیتے ہیں، دیکھ لینے میں کیا حرج ہے۔